• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’سرجیکل اسٹرائک‘ کے اندر کی کہانی

29 ستمبر 2016 کو بھارتی فوجی آپریشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رنویر سنگھ نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھاکہ بھارت نے سرحد پار انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائک کی ہے تو پوری دنیا حیران رہ گئی، یہ پہلی بار تھا کہ بھارتی فوج دنیا کو صاف بتا رہی تھی کہ واقعی اس نے ایسا کیا تھا۔

سرجیکل اسٹرائک کیا ہے؟

بھارتی نقطہ نظر کے مطابق دشمن کے ٹھکانے کو نشانہ بنانا اور واپس آجانا سرجیکل سٹرائیک کہلاتا ہے،اس طرح کے حملے دنیا بھر میں ہوتے ہیں،یہ حملہ اچانک اور تیز رفتاری سے کیا جاتا ہے ۔

اڑی حملہ

18 ستمبر 2016 کو اڑی حملہ جموں و کشمیر کے اڑی سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کے نزدیک بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹر پر 4مسلح افراد کی جانب سے کیا گیا جس میں 17 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ بھارتی فوجی دستوں کی جوابی کارروائی میں چاروں حملہ آور بھی مارے گئے تھے۔

پچھلے تقریباً 20 سالوں میں بھارتی فوج پر کیا گیا یہ سب سے بڑا حملہ کہلاتا ہے جس کے بعد بھارتی میڈیا اور مودی حکومت نے پاکستان پرالزام تراشیاں شروع کر دی تھیں۔ بعد ازاںپاکستانیوں کے خلاف شواہد نہ ملنے پر کیس بند کردیا گیا تھا۔

سرجیکل اسٹرائک‘ کے اندر کی کہانی پر مبنی کتاب میں کیا لکھا ہے؟

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں اڑی حملے کے بعد’سرجیکل اسٹرائک‘ کے اندر کی کہانی پر مبنی ایک کتاب ’انڈیاز موسٹ فیئرلیس – ٹرو اسٹوریز آف ماڈرن ملٹری ہیروز‘ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔


’سرجیکل اسٹرائک‘ کے اندر کی کہانی

کتاب میں لکھا ہے کہ بھارتی فوج نےسرحد پار انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی ذمہ داری ایلیٹ پیرا ایس ایف کے ٹو آئی سی میجر مائک ٹینگو کو دی ۔یہ ان کا اصلی نام نہیں ہے، سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پوری کتاب میں ان کے لیے ان کے اس آپریشن کے دوران ریڈیو نام مائک ٹینگو کا ہی استعمال کیا گیا ہے۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اس دوران دلی میں اس پوری معاملے کو اس طرح لیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو سوائے اس کے نریندر مودی نے یہ ضرور کہا کہبھارت اور پاکستان کو غریبی، ناخواندگی اور بےروزگاری کے خلاف لڑائی لڑنی چاہیے۔

اقوام متحدہ میں سُشما سوراج نے بھی اڑی پربھارت کے غصے کا کوئی اظہار نہیں کیا۔ پاکستان کو یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے جب کہ اندر ہی اندر سرجیکل سٹرائک کی تیاری زوروں پر تھی۔

کتاب کے مصنف راہل سنگھ بتاتے ہیں، ’میجر ٹینگو کی ٹیم نے پاکستان کے اندر اپنے چار ذرائع سے رابطہ کیا۔ اس میں سے دو پاکستان کے زیر انتظامکشمیر کے گاؤں والے تھے اور دو جیش محمد میںبھارت کے لیے کام کرنے والے جاسوس تھے۔ چاروں نے الگ الگ اس بات کی تصدیق کی کہ انتہا پسندوں کے لانچنگ پیڈس میں وہ موجود ہیں۔‘

مائک ٹینگو کی قیادت میں 19 انڈین جوانوں نے 26 ستمبر کی رات ساڑھے آٹھ بجے اپنے ٹھکانوں سے پیدل چلنا شروع کیا اور 25 منٹ میں انہوں نے ایل او سی کو پیچھے چھوڑ دیا۔

ٹینگو یہ سوچ کر چل رہے تھے کہ اس مشن کا سب سے مشکل پہلو واپسی ہوگی، جب پاکستانیوں کو ان کے وہاں ہونے کے بارے میں پوری معلومات مل چکی ہوں گی۔ ان کی ٹیم جان سے ہاتھ دھو بیٹھنےکے لیے ذہنی طور پر تیار بھی تھی۔

چار گھنٹے چلنے کے بعد ٹینگو اور ان کی ٹیم ہدف کے بالکل نذدیک پہنچ گئے۔وہ ہدف سے 200 میٹر کی دوری پر تھے جب وہ ہوا جس کی انہیں انید نہیں تھی۔

لانچ پیڈ سے اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔ ایک سیکنڈ کے لیے انہیں لگا کہ پاکستانیوں کو ان کے آنے کا پتا چل گیا ہے۔

سارے جوان ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں زمین پر پیٹ کے بل لیٹ گئے، لیکن ٹینگو کے تجربہ کار کانوں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ اندازہ سے کی گئی فائرنگ ہے اور اس کا نشانہ ان کی ٹیم نہیں ہے۔

لیکن ایک طرح سے یہ بری خبر بھی تھی، کیونکہ اس سے صاف ظاہر تھا کہ لانچ پیڈ کے اندر موجود انتہا پسند چوکننے تھے۔

ٹینگو نے طے کیا کہ وہ اس علاقے میں چھپے رہیں گے اور اپنا حملہ 24 گھنٹے بعد اگلی رات میں کریں گے۔

شِو ارور کہتے ہیں، ’یہ اس آپریشن کا سب سے حساس اور خطرناک حصہ تھا۔ رات کے اندھیرے میں تو دشمن کے علاقے میں چھپے رہنا شاید اتنا مشکل کام نہیں تھا، لیکن سورج چڑھنے کے بعد اس علاقے میں موجود رہنا خاصا خطرے کا کام تھا۔

’سرجیکل اسٹرائک‘ کے اندر کی کہانی

لیکن اس سے انہیں ایک فائدہ ضرور ہونے والا تھا کہ انہیں اس علاقے کو سمجھنے اور حکمت عملی تیار کرنے کے لیے 24 گھنٹے اور ملنے والے تھے۔ ٹینگو نے آخری بار سیٹیلائٹ فون سے اپنے ٹی او سے رابطہ کیا اور پھر اسے بند کر دیا۔

آدھی رات کو دلی سے 1000 کلومیٹر دور ٹینگو اور ان کی ٹیم اپنے چھپے ہوئے ٹھکانے سے نکلی اور انہوں نے لانچ پیڈ کی طرف بڑھنا شروع کیا۔

لانچ پیڈ سے 50 گز پہلے ٹینگو نے اپنی نائٹ وژن ڈیوائس سے دیکھا کہ دو لوگ انتہا پسندوں کے ٹھکانے پر پہرا دے رہے ہیں۔

راہل سنگھ کہتے ہیں، ’ٹینگو نے 50 گز کی دوری سے نشانہ لگایا اور ایک ہی برسٹ میں دونوں انتہا پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ پہلی گولی چلنے تک ہی کمانڈوز کے دل میں تناؤ رہتا ہے۔ گولی چلتے ہی یہ تناؤ جاتا رہتا ہے۔‘

اس کے بعد تو گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے ٹینگو کے کمانڈوز لانچ پیڈ کی طرف بڑھے۔ اچانک ٹینگو نے دیکھا کہ انتہا پسند جنگلوں میں بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ ان پر پیچھے سے حملہ کر سکیں۔

ٹینگو نے اپنی 9 ایم ایم بیریٹا سیمی اوٹومیٹک پسٹل نکالی اور 5فٹکی دوری سے ان انتہا پسندوں پر فائر کر کے انہیں گرا دیا۔

شِو ارور کہتے ہیں، ’مائک ٹینگو اور ان کی ٹیم وہاں پر 58 منٹ تک رہی۔ انہیں پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ وہ لاشوں کو گننے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ لیکن ایک اندازہ کے مطابق چار اہداف پرکل 38-40 انتہا پسند اور دوپاکستانی فوجی مارے گئے۔

اب ٹینگو کے سامنے اصل چیلینج یہ تھا کہ کس طرح واپس انڈین سرحد پر پہنچا جائے، کیونکہ اب تک پاکستانی فوج کو انکی موجودگی کے بارے میں پتہ چل چکا تھا۔

راہل سنگھ کہتے ہیں، ’مائک ٹینگو نے ہمیں بتایا کہ اگر میں کچھ اِنچ اور لمبا ہوتا تو آپ کے سامنے بیٹھ کر بات نہ کر رہا ہوتا۔ پاکستانی فوجیوں کی گولیاں ہمارے کانوں کے پاس سے ہوکر گزر رہی تھیں۔ جب آٹومیٹک ہتھیار کی گولی کان کے اتنا قرین سے گزرتی ہے یو آواز آتی ہے۔۔ پُٹ پُٹ پُٹ۔۔۔ ہم چاہتے تو اسی راستے سے واپس آ سکتے تھے جس سے ہم وہاں گئے تھے۔ لیکن ہم نے جان بوجھ کر واپسی کا لمبا راستہ چنا۔‘

’ہم پاکستانی علاقے میں اور اندر گئے اور پھر وہاں سے واپسی کے لیے واپس مڑے۔ بیچ میں 60 میٹر کا ایک ایسا حصہ بھی آیا جہاں کوور لینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ سارے کمانڈوز نے پیٹ کے بل چلتے ہوئے اس علاقے کو پار کیا۔‘

’ٹینگو کی ٹیم نے صبح ساڑھے چار بجے بھارتی علاقے میں قدم رکھا لیکن تب بھی وہ پوری طرح سے محفوظ نہیں تھے۔ لیکن تب تک وہاں پہلے سے موجود بھارتی فوجیوں نے انہیں کوور فائر دینا شروع کر دیا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس پورے مشن میں ٹینگو کی ٹیم کا ایک بھی رکن نہ تو مارا گیا اور نہ ہی زخمی ہوا۔‘

تازہ ترین