• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاق کی علامت، چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر، سیکولر جماعت،یہ تمام علامتیں در حقیقت ملک گیر سب سے بڑی جماعت پیپلز بارٹی سے وابستہ تھیں، لیکن ابیہ سب علامتیں نظروں سے اوجھل ہوتی جارہی ہیں، اور پیپلز پارٹی ایک علاقائی جماعت بنتی دکھائی دے رہی ہے۔پیپلز پارٹی کو پنجاب سے امیدواروں کے معاملے میں جس سبکی کا سامنا کرنا پڑا، یہ اس جماعت کی سب سے بڑے صوبے میں تحلیل کی جانب سفر کا ایک اہم موڑ ہے۔بلوچستان اور پختونخوا میں بھی اس جماعت کی ساکھ انتہائی خراب ہے، یہی صورتحال کراچی کی بھی ہے، بلکہ اب تو اندرون سندھ، جس کے بل بوتے پر یہ جماعت سندھ پر بلاشرکت غیرے حکومت کرتی رہی ہے،میںبھی اس جماعت کو لالے پڑے ہوئے ہیں۔آئیے چند مثالیں سامنے رکھتے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے مطابق سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور خورشید شاہ کا ووٹرز نے گھیرائو کرلیا جس پر انہیں جان چھڑانا مشکل ہو گئی ،صحافی کے ویڈیو بنانے پر کیمرہ چھیننے کی کوشش بھی کی ،اسی طرح پی پی لیڈر خورشید شاہ پنوں عاقل کے دورے پر گئے جہاں ووٹرز نے ان سے تندو تیز سوالات کئے اور پوچھا کہ 10 سال حکومت میں رہنے کے باوجود آپ نے علاقے کے لئے کیا کیا؟۔نوجوان کے سوال پر خور شید شاہ جواب دینے سے قاصر رہے اور مسکرا کر چل دیئے۔ خورشید شاہ کےبعد اب پیپلزپارٹی کے ایک اور رہنما اور سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی اپنے حلقے سہون پی ایس 80 کے دورے میں ووٹرز کا سامنا کرنا پڑا۔سابق وزیراعلیٰ سندھ اپنی رہائش گاہ واہڑ سے باہر نکلے تو ایک ووٹر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا؟ ووٹر کے سوال پر مراد علی شاہ نے پہلے تو اسے بہلانے پھسلانے کی کوشش کی لیکن ووٹر کےبار بار اصرار پر سابق وزیراعلیٰ نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئےکہ مجھے بھی سنو گے یا نہیں؟ووٹر کو بار بار ٹھنڈا کرنے کی کوشش میںناکامی پر مراد علی شاہ وہاں سے چل دیئے جبکہ اس موقع پر ایک صحافی ویڈیو بنارہا تھا جسے سابق وزیراعلیٰ نے ویڈیو بنانے سے بھی منع کیا اور اس کے نہ ماننے پر کیمرے پر ہاتھ دے مارا۔
دوسری خبر کے مطابق صوبہ سندھ کے دیگر اضلاع بشمول حیدرآباد میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما ٹکٹوں کی تقسیم پر نالاں نظر آرہے ہیں‘جس میں سے متعدد نے تو آزاد حیثیت میں،تو کسی نے دوسری جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔ ضلع حیدرآباد کی تحصیل دیہی کے صوبائی حلقے پی ایس 63سے پی پی پی کی جانب سے شرجیل انعام میمن کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے، جس کے بعد پی پی کے دیرینہ کارکن پارٹی قیادت کے اندرونی طور پر مخالف ہیں۔ضلع جامشورو پی پی ایس 82پر پی پی پی نے ملک اسد سکندر کو ٹکٹ جاری کیا، جس کے بعد گزشتہ برس مذکورہ حلقے سے الیکشن لڑنے والے سکندر شورو نے پارٹی سے راہ جدا کرتے ہوئے جی ایم سید کے پوتے اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود سے ہاتھ ملالیا ۔ ضلع گھوٹکی میں بھی جیالے رہنماپارٹی قیادت کے الیکشن کے فیصلوں سے دل برداشتہ ہوچکے ہیں اور علی گوہر مہر اور علی محمد مہر پی پی قیادت سے نالاں نظر آرہے ہیں۔ ضلع نوشہروفیروز میں پارٹی کے دیرینہ اور سینئر رہنماء عبدالحق بھرٹ کو پی پی قیادت کی جانب سے بارہا منانے کی کوشش کی گئی، حتیٰ کہ آصف علی زرداری نے بھی ذاتی کاوشیں کیں مگر انہوں نے پی پی قیادت کی جانب سے ممتاز علی چانڈیو کو ٹکٹ جاری کرنے پر ناراضی برقرار رکھی ہوئی ہے اور پی پی کے ٹکٹ ہولڈر کے سامنے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی ٹھان لی ہے، اسی طرح ضلع نوشہروفیروز کے پی ایس 36پر پی پی کے پرانے رہنماء عبدالستار راجپرنے ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔ضلع تھرپارکر میں بھی پی پی کے خلاف صورتحال میں کوئی واضح فرق نہیں ہے‘ جہاں پر شیر محمد اورغنی کھوسو کی جانب سے پی پی امیدوار نور محمد شاہ جیانی اور قاسم سومرو کے خلاف آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ ضلع بدین میں بھی پی پی کے سابق ایم این کمال چانگ ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد الیکشن لڑیں گے جبکہ اس سے قبل پی پی کے پرانے سیاسی گھرانے مرزا نے بھی اختلافات کی وجہ سے اس مرتبہ جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاہے ۔ضلع ٹھٹھہ کے شیرازیوں کی پی پی میں شمولیت اور عام انتخابات کے لئے ان کو ٹکٹ دینے پر جیالے اوررہنمائوںمیں بے چینی اور غصہ پایاجارہا ہے۔سکھراور سندھ کے دیگر اضلاع میں 2008اور2013کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور دس سال مسلسل سندھ میں حکمرانی کی، 2018کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے لئے اپنی سابقہ برتری کو برقرار رکھنا نہ صرف مشکل بلکہ ان کے لئے ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کی بعض اہم شخصیات کے کاغذات نامزدگی فارم مسترد کئے جانے اور ٹکٹ نہ دیئے جانے پر پارٹی سے اختلاف کے باعث متعدد رہنمائوں کے پارٹی چھوڑ کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے سے پیپلزپارٹی مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔کراچی میں لیاری پی پی کا گڑہ سمجھا جاتا تھا،لیکن وہاں اگرچہ مضبوط امیدوار نہیں ہے، پھربھی بلائول بھٹو کو ایسی مشکلات درپیش ہیں ، جوماضی میںپی پی کو کبھی نہیں رہیں ۔ان تمام حقائق کے باوصف پی پی پھر بھی سندھ میں پالیمانی لحاظ سے نمبر ون بن جائے گی۔لیکن اس جماعت کا بہرصورت وفاق سے علاقائی جماعت بننا الیمہ ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ دیگر نظریاتی جماعتوں کا حجم بھی سکڑ رہاہے، نظریاتی کارکن جو ان جماعتوں کا اثاثہ ہوتے تھے، اب ان سے دور ہوتے جارہے ہیں۔جماعت اسلامی سے متعلق آپ جانتے ہیں کہ اب صرف مخصوص علاقوں تک محدود ہوگئی ہے، یہی صورتحال جے ئی آئی کی ہے،جبکہ اے این پی اب صرف ایک صوبے بلوچستان میں رہ گئی ہے۔پختونخوا میں مردان اور چارسدہ کے علاوہ اس کا وہ اثر جو دیگر علاقوں میں تھا، اب نظر نہیں آتا۔عرض یہ ہے کہ سوال کیا جاسکتاہے کہ نظریاتی جماعتوں کی اس قابلِ رحم حالت تک پہنچانے میں کس کا ہاتھ ہے؟یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کٹ سائز کرنے میں غیر جمہوری قوتوں کا بڑا حصہ ہے۔لیکن قابل غور امریہ ہے کہ آخرسیا سی رہنمائوں کی وہ کونسی کمزوریاں ہیں، جن سے یہ قوتیں فائدہ اُٹھا کر ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال اور پھر انہیں دیوار سے لگانےمیں کامیاب ہوجاتی ہیں!!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین