• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے جب شعور کے شہر میں قدم رکھاتو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ ہمارے گھر کے قریب ایک ڈپوتھا جہاں سے کارڈدکھاکر آٹا اور چینی ملتے تھے۔وہاں اکثر قطار لگی ہوئی ہوتی تھی مگر لوگ کہتے تھے کہ حالات ایوب خان کے دور ِ حکومت سے بہترہیں جب حبیب جالب کہاکرتے تھے بیس روپیے من آٹا۔ اور اس پربھی ہے سناٹا۔ صدر ایوب زندہ۔پھر اس حکومت کے خلاف جلسے جلوس ہونے لگے ۔لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جیل میں ڈالنے کا عمل شروع ہوگیا ایک رات پولیس والوں نے ہمارے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا میرے بڑے بھائی محمد اشفاق چغتائی مرحوم جو اس وقت گورنمنٹ کالج میانوالی کی سٹوڈنٹ یونین کے صدر تھے پولیس انہیں گرفتار کرنے آئی تھی ابو نے جب مجسٹریٹ سے اشفاق بھائی کا جرم پوچھاتو اس نے کہا کہ آپ کے بیٹے نے ریلوے لائن کوبارود سے اڑانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے اس جملے کے بعد ابو اور مجسٹریٹ دونوں ہنس پڑے تھے ۔کچھ دنوں کے بعدجنرل ضیاء الحق کادور ِ حکومت آگیامیں بڑا خوش تھا کہ ہمارے گھر پہلے دو بارہ بور بندوقیں اورایک سیون ایم ایم کی رائفل تھی اب ہم نے ایک کلاشن کوف بھی خرید لی تھی۔ہمارے گھر کے پیچھے رفیع اللہ نام ایک آدمی رہتا تھا جو اکثر رات کو شراب پی کر غل غپاڑا کیا کرتا تھا پتہ چلا کہ ایک ہیروین نامی نشہ آیا ہے جو بہت تیز ہے اور اس نے شراب چھوڑ کر ہیروین پینی شروع کردی ہے اس لئے اب وہ غل غپاڑا نہیں کرتا۔ ہمارے گھر کے ساتھ ہی جو گلی شہر سے باہر جاتی تھی اس کے آخر میں ایک چھوٹی سی ”چونگی “ کی عمارت تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ شام کے وقت اس کے برآمدے میں بہت سے ہیروینی ہیروین پی رہے ہیں۔کچھ دنوں کے بعد میں نے دیکھاکہ ہمارے محلے میں جو میجر رہتے ہیں اور جو بلوچستان میں کسی شہر کے انچارج تھے وہ ریٹائرڈ ہو کرواپس آگئے ہیں اور انہوں نے 18 نئی بسیں خریدلی ہیں۔ایک میجر کی اتنی کمائی میرے لئے بہت حیران کن تھی ۔ایک دن پتہ چلا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے مجھے بہت تکلیف ہوئی ۔ڈاکٹر انور خان نیازی جو عمران خان کے باپ کے شاید چچا زاد بھائی تھے اور پیپلز پارٹی کے ڈویژنل صدر تھے، ہمارے گھر کے بالکل سامنے ان کا کلینک تھا میں ان کے پاس گیاکہ میں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونا ہے اور اس وقت جب لوگ پیپلز پارٹی چھوڑ رہے تھے یہ بے وقوف نوجوان پیپلز پارٹی شامل ہوگیا تھااور خاصا سرگرم رہا یہاں تک کہ فخر زمان جب میانوالی آئے تو انہوں نے مجھے ضلع میانوالی کے پیپلز پارٹی کے کلچرل ونگ کا چیئرمین بنایاتھا۔بہر حال جیسے تیسے جنرل ضیا کا طیارہ بھی ہوا میں پھٹ گیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکی حکومت آگئی ،میرے قریبی دوست ڈاکٹر شیرافگن خان جنہوں نے جنرل ضیاء کے دور میں کہا تھا کہ میں آئین کا قاتل بن کر میانوالی واپس نہیں جاؤں گا پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔
شریف آدمیوں کے منہ سونگھنے اور جوڑوں سے پارکوں میں نکاح نامے طلب کرنے کی روایت ختم ہوئی ۔مگر معاشی معاملات میں کوئی بہتری نہ ہوئی اسی طرح لوگ دنوں اور مہینوں میں امیر ہوتے رہے ۔اٹھارہ مہینے کے بعد وہ حکومت بھی ختم کردی گئی۔نواز شریف کولے آیا گیا مگر کرپشن اسی شان سے ہوتی رہی امیر امیر سے امیر تر ہوتے رہے ،کہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی طرح انہوں نے بھی ملکی حالات میں بہتری لانے کی کوشش کی تھی جس کے جرم میں ان کی حکومت کو فارغ کیا گیا تھا وہ عدالت میں چلے گئے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ان کے حق میں فیصلہ سنادیا ۔میں ان دنوں لاہور میں ہوتا تھا اور پی ٹی وی کیلئے ڈرامے لکھا کرتاتھا جب نواز شریف کی حکومت بحال کی گئی تو اسی رات عطاالحق قاسمی میرے پاس گھر تشریف لائے اور مجھے کہا کہ اپنے ڈاکومنٹس دو تاکہ میں کل نواز شریف سے تمہارے پی ٹی وی میں پروڈوسر کے آڈر کرادوں میں نے لمحہ بھر ان کی آفر پر غور کیا اور پھر انکارکر دیاکہ مجھے ملازمت نہیں کرنی۔یہاں یہ وضاحت بڑی ضروری ہے کہ عطاالحق قاسمی اور نواز شریف کا تعلق ایک صحافی اور ایک سیاست دان کا نہیں ہے دونوں بچپن کے دوست ہیں ۔دونوں کے والدین بھی آپس میں گہرے دوست تھے ۔ دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ دونوں کے تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عطاالحق قاسمی کی شادی کے وقت ”نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بھائی عطاالحق قاسمی کے ”شہ بالے “ تھے اور شادی کا تمام انتظام میاں شریف کے ہاتھ میں تھااس بات کی خبر مجھے آج سے بیس سال پہلے عطاالحق قاسمی کی شادی کا البم دیکھنے سے ہوئی تھی۔
نواز شریف کو نکالنے کے بعدپھر محترمہ بے نظیر بھٹوکو آنے دیا گیا۔مگر ملک میں جو کرپشن کی ڈھلوان جنرل ضیا الحق بناگئے تھے اسی پر پاؤں نہیں ٹھہر سکتے تھے ہر شخص لڑھکتا جارہا تھا سول بیورکریسی ، ملٹری بیورکریسی ، عدلیہ ، سیاست دان سبھی اسی ڈھلوان سے اس وادی میں گرتے رہے جہاں پاکستان کا خزانہ پڑا ہوا تھا۔میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کا یہ دور ڈاکٹر شیرافگن کے ساتھ اسلام آباد میں گزاراتھا۔زندگی میں پہلی بارمجھے اقتدار کو اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا،ڈاکٹر شیر افگن وفاقی وزیر تھے اور محترمہ کے بہت قریب تھے۔ کراچی کا ایک صاحب ایک دوست کی وساطت سے میرے پاس پہنچے ان کا کراچی پورٹ پر کوئی کام تھا ۔کاغذات ان کے پاس تھے ان پر صرف محترمہ بے نظیر بھٹو کے دستخط درکار تھے اور اس کام کا معاوضہ بیس کروڑ روپے تھا۔میں نے انہیں ساتھ لیا اور ڈاکٹر شیرافگن کے فلیٹ میں پہنچ گیاجہاں ہم روزرات کوبیٹھ کر’کنتوری “کھیلا کرتے تھے اور یہ وہی وقت تھا۔میں نے ان صاحب کی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرائی ،کاغذات نکال کر دئیے انہوں نے کہا میں صبح محترمہ سے دستخط کرا دوں گا آپ منصور کے دوست ہیں اور ہمارے علاقے میں کہتے ہیں ”یار داسنٹریم یار تے گل چالایا ہم “میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا ”ابھی بات ادھوری ہے، وعدہ مت کیجئے “انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور میں نے کہا ”ان دستخطوں کے ساتھ بیس کروڑ روپے منسلک ہیں جودستخط ہوجانے پر ہمیں ملیں گے ۔