• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ حکومت بنانے والی پارلیمنٹ کا عمومی مزاج اور اراکین کے روئیے کیا ہوں گے اس کا اندازہ انتخابی عمل کے آغاز میں ہی چند واقعات سے ہورہا ہے۔ پارٹی ٹکٹوں کے معاملے پر ملک کی چار بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور کچھ استثنیٰ کے ساتھ ایم کیو ایم میں نظر آنے والی ہڑبونگ اور پارٹیوں کے پرانے پرانے اراکین کا رنج اور غصہ کوئی امید افزا تصاویر نہیں دکھارہا۔ سب کے علم میں تھا کہ مئی 2018 میں قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہورہی ہے۔ وہ تو بھلا ہو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہ انہوں نے پارٹی کے رہبر ( اور اپنے وزیراعظم ) میاں نواز شریف کی ہدایت پر یا خود اپنی رائے پر عمل کرتے ہوئے قومی اسمبلی دسمبر یا جنوری میں تحلیل نہیں کی۔ اگر ایسا ہوجاتا تو سوچئے کہ الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں میں کیسی افراتفری کا مشاہدہ ہوتا۔ حصول اقتدار کی دوڑ میں مصروف اور ملک کو ترقی دینے کی دعوے دار سیاسی جماعتوں کو 2018 کے آغاز ہی میں اپنے امیدواروں کی فہرست مرتب کرلینے سے کس قانون نے روکا تھا۔ مختلف مصلحتوں کی وجہ سے یا پارٹیوں کے اندر تنظیمی خرابیوں کی وجہ سے ہونے والی اس تاخیر کے باعث برسوں پرانے اور بہت قربانیاں دینے والے کئی اراکین سخت ناراض ہیں۔ پولیٹکل ورکر پر پارٹی کا بہت اہم اثاثہ ہوتا ہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ اکثر جماعتوں نے پارٹی ٹکٹ کے فیصلے کرتے وقت کارکنان سے رائے لینے کی کوئی ضررت ہی محسوس نہیں کی۔
انتخابات اگلے ماہ 25 تاریخ کو ہیں لیکن انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بڑی جماعت نے پاکستان کو درپیش مسائل کے حل، عوام کی بہبود اور ملک کو ترقی دینے کے لئے کسی قابل عمل پروگرام کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پاکستان کو فنانس، فارن افیئرز، داخلی امور، دفاع کی وزارتوں کی سربراہی کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ، اپنے اپنے شعبوں میں بہت قابل، دوربین، معاملہ فہم افراد کی ضرورت ہے۔ پچھلے دس بارہ سال سے پاکستان کی معیشت زیادہ مشکل حالات میں ہے۔ خطے کے حالات اور سی پیک کی تعمیر کی وجہ سے پاکستان کو نہایت موثر خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں روز بہ روزگراوٹ سے مہنگائی میں مزید اضافے اور بے روزگاری پھیلنے کے خدشات ہیں۔ پاکستان میں حکومتوں کی کوتاہیوں کے سبب صحت کے شعبے کی حالت خراب ہے۔ علاج کی سہولتیں بہت کم اور انتہائی ناقص ہیں۔ محترم چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ ہفتے سکھر کے سول اسپتال کا دورہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں ایک بھی وینٹی لیٹر موجود نہیں ہے۔
کئی ووٹرز حیران ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ملک کو درپیش اہم ترین مالی اور خارجی معاملات پر ملکی مفادات کی تکمیل کرنے والا کوئی موثر اور قابل عمل لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے نہ ہی عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے اپنی ٹیم کی اہلیت اور استعداد عوام کے سامنے لائی گئی ہے۔ کیا مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم کے قائدین یہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی مشکلات سے نکالنے، 91ارب ڈالر کے قرض سے نجات دلانے اور ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنےکے لئے ان کا ویژن کیا ہے…؟ گزشتہ دس سال میں حکومتوں کی انتہائی خراب مالی کارکردگی پاکستان پر بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے قومی امور پر اچھی پالیسی سازی اور ان پالیسیوں پر نچلی سطح تک عمل درآمد کی اہلیت بڑھانے میں کبھی کوئی خاص دلچسپی ظاہر ہی نہیں کی۔ جمہوری سیاست کو آزاد صحافت کا سہارا ہوتا ہے۔ صحافت ( پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک) کے ذریعے سیاسی جماعتیں اپنا پیغام، اپنا منشور، اپنی سرگرمیاں عوام تک پہنچا سکتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا قومی مسائل پر سنجیدہ گفتگو اور سیاست دانوں کی اہلیت کے بارے میں ووٹرز کو آگاہ اور ایجوکیٹ کرنے سے زیادہ اپنی اپنی ریٹنگ بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
رجب طیب اردوان۔ عزم، اسقامت اور ترقی کی علامت …
زیادہ پرانی بات نہیں صرف پندرہ سال پہلے ہی ترکی کئی شہری وسماجی مسائل میں پھنسا ہوا ایک کمزور معیشت والا ملک شمار ہوتا تھا۔ استنبول کے میئر رہنے والے، ایک غریب گھرانے کے فرد رجب طیب اردوان سادہ سی اکثریت کے ساتھ مارچ 2003ء میں ترکی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اپنی قوم کے انتہائی مخلص، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک، رجب طیب اردوان نے ترکی کے سیکولر نظام میں کوئی مداخلت کئے بغیر ترکی کے عوام کی معاشی حالت سدھارنے کی کوششیں کیں۔ عوام نے اتوار 24جون کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ان کو ایک بار پھر ترکی کا صدر منتخب کرلیا ہے۔
ترک قوم کی ترقی اور استحکام کے لئے صدر طیب اردوان ، ان کے سیاسی مرشدین اور زمینی حقائق کے مطابق فکر و عمل کرنے والے ساتھیوں کی حکمت عملی کئی جمہوری ممالک کے لئےقابل تقلید ہے۔ ترک عوام میں پائے جانے والے سیاسی شعور، غیر جذباتی انداز میں سوچنے کی صلاحیت، مطلوبہ نتائج کے لئےصبر و تحمل سے کام لینے، ووٹ کی طاقت کے صحیح ادراک میں پاکستانی قوم کے لئےکئی سبق موجود ہیں۔ جاگیردارانہ نظام کے زیر اثر نسلی و لسانی تعلق ، برادری کی وابستگیوں اور جذباتی نعروں کو اہمیت دینے والے ووٹرز کی اکثریت ترکی کے باشعور عوام سے پتہ نہیں کب اور کتنا سبق سیکھے گی۔
فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات…
فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام قبائلی عوام کے لئے بہت خوشی اور اطمینان کا سبب ہے۔ اس فیصلے سے فاٹا کے عوام کو قیام پاکستان کے بعد پہلی بار آزادی کے ثمرات ملنا شروع ہوں گے۔ قبائلی عوام کو حقوق ملنے پر پاکستان بھر کے عوام خوش ہیں۔ فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات 25 جولائی کو نہ کروانے پر قبائلی عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا بروقت ازالہ ضروری ہے۔ اس سلسلے میں متحدہ قبائل پارٹی اور ان کی ایک حمایتی تنظیم تحریک جوانان پاکستان کی جانب سے کئی دنوں سے اسلام آباد میں دھرنے کے ذریعے اپنے مطالبات پر اصرار کیا جارہا ہے۔ پارٹی کے وکیل بیریسٹر فروغ نسیم کی جانب سے فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات 25جولائی کو ہی کرانے کی استدعا الیکشن کمیشن نے مسترد کردی ہے۔
بہرحال پاکستان بھر کے عوامی حلقے فاٹا میں اپنے بھائیوں کے اس مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ 25جولائی کو فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہوسکتے ہیں تو اسی دن صوبائی اسمبلیوں کی اکیس نشستوں پر انتخابات کروانے میں کیا رکاوٹ ہے…؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین