• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں یہ کالم 12 ملین کی آبادی پر مشتمل برازیل کے سب سے بڑے شہر ساؤپالو سے تحریر کررہا ہوں جہاں میں میک اے وش فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی سالانہ ”وش لیڈر کانفرنس“ میں شرکت کیلئے آیا ہوا ہوں۔ اس کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے 50 ممبر ممالک سے 500 سے زائد مندوبین شرکت کررہے ہیں۔ دبئی سے17 گھنٹے کی نان اسٹاپ فلائٹ کے بعد شام کے وقت جب میرا جہاز ساؤپالو کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترا اور میں امیگریشن کروا کر ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو میک اے فاؤنڈیشن برازیل کے اراکین میرے نام کے ساتھ میک اے وش پاکستان کی تختی لئے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل تک ڈرائیو کے دوران مجھے اس ملک کی ترقی، خوشحالی اور خوبصورتی کا بخوبی اندازہ ہوا۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک برازیل جس کا رقبہ 85 لاکھ کلومیٹر سے زائد اور آبادی تقریباً 200 ملین ہے، کی مقامی زبان پورتگی ہے جبکہ یہ ملک دنیا کی چھٹی بڑی معیشت اور آٹھویں بڑی صارف منڈی ہے۔ جب میری کار فائیو اسٹار ہوٹل پر آکر رکی تو ہوٹل کے باہر 50 ممالک کے جھنڈوں میں پاکستان کا جھنڈا لہراتے دیکھ کر میری تمام تھکاوٹ دور ہوگئی۔ کانفرنس کے روز ہال میں داخل ہوتے ہی تمام ممالک کے میک اے وش کے عہدیداران سے ملاقات ہوئی جنہوں نے حال احوال پوچھنے کے بعد مجھ سے پہلا سوال ملالہ یوسف زئی کے بارے میں کیا۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ ملالہ کی شہرت برازیل تک پہنچ چکی ہے اور ہال میں موجود ہر شخص کی ہمدردیاں اس 14 سالہ بچی کے ساتھ ہوں گی۔
میک اے وش فاؤنڈیشن انٹرنیشنل ہر سال مختلف ممالک میں ”سالانہ عالمی وش لیڈر کانفرنس“ کا انعقاد کرتی ہے جس میں تمام ممبر ممالک کے مندوبین شریک ہوتے ہیں۔ میں اس سے قبل میک اے وش انٹرنیشنل کے زیر اہتمام 6 عالمی وش لیڈر کانفرنسوں میں شرکت کرچکا ہوں جن میں 2/امریکہ کے شہر اورلینڈو، ایک آئرلینڈ، ایک تائیوان، ایک پرتگال اور ایک یونان میں منعقد کی گئی تھیں۔ 4 روزہ کانفرنس میں شریک مندوبین کو ایک دوسرے سے ملنے، قریب آنے اور ایک دوسرے کے خیالات و تجربات سے آگاہی ملتی ہے۔ ساتھ ہی کانفرنس میں فلاحی تنظیموں اور بین الاقوامی شہرت یافتہ عالمی شخصیات کو لیکچرز کیلئے مدعو کیا جاتا ہے تاکہ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکے جس سے مندوبین میں جوش و جذبہ اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ کانفرنس کے ایک سیشن میں دنیا کے 50 ممالک میں پورے سال کے دوران ہزاروں بچوں کی پوری کی گئی آخری خواہشات کی تکمیل میں سے 10 سرفہرست منفرد خواہشات کو منتخب کیا جاتا ہے جن کی فوٹیج شرکاء کو دکھائی جاتی ہے اور اس ملک کو اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔ میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان کمسن سپاہی عبدالباسط کی ایک دن کیلئے فوج میں شمولیت کی منفرد خواہش کی تکمیل کرنے پر یہ اعزاز حاصل کرچکا ہے۔ واضح ہو کہ عراق اور افغانستان میں جنگ کے باعث امریکی اور یورپی شہری فوج میں جانے کی خواہش نہیں رکھتے۔ اس سال اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا 10 سالہ پریم کی مندر میں عبادت کرنے کی وش کو 2012ء کی منفرد خواہشات میں شامل کیا گیا جس کی فوٹیج دیکھ کر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور مغربی میڈیا کے اس پروپیگنڈے کی نفی ہوئی کہ پاکستان میں مختلف مذاہب کے مابین ہم آہنگی نہیں۔ ہندو مذہب اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے پریم نے ایک خط کے ذریعے میک اے وش پاکستان سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ کلفٹن ساحل سمندر کے قریب واقع شنکر بھگوان مندر میں اپنی صحت یابی کیلئے عبادت کرنا چاہتا ہے۔ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس مندر میں عبادت کرنے سے ان کی منتیں پوری ہوجاتی ہیں۔ اس سلسلے میں میک اے وش پاکستان کے رضاکارپریم، اس کے والدین اور بھائی کو اندرون سندھ سے کراچی لائے اور انہیں ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ خواہش کی تکمیل کے روز پریم کو مہاراجہ کے لباس میں ملبوس کیا گیا جبکہ اس کی فیملی کے افراد کو بھی نئے کپڑے پہننے کو دیئے گئے۔ سفید گھوڑوں کی بگھی جب پریم اور اس کے والدین کو مندر لے کر پہنچی تو ان کا استقبال مندر کے مہاراج نے کیا جس کے بعد پریم نے مندر میں عبادت اور اپنی صحت یابی کیلئے دعا کی۔ اس موقع پر ہندو برادری سے اظہار یکجہتی کیلئے میک اے وش پاکستان کی رضاکار لڑکیوں نے ہندو خواتین کی طرح ساڑھیاں زیب تن کر رکھی تھیں جبکہ اس منفرد خواہش کی تکمیل کے موقع پر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے میک اے فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے صدر جان اسٹیٹ نر بھی موجود تھے جو بچے کی منفرد خواہش اور مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین یکجہتی سے بے حد متاثر نظر آئے۔
”وش لیڈرکانفرنس“ میں ہر سال میک اے وش انٹرنیشنل کے 50 ممبر ممالک میں سے کسی ایک ملک کو اس کی کارکردگی اور منفرد خواہشات کی تکمیل کی بنیاد پر "Best Affiliate Country" (بہترین ممبر ملک) کے ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔ مجھے اپنے کانوں پر اس وقت یقین نہ آیا جب اس ایوارڈ کیلئے میک اے وش پاکستان کا نام پکارا گیا۔ تالیوں کی گونج میں جب میں نے ایوارڈ وصول کیا تو اپنے مختصر کلمات میں، میں نے اس اعزاز کو اُن پاکستانی بچوں کے نام کردیا جو آج ہم میں موجود نہیں۔ کانفرنس میں میک اے وش انٹرنیشنل کی طرف سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کو بھی کارپوریٹ امپیکٹ ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ایوارڈ ان اداروں کو دیا جاتا ہے جو میک اے وش کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ پی آئی اے میک اے وش پاکستان کا اسپانسر پارٹنر ہے اور وہ بچے جن کی ہوائی سفر کرنے کی خواہش ہوتی ہے اس میں میک اے وش کو پی آئی اے کا تعاون حاصل رہتا ہے۔ 5 سال قبل جب میں نے پاکستان میں میک اے وش فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی تو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن اس ادارے کا شمار پاکستان کے سرفہرست فلاحی اداروں میں ہونے لگے گا اور یہ ادارہ ہزاروں بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرکے ان کے خواب پورے کرے گا۔ میک اے وش پاکستان آج تک جن بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرچکا ہے ان میں سے کئی بچے ہم میں موجود نہیں لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ وہ بچے کوئی خواب لئے اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے، ہم اُن بچوں کی زندگیوں میں اضافہ تو نہیں کرسکے مگر ان کی زندگی کے بقایا دنوں میں خوشیاں ضرور لاسکے۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد شرکاء کو کچھ دنوں کے Tour پر Rio de Janeiro اور دنیا کے بڑے اور گھنے ترین جنگلات میں شمار کئے جانے والے جنگل Amazone Rain Forest لے جایا جائے گا۔ میں آئندہ کالم میں امیزون جنگل میں گزارے گئے اپنی زندگی کے یادگار لمحات قارئین سے شیئر کروں گا۔
(نوٹ: مراکش کے بادشاہ کی جانب سے قومی اعزاز ”وسام علاوی“ ملنے پر مجھے بے شمار ای میلز اور خطوط موصول ہوئے جس پر میں قارئین کا بے حد مشکور ہوں۔)
تازہ ترین