“انہوں نے تاش کے پتے ایک طرف رکھ دئیے اور پریشانی کے عالم میں کہا ” بیس کروڑ ۔۔“پھر مجھ سے پوچھا ”اگر اتنے پیسے منصور ہمارے پاس آگئے تو کیا رات کونیند آئے گی“میں نے ہنس کر کہا ”مجھے تو نہیں آئے گی آپ کا پتہ نہیں“انہوں نے کاغذات میز سے اٹھا کر ان صاحب کو دیتے ہوئے کہا ،آپ کھاناکھا چکے ہیں ، چائے پی چکے ہیں کچھ اور چاہئے تو پیش کردیتا ہوں یہ کاغذات لیجئے اور یہاں سے تشریف لے جائیے ۔یہ جس کے ساتھ آپ آئے ہیں یہ شاعر ہے اور میں ایک سماجی اور سیاسی ورکر ہوں ہم دونوں کوصرف اتنا کھانا چاہئے جتنا کھانے کے بعد سکون سے نیند آجائے ۔اس واقعہ کے ایک ہفتے کے بعد میرے دوست نے مجھے بتایا کہ فلاں منسٹرنے ان کاغذات پر بیس کروڑ روپے لے کر محترمہ سے دستخط کرادئیے ہیں۔
پھر محترمہ کی حکومت کا قتل فاروق لغاری کے ہاتھوں کرادیا گیا نواز شریف بھاری اکثریت سے جیت کر حکومت میںآ گئے مگر کرپشن میں کوئی فرق نہ آیا۔ملک کی معاشی صورت حال اور بگڑتی چلی گئی ۔ نواز شریف نے” قرض مکاؤ “مہم شروع کی اربوں ڈالر اکٹھے ہوئے مگر قرض نہ اترا۔پرویز مشرف آگئے۔انہوں نے آتے ہی بڑے نعرے لگائے ۔مگر چند مہینوں بعد تمام کرپٹ سرمایہ دار ان کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے اور کرپشن کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا تھاپھرمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید کر دی گئیں اورقصاص کے طور پر آصف زرداری کوصدر مملکت بنا دیاگیامگرحالات میں کوئی بہتری نہ آئی ،معاشی صورت حال جوں کے توں رہی بلکہ اور ابتر ہو گئی۔حتی کہ لوڈشیڈنگ نے ملک کو اندھیروں میں ڈبو دیا کہیں روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہ دی ۔صرف اتنا ہوا کہ پہلی حکومتوں میں کرپشن کی کہانیاں ان کے ختم ہونے پر سامنے آتی تھیں اس مرتبہ دورانِ حکومت سامنے لگیں ۔ منسٹرز کو جیل بھیجا گیاوزیر اعظم کو سزا سنا دی گئی۔۔ ہاں اس عرصہ میں عدلیہ بھی آزاد ہوئی مگر اس آزادی کے ثمرات عوام تک نہ ہونے کے برابر پہنچے، پہلی بار ہلکی سی روشنی کی کرن اصغر خان کیس کے فیصلے سے دکھائی دی۔لگا کہ شاید اجالوں کی سمت سفر جاری ہے ،اب پھر الیکشن آگئے ہیں اورمسلم لیگ نون کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی باری لے چکی ہے سو اب ان کی باری ہے ۔ ”ست بسم اللہ “وہ آجائیں، کیا فرق پڑے گا ،کچھ بھی نہیں ،پچھلے پانچ سال سے پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت ہے۔ کیا فرق پڑ گیا ہے۔پورے ملک میں آگئی تو کونسی تبدیلی آجائیگی اس ساری صورت حال میں صرف ایک امید افزاء بات نظر آتی ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ تحریک انصاف بھی پوری توانائی کے ساتھ موجودہے اوراس کے لیڈر عمران خان کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ بھی نہیں ہے مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ انہیں اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی تک ایک ہو سکتی ہیں مگر اللہ تعالی پاکستان پر رحم بھی تو کرسکتا ہے۔سو عمران خان سے درخواست ہے کہ دنیا کے تمام کام چھوڑ کر اپنی نیندیں قربان کرکے دن رات صرف اپنی انتخابی مہم جاری رکھیں۔اللہ تعالی یقینا ان کا حامی و ناصر ہوگا۔
تازہ ترین