• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپریل 2018میں ’’جنگ گروپ‘‘ لاہور کی ڈیٹ لائن سے پولیس لائن ہیڈکوارٹرز اسلام آباد راولپنڈی لیڈی کانسٹیبلز سے زیادتی کے بھیانک اسکینڈل پر بات ختم ہوئی تھی۔ آئی جی اسلام آباد کے ترجمان نے تفصیلی رپورٹ جاری کرنے کا اعلان کیا۔ آج اپریل کی بجائے جون 2018کی بھی اختتامی تاریخ ہے، تفصیلی رپورٹ بہرحال منظر عام پر نہیں آئی!پولیس فورس کے موجودہ نظام کے پس منظر میں ایک دو مثالیں اور ملاحظہ فرمائیں۔ پنجاب پولیس کے مالیاتی ڈھانچے کو موضوع بناتے ہوئے مقامی معاصر نے ایک رپورٹ حاصل کی جس کے مطابق ’’2000سے اب تک 8بڑے فراڈ کیس، صوبائی خزانے سے 2ارب 60کروڑ روپے لوٹنے کے ثبوت مل گئے۔ یہ رپورٹ نومبر 2017میں شائع ہوئی۔ اسی نومبر 2017میں نئی پولیس فورس کی موجودگی میں 2017کے پہلے دس ماہ میں 286افراد قتل ہوئے مگر نئی پولیس فورس کسی کام نہ آئی۔ ۔‘‘ 
اپریل 2018میں اس پولیس فورس کا ایک مزید ریکارڈ سامنے آیا۔ یہ ریکارڈ ہمیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی صاحب کی زبان سے پتا چلتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران انہوں نے ریمارکس دیئے: ’’اسلام آباد پولیس کے 90 فیصد افسران جرائم میں ملوث ہیں۔ دارالحکومت میں جگہ جگہ شراب نوشی کے اڈے اور قحبہ خانے کھلے ہوئے ہیں۔ کوہسار مارکیٹ میں شیشے اور منشیات کے اڈے چل رہے ہیں۔ پولیس اپنی ذمہ داری پوری کرنے میںناکام ہے۔ قانون اجازت دے تو عصمت دری کرنے والے ڈی ایس پی کو ڈی چوک پر شوٹ کیاجائے۔‘‘
پاکستانی قوم اورپولیس تشدد، خصوصاً پنجاب پولیس کا باب، اس عنوان سے شاید سیاہ ترین ہوگا۔ پولیس تشدد اس قدر کھلم کھلا، طے شدہ اور بلاکسی ذہنی ہچکچاہٹ کے پاکستان کے ہر گھر پر چھایا ہواہے۔ قوم نے ذہناً اس بے ننگ و نام ماحول کو قبول کرلیا ہے۔ ’’ہر گھر پر چھایا ہوا‘‘ سے مراد قوم کی کم سے کم وہ 80فیصد سے زیادہ اکثریت ہے جس کے پاس پولیس تشدد، چاہےوہ کسی بھی نوعیت کا ہو، قانونی یا غیرقانونی، کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ آج بھی جب یہ لوگ ’’ملزم‘‘ یا ’’مجرم‘‘ پکڑنے کے نام پر جو کہانی لکھتے ہیں وہ ایسی زندگی سے موت بہتر کا مقولہ یاد دلاتی یا دوبدو لڑ کر جان دینے پر آمادہ کرتی ہے۔ چھاپے کے دوران میں پورے گھر کی عورتوں، بچوں، بزرگوں کی عزت و جان کو عریانی کے پاپ کی آخری حد تک لے جایا جاتا ہے۔ اس کارنامے سے فارغ ہو کر جس طرح یہ مسلح ریاستی جتھہ اس محلے یا علاقے سے روانہ ہوتا ہے، وہ کسی دشمن ملک کے غنیم کے سوا کوئی دوسرا تصور سامنے نہیں لاتا۔
چنانچہ آپ آج تک انسانی حقوق کمیشن کی شائع شدہ رپورٹوں کو جمع کرلیں، آپ کو ان رپورٹوں پر پولیس،خاص طور پر پنجاب پولیس کے سفاکانہ واقعات کےآگے شیطان بھی شرمسار اور سرنگوں ہوتا دکھائی دے گا۔ریگولر پولیس کے علاوہ ریاست کی دیگر انتظامی فورسز کی تاریخ بھی سرعام ظلم و بے انصافی کے بے خوف مظاہروں سے بھری ہوئی ہے۔ ابھی غالباً پچھلے سال یوکے سے آئی ہوئی کوئی پاکستانی فیملی واپس جانے کےلئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچی۔ وہاں کسی بات پر اس فیملی کی بچی کی کوئی تلخی ایف آئی اے کی کسی خاتون اہلکار سے ہوگئی، پھر پورا ایئرپورٹ اس بچی اوراس کے لواحقین کی چخ و پکار سے لرز اٹھا۔ ایک ریاستی فورس کے اس تشدد پر ہر پاکستانی شہری گم سم تھا۔ جب وہاں پر موجود کسی ایف آئی اے کے اہلکار نے یہ جملہ کہا ’’ہم یہاں ماں بہن کی گالیاں کھانے تو نہیںآتے!‘‘ یقیناً اس نے صحیح کہا اورا گر کسی شہری سے ایسی کوئی گستاخی ہو جائے تو اس کی عزت اور اس کی نسل تک اجاڑ دینی چاہئے مگر عام پاکستانیوں میں سے کاش کوئی اس اہلکار کی فرعون گردن پر ایڑی رکھ کے پوچھ سکتا ’’جن بے گناہ شہریوں کو ان اہلکاروں نے ہزاروں بار ماں بہن کی لاکھوں گالیاں دیں اور ایسے ایسے ظلم کئے جن کی تفصیل سے آسمان پھٹ پڑے، ان شہریوں کاحساب کون دے گا؟‘‘ چنانچہ پاکستان کی ریاستی فورسز اور عوام کے پس منظر میں رکھیں ہمیں کسی حتمی اپروچ پرگفتگو کا اختتام کرنا چاہئے!
پاکستان اپنے قیام کے 71ویں برس میں ہے۔ پولیس نے قیام پاکستان کے دوچار سال بعد ’’وسائل سے محرومی‘‘ کے نعرے پر پنجاب کے عوام کی روزانہ شدید بے عزتی، ملزموں اورمشکوکوں کو پکڑنے کے نام پر گھروں میں گھس کر لاکھوں خاندانوں کے احترام و وقار کو تکبر کے ساتھ خاک میں ملانے، گناہگاروں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں بیگناہوں کو قتل یا عبرتناک حد تک ذلیل کرنے،ہزاروں عورتوں کی گھروں، بازاروں اور تھانوںمیں مختلف درجوںپر بے حرمتی کرنے کے بے پناہ ظلم و جور کے جو سلسلے شروع کئے تھے، وہ تمام سلسلے 2018تک ملنے والے ’’بے پناہ وسائل‘‘ کے بعد کم یا ختم ہونے کے بجائے اپنی انتہائوں کو پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے عین مطابق کسی بھی قومی مصیبت میں پنجاب پولیس کی بربریت ’’پلے گرائونڈ‘‘ کی حدود کو ٹھوکریں مارتی گزر جاتی ہے۔ جیسا کہ آج کل دہشت گردی کے قومی عفریت سے ہم دوچارہیں چنانچہ پولیس اپنی شہادتوں کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگیوں کے لئے ایک ایسا سندیسہ ہے جو جب چاہے، جس کو چاہے دہشت گرد کے خلاف کارروائی کے نام پر کسی وقت بھی تاریک اور سرخ آندھیوں کے حوالے کرسکتا ہے۔
گویا اس مسلح جتھہ بند فورس نے اپنی قانون شکنی ذہنی کیمسٹری کو ’’وسائل سے محرومی‘‘ کے جس فریب کارانہ اور غیرحقیقی جواز میں چھپایا ہوا تھا، وہ کھل کر سامنے آچکا ہے۔ آج اس پنجاب پولیس کے پاس اختیارات، ہتھیار، ذرائع رسل و رسائل اور دولت کی شکل میں موجود وسائل مطلوب تعداد، مقدار اور حدود سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب کے تمام نہتے شہریوں کے ساتھ ان کی بہیمیت، درندگی اوررعونت میں ہزار فی صد اضافہ ہواہے۔ شہریوں کی اس تعداد میں پنجاب پولیس کے ڈائریکٹ اہل و عیال، حکمران اور ایسے طبقات و افراد شامل نہیںہیں جو جسمانی اور اسلحی طاقت، قانونی رتبے ا ور ڈنڈی پٹی ان کی گردنوں پر اپنی ایڑی رکھ سکتے ہیں۔
وقت نے ثابت کیا کہ وسائل سے محرومی اور ڈیوٹی اوقات کی زیادتی سے مزاج میں ’’چڑچڑاپن‘‘ جیسے دلائل اپنے خبیث رویوں کو جائز ثابت کرنے کی بے حسی کے سوا کچھ نہیں تھے۔ اگر کبھی ایسا تھایا اب کسی حد تک کہیں ایسا ہے، تب بھی اس پولیس نے اپنی ’‘محرومیوں‘‘ کے اس خودساختہ ملبے کا انتقام لینے کے لئے بیچارگی میں ڈوبے ہوئے عوام کے اس حصے کو منتخب کیا جس کی اکثریت حالات کی زنجیر میں پہلے ہی خائب و خاسر زندگی گزارتی ہے۔بلاشبہ اب اس پولیس کے پاس دن رات گشت کے لئے قیمتی گاڑیاں موجود ہیں۔ ڈی ایس پی سے لے کر آئی جی تک کی اعلیٰ پولیس قیادت سماج میں انتہائی برتری اور حاکمیت کی لذیذ ترین انانیت کے ساتھ ساتھ تنخواہوں، الائونسز، ذرائع رسل و رسائل، فنڈز اور متعدد دوسرے مادی مواقع و آلات کی جنت میں ’’اناولاغیری‘‘ کی کیفیت میں زندگی گزارتی ہے، پورے ملک کی آبادیوںکو گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر مشتمل فورسز کے سپاہیوں، حوالداروںاور سب انسپکٹروں نے گھیرے میں لے رکھاہے۔کسی ایک جگہ ڈکیتی، ایک قتل، ایک لڑائی ان گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پرسوار فورس کے اہلکاروں کی جانب سے پوری پوری آبادی کو یرغمال بنانے اور انہیں ذہناً بری طرح ٹکے ٹوکری کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ گشت سے جو وقت بچتاہے، وہ موقع ملنے پر کسی بھی شہری کو ان کا ‘‘ذاتی غلام‘‘ ہونے کا احساس دلانے پر صرف کیا جاتا ہے۔ پولیس کےہاتھوں ’’مجھے تم پر شبہ ہے لہٰذا.....‘‘ والی دفعہ 54عوام کی مندرجہ بالا 85فیصد اکثریت کی گردن میں شیطان کا انگوٹھا بن کے پیوست رہتی ہے!

تازہ ترین