• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان کے صرف 11 سال بعد ہی جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی اور پہلے مارشل لا کا دُور شروع ہوا جنرل محمد ایوب خان نے سیاسی بحران کا فائدہ اُٹھاکر جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا تو عوام، جو سیاست دانوں کے دن رات گٹھ جوڑوں سے عاجز آچکے تھے نےخوشی خوشی انہیں ویلکم کیا ۔ایوب خان نے ایبڈو کا قانون لگاکر سیاست دانوں کو سیاست سے باہر کردیا ۔یہ سیاست دانوں پر نااہلیت کا پہلا تجربہ تھا۔ سوائے ایک سیاست دان حسین شہید سہروردی کے کسی نے اس قانون کے خلاف مقدمہ نہیں لڑا اور چپ ہوکر بیٹھ گئے ۔پھر کسی نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ سیاسی جماعت بناکر تاحیات مسند اقتدار پر بیٹھنا زیادہ آسان ہے تو اُنہوں نے اپنے سیاسی مشیروں کے کہنے پر راتوں رات الیکٹ ایبلز سیاست دانوں پر مشتمل مسلم لیگ کنونشن نام کی سیاسی جماعت بناکر لمبی پلاننگ کی ۔یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جماعت سے سیاست شروع کی ۔مگر جب الیکشن کا وقت آیا تو انہی سابق نااہل سیاست دانوں نے مل کر ایوب خان کے مقابلے پر محترمہ فاطمہ جناح کو پہلی بار سیاست کے میدان میں اتارا تو عوام نے اُن کی پذیرائی کی اور ڈٹ کر ووٹ ان کو ڈالا ۔مگر اس کے برعکس ڈبوں سے ووٹ ایوب خان کے نکلے اور اس طرح محترمہ فاطمہ جناح الیکشن ہار گئیں اور ووٹ کا تقدس پامال ہوگیا ۔چند ہی سالوں بعد یہ سیاست دان مل کر ایوب خان کے خلاف ڈٹ گئے اور جب وہ اپنے 10سالہ اقتدار کا جشن منانے میں مصروف تھے تو ایوب خان کے خلاف یہ پہلی عوامی بغاوت تھی جس کو وہ برداشت نہیں کرسکے اور اقتدار واپس سیاست دانوں کو دینے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کو دےدیا۔ قصہ مختصر یحییٰ خان نے بھی وعدے کے مطابق الیکشن کروایا مگر اقتدار سیاست دانوں کو واپس کرنے کے بجائے دو بڑی پارٹیوں کو یعنی بھٹو صاحب کی پی پی پی اور شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو آپس میں لڑوادیا۔بھارت نے فائدہ اُٹھاکر مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور اس طرح پاکستان دو حصوں میں بٹ بن گیا۔ ادھر مغربی پاکستان کی جماعت پی پی پی کو اقتدار سونپ کر یحییٰ خان فارغ کردیئے گئے ۔پھر جمہوری دور شروع ہوا مگر جب بھٹو صاحب نے الیکشن کروائے تو تمام سیاست دانوں نے قومی اتحاد بناکر الیکشن لڑا۔بظاہر پی پی پی والوں نے چند علاقوں میں دھاندلیاں کرواکر الیکشن مشکوک بنا دیا مگر قومی اتحاد ڈٹ گیا اور عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ بھٹو صاحب یہ دبائو برداشت نہ کرسکے، اقتدار جنرل ضیا الحق نے 90دن کے وعدے پر سنبھالا ۔اُن کو کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ اگر الیکشن کا نتیجہ پی پی پی کے حق میں آیا تو آپ کی بھی خیر نہیں ہوگی ۔انہوںنے دیگر سیاست دانوں کو اعتماد میں لے کر پہلے احتساب پھر انتخابات کا نعرہ لگواکر عوام کو ٹھنڈا کردیا پھر ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھکانے لگا دیا ۔اقتدار کے مزے اپنی بنائی ہوئی الیکٹ ایبل سیاسی جماعت مسلم لیگ جونیجو کو سامنے رکھ کر لوٹتے رہے اور پھر قصہ مختصر بہاولپور کا سانحہ ہوا اور جنرل ضیاء الحق حادثےکاشکار ہوگئے۔ نگران صدر غلام اسحاق خان نے الیکشن کرائے اور پی پی پی کی بے نظیر بھٹو کو عوام نے پذیرائی دی ۔مسلم لیگ نواز شریف اس کی حریف بن کر ابھری تھی نگران صدر نے سودے بازی کرکے اقتدار پی پی پی کودے تو دیا مگر باگ ڈور اپنے ہی ہاتھ میں رکھی۔ بے نظیر صاحبہ نے مصلحت کے تحت اقتدار قبول کرلیا مگر یہ عارضی رہا ۔اب صدر اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو میں اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی اور صرف ڈھائی سال بعد ان کو معزول کرکے الیکشن کروائے تو قرعہ میاں نواز شریف کے نام نکلا۔ صدر غلام اسحاق نے اقتدار اُن کے حوالے کردیا ۔چند سال بعد پھر وہی کرپشن کے الزامات نواز شریف صاحب پر لگے اور اقتدار چھن گیا اس بار قوم نے پی پی پی کو جتوادیا۔ العرض دودو بار اقتدار بے نظیر اور نوازشریف کو ملا۔آخری بار جب اقتدار نوازشریف کو دوتہائی اکثریت سے ملاتو انہوں نے پہلے صدر فاروق احمدخان لغاری کو فارغ کردیا پھر چیف جسٹس کو فارغ کیا آخر میں اپنے ہی لائے گئے جنرل پرویز مشرف کو فارغ کیا تو خود اقتدار سے بے دخل کردیئے گئے اور اقتدار جنرل پرویز مشرف کو مل گیا۔ نوازشریف ڈیل کرکے سعودی عرب روانہ کردیئے گئے قصہ مختصر اب پرویز مشرف نے انہی مسلم لیگی الیکٹ ایبل سیاسی جماعت کو مسلم لیگ ق بناکر اقتدار کے مزے لوٹنے شروع کئے ۔ستم ظریفی دیکھئے پرویز مشرف کے الیکشن 2002میں یہی مسلم لیگی تقریباً ڈیڑھ سو کی تعداد میں ن لیگ کوچھوڑ کر ق لیگ میں آگئے۔ پھر جب مشرف کی حکومت کمزور ہوئی تو 2008میں یہی ق لیگی پی پی پی میںآگئے اور اسےاقتدار دلوایا اور جب نوازشریف مضبوط ہوگئے اور عوام پی پی پی کے مخالف ہو گئے تو یہی 120الیکٹ ایبل پی پی پی کو چھوڑ کر میاں نواز شریف کے طرف لوٹ گئے ۔اور اقتدار کے مزے خود بھی لوٹتے رہے اور میاں صاحب کو شہ پر شہ دیتے رہے۔ اب عمران خان درمیانی مدت کے الیکشن ہارنے کے باوجود وزیراعظم بننے کےلئے اس بار الیکشن 2018میں ماضی میں نکلے اور نکالے گئے الیکٹ ایبل سیاست دانوں پر مشتمل قافلہ لے کر میدان میں اتررہے ہیں ۔ ان کی پارٹی میں ابتری پھیلی ہوئی ہے وہ دن رات ناراض کارکنوں کی پروا کئے بغیر میدان سیاست میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔دوسری طرف الیکشن کمیشن کے قواعد وقانون کے زدمیں بے شمار الیکٹ ایبل سیاست دان گوشواروں کی وجہ سےنااہل قرار دیئے جاسکتے ہیں ۔ہر صبح سیاست دانوں کی نئی نئی جائیدادیں موضوع ِ بحث بنی رہی ہیں۔ بہت سے غیر ملکی شہریت بھی چھپائے ہوئے تھے وہ بھی سامنے آرہے ہیں اور تو اور ایک آدھ سابق ڈاکٹر بھی ڈگریوں سے دستبردار ہورہے ہیں۔ کیونکہ اس بار نااہلی کی تلوار پورے 5سال تک ان پر لٹکی رہے گی ۔فی الحال تو اس ہفتے اہلی اور نااہلی کی صدائیں گونجتی رہیں گی ۔اگلے ہفتے تک قوم کو معلوم ہوجائے گا اور دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا۔بہت سے انہونے اور بہت سے ہونے والے واقعات رونما ہونے کا امکان ہے ۔فی الحال اتنا ہی کافی ہے یہ ہفتہ سیاست دانوں پر بہت بھاری ہے کہ کون الیکشن لڑ سکے گا؟ مگر ایک تبدیلی بہت نمایاں نظر آرہی ہے کہ ووٹر ز اب جاگ چکے ہیں ۔کئی مقامات پر تو انہوں نے سابق حکمرانوں سے سخت لہجے میں بات کی ہےبلکہ بعض جگہ بے عزتی بھی شروع کی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ معرکہ کہاں جاکر ختم ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین