• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ نتیجہ نکالنے کے بعد کہ اب افغانستان میں دہشت گردوں کے کسی نیٹ ورک کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لئے وہاں انسداد دہشت گردی کی صلاحیت کو بر قرار رکھنے کے سوا دیگر کوئی اہم ہدف باقی نہیں بچا، کیا امریکہ اب صرف وہاں سے نکلنے کا محفوظ راستہ تلاش کر رہا ہے یا2014ء کے بعد افغانستان کو انتشار اور مقامی عدم استحکام کے گڑھے میں گرنے سے روکنے کے لئے واشنگٹن وہاں کسی سیاسی حل پر کام کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا امریکہ کے پاس اتنی قوت برداشت اور لچک ہے جو وہاں مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام میں درکار ہے یا یہ معاملہ افغان عوام کے لئے چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ خود ہی اس ذمہ داری کا بوجھ اپنے شانوں پر اٹھائیں؟ علاقائی امن اور افغانستان کے مستقبل کے لئے ان سوالوں کے جواب محوری حیثیت کے حامل ہیں اور یہ افغانستان کی سرزمین پر تحرکات کے ذریعے امکانی طور پر سامنے آئیں گے اور ان کا تعین اس بات سے ہو گا کہ وہاں قیام امن کے عمل کی راہ میں درپیش رکاوٹیں کتنی طاقتور ہیں۔ امریکی انتخابات کا نتیجہ بھی جس میں اب کچھ ہی دن بچے ہیں آئندہ انتظامیہ کیلئے راہ عمل واضح کر دے گا۔ فی الحال واشنگٹن کے سرکاری اور ان سے ماورا دیگر حلقوں میں یہ نقطہ فکر ابھی چند ہی پہلوؤں پر مشتمل نظر آتا ہے۔ ان میں سے دو جو نوٹ کرنے کے قابل ہیں وہ یہ ہیں کہ دیگر تمام اہداف سے بڑھ کر افغانستان سے محفوظ واپسی کو یقینی بنایا جائے اور یا2014ء سے قبل جنگ بندی کیلئے مذاکرات کے ذریعے کوئی حل تلاش کیا جائے۔ یہ دونوں پہلو بلاشبہ باہمی طور پر ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ امریکہ میں صدارتی مباحثوں سے یہی اشارہ ملا ہے کہ دونوں امیدوار افغانستان سے امریکہ کے فوجی دستوں کو نکالنے کیلئے 2014ء کی ڈیڈ لائن کے بارے میں قطعی فیصلہ کر چکے ہیں۔ یہ فیصلہ امریکہ میں سخت جنگ مخالف عوامی جذبات کا عکاس ہے۔ تازہ ترین ’پیو پول‘ کے مطابق60فیصد امریکیوں کی خواہش ہے کہ فوری طور پر افغانستان سے فوجی دستوں کو نکال لیا جائے۔ جب ری پبلکن امیدوار مٹ رومنی نے واضع کیا کہ ’ہم ایک اور عراق نہیں چاہتے، ہم ایک اور افغانستان نہیں چاہتے‘ تو ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ خود کو صدر بش کے دور کی پالیسیوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے ذریعے انہوں نے اس بات کا اشارہ بھی دیا کہ وہ افغان جنگ کے خاتمے کیلئے قطعی پُرعزم ہیں۔ امریکی نائب صدر بائیڈن کا11/اکتوبر کا اعلان اس سے بھی زیادہ واضح ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم سال2014ء میں افغانستان سے نکل رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم کسی اگر مگر یا لیکن میں مبتلا نہیں کہ وہاں ہمارا بنیادی مقصد پورا ہو چکا ہے‘۔ بنیادی مقصد سے مراد القاعدہ کی شکست ہے۔ بائیڈن کی رائے اس تناظر میں غور و فکر کا پہلا واضح ترین پہلو ہے۔ صدر اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں مضبوط قیاسات ہیں کہ امریکہ 2013ء میں افغانستان سے نہایت تیزی کے ساتھ اپنے فوجی دستوں کا انخلاء شروع کر سکتا ہے۔ وہاں امریکی سربراہی میں آپریشن اگلے سال کے وسط میں مکمل ہونے کی توقع ہے اور ایک تیز انخلاء اس خاتمے کیساتھ ہم آہنگ ہو گا۔ ماضی کی ’مبنی بر شرائط انخلاء‘ کی ضد اب صدارتی مباحثے اور امریکی فوجی کمانڈروں کے تازہ ترین بیانات میں نظر نہیں آ رہی۔ امریکی فوج کے موقف میں یہ تبدیلی حالات کی منطق اور2014ء کی ناقابل واپسی ڈیڈ لائن کو تسلیم کرنے کی عکاس ہے مگر یہ افغان فوجیوں کے اپنے امریکی ہم منصبوں کے خلاف ڈرامائی طور پر بڑھتے ہوئے حملوں کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ ان حملوں نے2014ء کے بعدکابل کے ساتھ فورسز کی حیثیت کی بابت تاحال کئے جانیوالے معاہدے کے تحت افغانستان میں فوجی مشیروں اور چند فوجی دستوں کو برقرار رکھنے کے امکان پر شکوک و شبہات کے سائے ڈال دیئے ہیں۔
دوسری طرف افغان فوجیوں کے اپنے امریکی ہم منصبوں کے خلاف تازہ ترین حملوں نے امریکی فوج کی سست انخلاء کی سابقہ ترجیح کو شاید کمزور کر دیا ہے۔ اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ پینٹاگون کی افغانستان سے غیر مشروط فوجی انخلاء کے خلاف ابتدائی مزاحمت اب دم توڑ رہی ہے۔ یہ رجحان اس معاملے پر سول، ملٹری رائے کو باہم منطبق ہونے میں مدد دے رہا ہے۔ اس تناظر میں نیویارک ٹائمز کے13/اکتوبر کے اداریئے میں ایک دوسری ابھرتی ہوئی سوچ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں صرف لاجسٹک بنیادوں پر انخلاء کا شیڈول طے کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ اس سوچ کا اظہار ہے کہ اب امریکہ کا افغانستان میں واحد مقصد وہاں سے محفوظ واپسی ہے۔ بلاشبہ یہ امریکی پالیسی نہیں ہے مگر یہ ایک ایسے نقطہ نظر کا عکاس ہے جو واشنگٹن میں انتخابات کے بعد جڑیں پکڑ سکتا ہے۔ ’ٹائم ٹو پیک اپ‘ (واپسی کا وقت آ گیا ہے) کے عنوان سے اس اداریئے میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے ایک ایسے شیڈول کا مطالبہ کیا گیا ہے جو ’صرف فوجی دستوں کے تحفظ کی بنیاد پر طے کیا گیا ہو‘ کیوں کہ ’جنگ کو طول دینے سے سوائے مزید نقصان کے اور کچھ نہیں ہو گا‘۔ اس میں دلیل دی گئی ہے کہ ’افغانستان میں قوم کی تعمیر کام نہیں کر رہی اور حتیٰ کہ صدر اوباما کے مختصر کردہ مقاصد بھی پہنچ سے دور ہیں اور یہ کہ اب امریکہ کو وہاں سے ’جتنی جلد ممکن ہو انخلاء‘ کی ضرورت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس اداریئے میں جنگ کے سیاسی اختتام کیلئے مذاکرات کی ضرورت کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اس میں صرف اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے مجوزہ وقت سے (بھی) پہلے نکل آنا چاہئے۔ یہ سرکاری رائے نہیں ہے تاہم اگر آنے والے سال میں افغانستان میں حالات سخت تر ہو جائیں، افغان فوجیوں کے اپنے امریکی ہم منصبوں کے خلاف حملوں میں اضافہ جاری رہے اور افغان منصوبے کے لئے عوامی حمایت ٹوٹنے لگے تو یہ امریکہ کی ڈیفالٹ پوزیشن کو دھندلا کر سکتی ہے۔ مگر اس بات کے بھی مضبوط اشارے ملے ہیں کہ اوباما انتظامیہ 2014ء کی سیاسی اور فوجی تبدیلیوں سے قبل ایک افغان امن عمل کے قیام کے امکان کی تلاش میں دلچسپی لے رہی ہے۔ ایمبیسیڈر مارک گراسمین کی سربراہی میں اعلیٰ امریکی حکام کے اکتوبر میں اسلام آباد اور کابل کے دورے کا مقصد اسی ہدف کی تلاش و حصول تھا۔ امریکی حکام اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ2014ء کے موسم بہار میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد اگر افغانستان کی سیاسی تبدیلی مستحکم اور پُرامن انداز میں آگے نہیں بڑھتی تو اس سے افغانستان سے ایک پرنظم فوجی انخلاء خطرے میں پڑ سکتا ہے جسے دسمبر2014ء تک مکمل کئے جانے کی توقع ہے۔ اس صورت میں کہ افغان سیکورٹی فورسز کی صلاحیتیں بدستور غیر یقینی کا شکار رہیں اگر کابل میں سیاسی ڈھانچے پر ضرب پڑتی ہے تو اس کے نتیجے میں انخلاء سے قبل افغانستان انتشار کے گڑھے میں گر سکتا ہے۔ صرف اسی وجہ سے تشدد میں کمی اور کسی بھی قسم کے معاہدے کی ضرورت کو ناگزیر باور کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے امریکہ کو طالبان کی سیاسی عمل میں شمولیت اور امن بات چیت میں شرکت کی حوصلہ افزائی کرنے کے قابل ہونا پڑے گا۔ صدر اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں یہ سوچ ان کی انتظامیہ کو آمادہ کر سکتی ہے کہ وہ ایک سنجیدہ امن عمل کی تشکیل کے لئے کوششوں کو تیز تر کر دے۔ اس کے لئے زیادہ وقت نہیں ہو گا کیوں کہ اس صورت میں2014ء کی ڈیڈ لائن بمشکل24ماہ دور ہو گی جب کہ بات چیت میں پیشرفت کے حصول کے لئے اس سے بھی کم وقت میسر ہو گا۔ فی الوقت فوجی اور سیاسی تبدیلیاں خطرناک حد تک ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور امن مذاکرات میں پیشرفت کے اعتبار سے انہیں کچھ زاویوں تک باہم منطبق کرنے کی کوششیں ایک حوصلہ شکن چیلنج محسوس ہوتی ہیں مگر (اب) یہی واحد مضبوط بنیاد بچی ہے جس پر ان تبدیلیوں اور ایک ’محفوظ‘ انخلاء کی قابل بھروسہ عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ موجودہ حالات کی روشنی میں توقعات زیادہ روشن نہیں ہیں۔ سیاسی تبدیلی کیلئے تیاریاں نمایاں طور پر نا کافی ہیں۔ صدر حامد کرزئی کے اشتعال انگیز رویّے، ان کے ساتھیوں اور دیگر کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کی مخالفت، ان کی اپنی متلون مزاجی اور اسلام آباد اور واشنگٹن کی جانب ان کے غیرمتوازن موقف نے انہیں مستقبل کے دشوار ترین راستے پر ایک غیر یقینی ساتھی بنا دیا ہے۔
اس بات کا خدشہ کہ انتخابی عمل امن کی کوششوں کو جنم لینے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دے گا ایک ایسا چیلنج ہے جس سے نمٹنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ ابھی حال ہی میں ’انٹرنیشنل کرائسس گروپ‘ کی ایک رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ2014ء کی ڈیڈ لائن کا راستہ ناقابل شمار رکاوٹوں سے اٹا پڑا ہے اور خاص کر وہاں ایک قابل بھروسہ اور شفاف صدارتی انتخاب کو یقینی بنانا کار دراز ہے۔ اگرچہ اس مطالعے کو کرزئی حکومت نے رد کر دیا ہے مگر اس میں متعدد ایسے واقعات کی لڑیاں تلاش کی گئی ہیں جن کے نتیجے میں2014ء کے بعد افغانستان میں حکومت انتشار کا شکار ہو کر ختم ہو سکتی ہے۔ اس طرح سیاسی تبدیلی اس کیفیت سے بہت دور ہے جس کا ابھی یقین دلایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد افغانستان میں ایک اور بنیادی سوال بھی سر اٹھائے کھڑا ہے۔ واشنگٹن طالبان کی امن عمل میں شرکت کی حوصلہ افزائی کی خاطر کیا پیشکش کرے گا جب کہ طالبان کے رہنما جانتے ہیں کہ زیادہ تر غیر ملکی فوجی دستے دو سال کے عرصے میں ان کے ملک سے نکل جائیں گے؟ اس تمام سال طالبان مذاکرات کاروں نے ’قطر پروسس‘ کو دوبارہ شروع کرنے سے انکار کیا ہے جو امریکہ کی طالبان کی جانب ابتدائی پیشرفت تھی اور توقع تھی کہ اس سے اعتماد سازی کے اقدامات کے کسی پیکج پر اتفاق رائے ہو جائے گا اور جس کے بعد ایک رسمی امن عمل کا آغاز ہو سکے گا۔ یہ ایک کھلا سوال ہے کہ آیا کہ اس عمل کو اب دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے اور کن شرائط پر! طالبان رہنماؤں کو امن مذاکرات میں شرکت کرنے کیلئے کس قسم کی ترغیبات پیش کا جا سکتی ہیں؟ افغانستان کے مسقبل پر غیر یقینی کی ایک دھند مسلط ہے مگر ایک بات واضح ہے کہ کسی بھی قسم کی سیاسی گنجائش اور قابل اعتبار امن عمل کے بغیر جس کے لئے وقت کے پیمانے میں ریت تیزی سے سرک رہی ہے ایک منتشر کن نتیجے سے بچنا ممکن نہیں ہو گا جو افغانستان سے امریکی فوجیوں کے پُرامن انخلاء کی خواہش کو مٹی میں ملا سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کے لئے کسی عفریت سے کم نہ ہو گا اور اس کی ہولناکی اس سے بدترین ہو گی جو1990ء میں ہوا تھا اور جس کے تباہ کن اثرات آج بھی سانس لے رہے ہیں۔ اسی لئے پاکستان کے لئے معقول ترین راہ عمل یہی ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکے امن عمل کی ترویج کے لئے اپنی مدد فراہم کرے۔ اپنے حالیہ اختلافات اور بدستور جاری بے اعتمادی کے با وجود کیا پاکستان اور امریکہ اس مقصد کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں؟ اس بات کا جواب امریکی انتخابات کے بعد ہی سامنے آ سکے گا۔
تازہ ترین