• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھر کی تعمیر کے ساتھ پانی کا انتظام

حب ڈیم سے23کلو میٹر طو یل کینال اورپائپ لائنوں کے ذریعے کراچی شہر میںپانی سپلائی کیا جاتا ہے، تاہم اگرڈیم میں پانی ہی نہ ہو تو اتنی بڑی مقدار میں پانی کی قلت سے کس طرح بچنا ممکن ہے۔

کراچی میں زیرِ زمین پہلے30فٹ نیچے پانی ہوا کرتاتھا، پھر 50فٹ ہوا، پھر 90فٹ اور اب یہ110فٹ پر پہنچ چکا ہے اور بعض علاقوں میں تو200فٹ تک کھدائی کرنے پرپانی ملتاہے ۔ ایک عرصے سے کراچی کے باسی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بورنگ (کنویں کی کھدائی)کا سہارا لے رہے ہیں۔ اگر آپ گھر کی تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں تو مستقبل میںپانی کے مسئلے کو مدِ نظررکھتے ہوئے ابھی سے ہی بورنگ کروالینا بہتر عمل ہوگا۔ کنویں کی کھدائی کے دوران جہاں مناسب پانی آجاتا ہے، خواہ وہ100فٹ ہو یا200فٹ، وہاں کام روک دیا جاتا ہے -یہ عموماً وہاں ہوتا ہے جہاں آپ کو پانی کی گہرائی کا اندازہ نہ ہو۔

کنویں کی کھدائی کے لیے آپ کو ٹھیکیدار کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔اگر آپ کو اپنے علاقے میںپہلے سے کی گئی بورنگ کے بارے میں اندازہ ہے تو آپ تقریباً اتنے ہی فٹ کھدائی کا ٹھیکہ دے دیں –۔ ایک اور بات جو آپ نے ٹھیکیدار سے طے کرنی ہے کہ آیا وہ فٹ کے حساب سے پیسے لےگا یا پھرمجموعی تخمینہ لگاکر۔کچھ ٹھیکیدار دن کی دیہاڑی پر بھی ٹھیکہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، اس قسم کے ٹھیکیداروں سے بچنا چاہیے –۔ گہرائی کے علاوہ جو بات اہم ہے وہ کنویں کی گولائی کا سائز یاڈایا میٹر ہے۔ گھروں کے لیےعموماً 4انچ سے8انچ کاڈایا میٹر رکھا جاتا ہے۔پتھر کے کنویں میں عموماً ایک ہی ڈایا میٹر کی کسینگ ڈلتی ہےلیکن مٹی کے کنویں میں ایک سے زیادہ بھی ڈالی جا سکتی ہیں۔

ڈایا میٹر طے کرتے وقت ٹھیکیدار سے یہ بات اچھی طرح طےکر لیں کہ وہ کسینگ کے کتنے سیٹ ڈالے گا-اور آپ کو آخر میں کتنے ڈایا میٹر کا کنواں ملےگا- ویسے تو ٹھیکیدار زیرِ زمین پانی کی موجودگی کی گارنٹی نہیں دیتے لیکن یہ بات پہلے سے طے ہونی چاہیے کے آیا پانی نکلنےکا امکان ہے یا نہیں-گھرمیںکنویں زیادہ تر بوکی والی مشین سے کئے جاتے ہیں، بوکی کسی بھی گہرائی میں جا کر پھنس سکتی ہے-کبھی کبھار دھاتی رسہ ٹوٹ جاتا ہے یا کسی اور وجہ سے بوکی کنویں میں رہ جاتی ہے-یہ بات طے کرلینی چاہیے کہ اگر بوکی کنویں سے نہیں نکل سکی تو بورنگ والا نیا کنواںکھود کر دے گا یا نہیں-عموماً ٹھیکیدار نیا کنواں کھود کردے دیتے ہیں کیونکہ ٹھیکے کا مطلب ہی یہی ہے کہ چاہے جو بھی ہو جائے اس نے طے شدہ گہرائی مکمل کرنی ہے-ٹھیکیدار سےکنویں کی کھدائی مکمل ہونے کا متوقع وقت مقرر کر لیں-بورنگ کے کام میں کبھی بھی ٹھیکیدار آپ کو کنویں کی کھدائی کے مکمل ہونے کا صحیح وقت نہیں بتائے گا کیونکہ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ زیرِ زمین میں کس قسم کاپتھر ہے-ادائیگی کا طریقہ طے کر لینا چاہیے کیونکہ عموماً ٹھیکیدار درمیان میں خرچہ لیتے رہتےہیں اور باقی تمام پیسے کام مکمل ہونے کے بعدمانگتے ہیں- بورنگ مکمل ہونے کے بعد موٹر کی فٹنگ کا معاملہ بھی طے کر لینا چاہیے کیونکہ بورنگ والے موٹر فٹنگ کو علیحدہ آئٹم کہہ کر2 سے 3 ہزار روپے زیادہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

کراچی کے ہر علاقے میں کنویں کے پانی کا ذائقہ الگ ہے۔ایک دن میں50فٹ تک کھدائی کر لی جاتی ہے۔پتھریلے علاقوں میں کھدائی کرنا مشکل کام ہے تاہم 150فٹ کی بورنگ میں3دن لگ جاتے ہیں ۔ کھدائی مکمل ہونے کے بعد کیسنگ پائپ ڈالے جاتے ہیں، اس کے بعد پانی نکالنے اور ہوا کی کراسنگ کے لیے پائپ ڈالے جاتے ہیں۔ اس عمل کے بعد پانی کے حصول کے لیے کنویں کے سائز کے مطابق ڈیپ ویل پمپ نصب کیے جاتے ہیں ۔ مشینی بورنگ کےلیے گھریلو صارفین سے250تا300 روپے فٹ اور کمرشل صارفین سے500تا 3000 روپے فٹ معاوضہ وصول کیا جاتا ہے۔ گھریلو صارفین کو مشینی بورنگ کروانے پرکم ازکم 50سے 80ہزار روپےکے اخراجات برداشت کرناپڑتے ہیں۔

پاکستان کے اس اقتصادی مرکز اور سب سے زیادہ آبادی والے اس شہر کو اس وقت یومیہ 1100 ملین گیلن پانی کی اشد ضرورت ہے جبکہ اس کو ملنے والے پانی کی مقدار صرف 550 ملين گيلن یومیہ ہے۔کراچی کو ملنے والے اس پانی میں مزید کمی بھی آئندہ آنے والے دنوں میں متوقع ہے۔ کوٹری بیراج جو کہ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے چھ اضلاع کو پانی فراہم کرتا ہے، وہاں پانی کے بہاؤ میں کمی آرہی ہے۔ پانی کی فراہمی میں کمی کے سبب سندھ کے چھ اضلاع کو کاشت کاری اور گھریلو اور صنعتی استعمال کے لیے پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

(نوٹ : بورنگ کے اخراجات حتمی نہیں، علاقے اور طلب کے حساب سے اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔) 

تازہ ترین