• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے حال اور مستقبل قریب کی اٹل ضرورت آئین کے مطابق جاری احتسابی و انتخابی عمل کو بغیر کسی تعطل کے نتیجہ خیز بنانا ہے۔ انتخابی شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد مخصوص ذریعے کی نشاندہی ہوئے بغیر یہ تجویز اور مطالبہ سامنے آیا کہ اتنی جلد انتخاب ہونا ممکن نہیں، لہٰذا انہیں ملتوی کردیا جائے، یہ رائے (شاید) انفرادی حوالے سے ہی آتی رہی لیکن انتخابی عمل جاری رہنے سے خود ہی دب گئی۔ اسے دبنا ہی چاہئے تھا۔ اب واضح طور پر ن لیگی ابلاغی معاونین اور جماعت کے دوسرے بینی فشریز کی طرف سے نیب کے جاری و احتسابی عمل کو انتخابات کے انعقاد تک روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ حالانکہ ہر دو عمل آئین کے لازمے ہیں اور گہرے باہمی تعلق کے حامل۔ انتخابی عمل بھی بنیادی طور پر ان سیاسی جماعتوں کا احتساب ہی ہے جن کے اقتدار کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد انتخاب ہورہا ہے، جبکہ نیب اور عدالتوں میں جاری احتساب اور فراہمی انصاف کا عمل بھی آئین و قانون کی خلاف ورزیوں پر ’’ذمے داران‘‘ ملزمان کا احتساب ہے۔ گویا دونوں عالمی لازمے اور یوں بڑی قومی ضرورتیں ہیں۔
لیکن عجب ہے کہ بعض ن لیگی رائے سازوں کی طرف سے انتخابی اور احتسابی عمل کو گڈمڈ کیا جارہا ہے جبکہ یہ اپنی نوعیت اور مقاصد کے اعتبار سے بالکل جداگانہ اور دونوں ہی آئینی لازمے ہیں۔ یہ غیر آئینی ہوگا کہ انتخابات کے انعقاد یا تشکیل حکومت تک تو کیا ایک دن کے لئے بھی نیب اور عدالتوں کو ان کے آئینی فرائض سے روک دیا جائے۔ اس کی کوئی آئینی، قانونی یا اخلاقی گنجائش نہیں اسٹیٹس کو کے پجاریوں کی سیاسی ضرورت ہوگی تو ہوگی۔
ن لیگ نے نیب کے جاری عمل کو روکنے کی دہائی، خود پارٹی کے ٹو ان ون (باغی اور وفادار بھی) آزاد امیدوار چوہدری نثار کے مقابل ن لگی امیدوار قمر الاسلام کی گرفتاری پر ڈالنی شروع کی ہے۔ تاہم نیب نے ان کی گرفتاری کی 5جاندار اور قابل فہم وجوہات جاری کی ہیں کہ اس ن لیگی امیدوار نے 84واٹر فلٹریشن پلانٹس کی خریداری میں خوردبرد کی، تخمینے کے بغیر بولی اور مہنگے داموںخریداری کی منظوری دی، غیر قانونی طریقے سے کام کی نوعیت کو تبدیل کیا۔ نیب کے مطابق وہ 11مئی کو (امیدوار بننے سے ڈیڑھ ماہ پہلے) نیب کے طلب کرنے پر پیش ہو چکے ہیں۔ یہ تو ن لیگ کا ہی حوصلہ ہے کہ اس نے چار اضلاع میں پینے کے پانی کے پروجیکٹ میں بھی گھپلے کے ملزم کو ٹکٹ دے دیا، ایسے میں ان کی تفتیش اور گرفتاری سے انتخابی عمل کیوں متاثر ہوگا۔ آئین و قانون میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کے الزامات میں ملوث امیدوار کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ یورپین یونین کے پاکستانی انتخابات کے چیف آبزور مائیکل گیلر نے بھی ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’انتخابی امیدوار کا کسی الزام میں گرفتار ہونا انتخابی دھاندلی نہیں ہوتی‘‘۔
واضح نوٹس ہے کہ ن لیگی ابلاغ میں انتخابی عمل کی آڑ میں جیوڈیشل ایکٹوازم I(جس میں گیلانی وزارت گئی) سے شروع ہونے والے جاری احتسابی عمل کو متنازعہ بنانے کے لئے دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ یوں ن لیگی انتخابی مہم پروپیگنڈے کی شکل اختیار کررہی ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور جمہوری عمل کے نحیف ہونے کے بڑے ذمے دار اسٹیٹس کو کے وہ ابلاغی معاونین بھی ہیں جو بدترین گورننس اور شرمناک حکومتی کرپشن پر تو گونگے بنے رہتے ہیں، لیکن جب اس کی سرکوبی کے لئے احتسابی عمل شروع ہوتا ہے تو انہیں فوراً سیاسی عدم استحکام کا دھڑکا لگ جاتا ہے۔ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر سابق اور موجود حکمرانوں کے خلاف بمطابق قانون کارروائی سے چلنے والا احتسابی عمل بغیرکسی دلیل اور نشاندہی کے غیر جانبدار نظر آنے لگتا ہے، ایسا کر کے ن لیگی ابلاغی معاونین اپنی کریڈیبلٹی کو دائو پر لگا رہے ہیں، جو کسی بھی میس کمیونیکیٹر کی متاع عزیز ہے۔ ان کے پروپیگنڈہ اسٹائل تجزیوں سے ووٹرز کے گمراہ اور کنفیوز ہونے کا احتمال ہے۔
ایسے میں لازم ہے کہ ’’انتخابی اور احتسابی عمل ساتھ ساتھ‘‘ کا جو معجزہ رونما ہورہا ہے، ووٹروں کو اس کے پس منظر سے آگاہ کیا جائے کہ بیک وقت پوری ہوتی دونوں بڑی قومی ضرورتیں، انتخاب اور احتساب، بغیر کسی رکاوٹ کے پوری ہوں۔
واضح رہے کہ ضیاء دور کے اختتام (1988) کے بعد وفاق میں پی پی اور اسٹیبلشمنٹ بیکڈ میاں نوازشریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد اور ن لیگ کو اقتدار کی جو دو دو باریاں ملیں، اس میں انہوں نے دانستہ آئین کو جزواً معطل رکھا۔ یوں کے آئین کے لازمے منتخب بلدیاتی نظام قائم ہی نہیں کیا۔ مانا کہ ان کے یہ ادوار ان کے کرتوتوں کی وجہ سے مکمل نہ ہوئے، لیکن انہیں اور پی پی کو دو دو اڑھائی اڑھائی سال تو ملے جس میں یہ بلدیاتی انتخاب کے پابند تھے لیکن اس کے لئے چاروں باریوں میں ابتدائی نوعیت کے اقدامات بھی نہ کئے گئے اور اس موضوع پر مکارانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ اس لئے کہ گلی محلے اور گائوں گوٹھ کے مین ڈیٹ سے لوکل باڈیز سسٹم آئینی روح کے مطابق وجود میں آتا تو کرپشن، انتخابی دھاندلیوں اور نااہل منتخب نمائندگان اسمبلی کو الیکٹیبل بنانے کا بڑا ساماں، تھانہ کچہری سسٹم، زوال پذیر ہوتا ختم ہو جاتا اوربنیادی سہولتوں کی فراہمی کے فنڈز کی اسمبلیوں کے قانون سازوں میں ’’ترقیاتی فنڈز‘‘ کے نام پر غیر قانونی تقسیم کی صورت میں مالی بدعنوانی کا بڑا ذریعہ فقط قانون سازی تک محدود ہو جاتا۔ اس طرح پی پی اور ن لیگ دونوں کی آئین کی بالادستی و اطلاق سے مجرمانہ حد تک روگردانی کا بھانڈا ان کے ہر حکومتی دور میں سرعام پھوٹا۔ لیکن ان کی ڈھٹائی کا گراف اور ووٹروں کو بے وقوف بنانے کی دیدہ دلیری جوں کی توں ہے، جو اسٹیٹس کو میں ان کے لتھڑنے کو بے نقاب کرتی ہے۔
جمہوریت اور آئین کو مسلسل دغا ہی کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا اور عدلیہ کے نئے اور نتیجہ خیز جمہوری اور آئینی کردار اختیار کرنے سے کرپٹ سیاسی قوتوں اور حکومتوں اوران کی معاون انتظامیہ کے خلاف وہ جاری و ساری (Sustainable)احتسابی عمل شروع ہوا، جو تباہ کن اسٹیٹس کو کے غلبےکے باعث ناممکن تھا لیکن ہر سچے کھرے جمہوریت پسند پاکستانی کے دل کی آواز اور تمنا تھی۔ اب یہ شروع ہوا ہے تو غلاظت اتنی ہے اور شفافیت کے لئے نیب و عدلیہ کی سکت محدود، ایسے میں نہ جانے کتنے انتخابات، کتنی حکومتوں کی تشکیل پالیسی اور قانون سازی اور گورننس اس احتسابی عمل کے ساتھ چلیں گے۔ یوں بھی آئین میں کوئی گنجائش نہیں کہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جائے تو تفتیش اور فراہمی انصاف کے عمل کو روک دیا جائے۔
رہی یہ دہائی کہ نون لیگ پر فوکس ہے، احتسابی عمل کا سارا رخ ادھر ہی ہے۔ یہ لغو اور پروپیگنڈہ ہے۔ توبہ توبہ پانی کی فراہمی اور غرباء کے لئے سستے مکانوں کی اسکیم میں بھی اربوں کے گھپلے ٹھوس شواہد کے ساتھ بے نقاب ہورہے ہیں۔ غضب خدا کا بابوئوں اور منتخب حکمرانوں نے ریاستی نظام کو ٹھپ کر کے کمپنیوں کی حکومت قائم کردی۔ جہاں تک شریف خاندان کا تعلق ہے، وہ احتسابی عمل میں پاناما لیکس سے آئے جس پر پارلیمانی کمیٹی کی ناکامی کے بعد خود وزیراعظم نوازشریف نے لیکس کا کیس سپریم کورٹ کے حوالے کیا۔ اس سپریم کورٹ کے جس کا پہلا فیصلہ آنے پر ن لیگیوں کے منہ گھی شکر سے بھر گئے کہ انہیں خود بھی یقین تھا کہ منی ٹریل یکسر موجود نہ ہونے کے باعث حکومت جاسکتی ہے۔ لیکن دوسرا فیصلہ آنے پر جب جاری احتسابی عمل میں یوسف رضا گیلانی کی طرح میاں صاحب بھی نااہل ہوگئے تو دوران سماعت عدلیہ کو دھمکیوں اور تضحیک کا سلسلہ احتجاج میں تبدیل ہوگیا۔ جیسے جیسے احتسابی عمل میں سنجیدگی آتی گئی جج صاحبان پر کھلم کھلا دبائو ڈالنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ حالانکہ پی پی نے بھی اپنا وزیراعظم گنوایا تھا۔
زرداری صاحب کے بااعتماد ساتھی ڈاکٹر عاصم ’’عزت سادات‘‘ گنواتے جیل و جبر میں رہے اور شرجیل میمن بھی۔ عزیز بلوچ بالآخر پکڑا گیا اور پشت پناہوں کی تلملاہٹ کے باوجود تادم سخت حراست میں ہے۔ بلوچستان میں ایک بابو کے گھر چھاپہ مار کر کرپشن کے کروڑوں برآمد ہوئے۔
خان اعظم عمران خان کے دست راست جہانگیر ترین نااہل ہوئے۔خود عمران خان اور شیخ رشید احتسابی عمل سے گزرے۔ خواجہ آصف نے احتسابی عمل سے گزر کر خود کو بمطابق قانون کلین کیا۔
ن لیگ نے احتسابی عمل رکوانے کے لئے اپنے ابلاغی معاونین سے جو مدد لی ہے، وہ صاف پانی کی فراہمی میں اربوں کے گھپلے میں ملوث ن لیگی انتخابی امیدوار قمر الاسلام کی گرفتاری کے بعد لی ہے۔ نیب نے امیدوار کی گرفتاری کی جو وجوہات جاری کی ہیں، وہ بہت سنگین نوعیت کی ہیں۔ انتخاب کے لئے جاری و ساری احتسابی عمل روکنے کا مطالبہ کرنے والوں کے سینے میں دل نہیں؟ کہ وہ عوام الناس کو پینے کے پانی کی سپلائی پروجیکٹ میں گھپلوں کی وکالت میں لگ گئے۔ خدارا سمجھیں کہ پاکستان واضح طور پر لٹا ہے اور اجڑنے کی حد تک۔ آخراسحاق ڈار کو لندنی ڈاکٹر صحت مند کرنے میں جو ناکام ہوئے ہیں اورڈیلی میل میں چھپایا گیا جو کچھ چھپ گیا، اس کے بعدبھی یہ بین کے احتساب ہمارا ہی۔ حصہ بقدر جثہ بھی تو زندگی کا ایک ڈھنگ ہے یا احتسابی عمل بھی اسٹیٹس کو کی حکومتوں کی طرح کرپٹ اور بے ڈھنگ ہو؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین