• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماہر طبیعات نے بالکل درست کہا تھا: ”اگرسو سال قبل پیدا ہونے والے انسان آج ہمیں سائنسی ایجادات استعمال کرتے ہوئے دیکھ لیں تو جادوگر سمجھیں …اور اگر آج کا انسان سو سال بعد والے انسانوں کو سائنسی ایجادات استعمال کرتے ہوئے دیکھ سکے،تو انہیں خدا سمجھ بیٹھے !“یہ کوئی سیاسی بیان نہیں کیونکہ حال ہی میں سائنس دانوں نے انسانی ڈی این اے میں ایک ایسے جین کی دریافت کا دعوی ٰ کیا ہے جس کا تعلق محبت سے ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ نئی دریافت انقلابی اہمیت کی حامل ہوگی کیونکہ اب لوگوں کو اپنا جیون ساتھی چننے کے لئے پہلی نظر کی محبت پر یقین کرنے یا ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ محض ڈی این اے کا ایک ٹیسٹ ان کی یہ مشکل آسان کر دے گا جس سے انہیں پتہ چل سکے گا کہ آیا ان کی اپنے جیون ساتھی کے ساتھ ذہنی و جسمانی ہم آہنگی رہے گی یا نہیں۔
ذرا سوچئے اگر مارکیٹ میں ایسی لیبارٹریز کھل جائیں جہاں لوگ نہایت ارزاں نرخوں پر اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروا سکیں اور جینیاتی کوڈ معلوم کر سکیں تو کیا حال ہو ؟ جینیاتی کوڈ معلوم کرنا کبھی لاکھوں ڈالر کا کھیل ہوا کرتا تھا تاہم اب اس کا خرچہ چند ہزار ڈالر تک آ گیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ ٹیسٹ ”رل“ جائے گا، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں بلیرڈ جیسا امیرانہ کھیل تھڑوں پر آکر”رُل“ گیا ہے ۔عین ممکن ہے مستقبل میں میرج بیورو اور میچ میکنگ ویب سائٹس اس ٹیسٹ کا استعمال شروع کر دیں اور کچھ اس قسم کے اشتہارات بازار میں عام ہو جائیں کہ ”دھوکہ نہ کھائیں …قابل اعتماد ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں …ہمارا ٹیسٹ ہی آپ کو ایک بہترین جیون ساتھی دلا سکتا ہے … دو ٹیسٹ کے ساتھ تیسرا بالکل مفت… اسٹوڈنٹس کے لئے خاص رعایت… نوٹ: جینیاتی کوڈ کی مکمل رازداری برتی جائے گی … منجانب … راجپوت میرج بیورو …کاہنہ کاچھا۔“
جن کرم فرماؤں کو اس میں غلو کا شائبہ ہو رہا ہے ان کی تفنن طبع کے لئے عرض ہے کہ اس قسم کے ڈی این اے ٹیسٹ کی پیش گوئی برطانیہ کے امپیریل کالج،لندن کے پروفیسر آرمنڈ لیروئی نے کی ہے اور کہا ہے کہ آئندہ پانچ سے دس سال میں ایک دوسرے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے والے نوجوانوں میں بات عام ہو جائے گی کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل اپنے اپنے جینیاتی کوڈ کی مصدقہ نقل حاصل کرکے اس کا مطالعہ کریں ۔ایک امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈربن میں اوپن سائنس فورم 2012ء میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر آرمنڈ نے بتایا کہ آنے والے وقت میں صحت مند اولاد کی خواہش رکھنے والے افراد اپنی شادی کا فیصلہ کرنے سے پہلے کسی پشیمانی کے بغیر جینیاتی کوڈ کی نقل طلب کرکے تسلی ٰکرسکیں گے ۔باالفاظ دیگر آئی وی ایف طریقے کے ذریعے کئے جانے والے ٹیسٹ سے یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ ان کا پیدا ہونے والا بچہ کسی لا علاج مرض میں تو مبتلا نہیں ہوگا۔اور بات یہیں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بچے کی پیدائش سے قبل ہی یہ طے کیا جا سکے گا کہ اس کی ذہانت کی سطح کیا ہو(آئن سٹائن بچہ چاہئے یا پکاسو)،بال کس قسم کے ہوں (رحمان ملک سٹائل یا شاہ رخ خان) ،آنکھیں کا رنگ کیسا ہو(ہسپانویوں جیسی کالی یا گوروں جیسی نیلی) وغیرہ وغیرہ۔یعنی اگر جینیاتی کوڈ کے یہ ٹیسٹ کامیاب رہے تو پھر یقینا لوگوں نے آرڈر پر بچے بنوانے میں بھی تامل نہیں کرنا۔لیبارٹری گئے ،اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا،جینیاتی کوڈ کی کاپی لی اور وہیں لیبارٹری میں اپنے ہونے والے خاوند یا بیوی کے کوڈ سے ملا کر دیکھ لیا،اگر کُنڈلی مل گئی تو ہونے والے بچے کا آرڈر بھی وہیں کھڑے کھڑے لکھوا دیا۔”بھائی صاحب ،پلیز ہمارے بچے کا آرڈر ذرا پہلے لکھ لیں ،مجھے دفتر سے دیر ہو رہی ہے …جی دھیان سے نوٹ کیجئے گا …ایک لڑکا ،قد چھ فٹ ،رنگ گورا ،بال گھنگریالے، آنکھیں بھوری، ذہانت میں پاکستانی سیاست دان جیسا اور مزاج میں کسی ایسے ریٹائرڈ جرنیل جیسا جس پر کرپشن کا الزام ہو …نہیں نہیں زیادہ باڈی بلڈر نہیں چاہئے …ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ اس کی شکل اپنے باپ سے ضرور ملتی ہو ،ایسا نہ ہو کہ سلمان خان کی کاپی بنا دیں …شکریہ۔“
اس ٹیسٹ سے مصیبت ان جوڑوں کو ہو گی جن کے جینیاتی نقشے کا درست ملاپ نہیں ہو گا اور انہیں یہ مشورہ دیا جائے گا کہ وہ اپنی محبت کو بھول بھال کر کوئی ایسا جیون ساتھی تلاش کریں جس کا کوڈ ان سے میچ کر سکے ۔ایسی صورت میں لیبارٹریوں سے انہیں المیہ گانوں کی سی ڈیز بھی مفت فراہم کی جائیں گی اور انہیں بریفنگ دی جائے گی بہتر یہی ہے کہ اپنے محبوب کی شادی میں تمبو لگانے کی بجائے کوئی ڈھنگ کا کام کیا جائے ۔تاہم ایک بات طے ہے کہ اس ٹیسٹ سے انقلاب برپا ہو جائے گا اور دنیا میں ذہنی اور معذور بچوں کی پیدائش میں خاطر خواہ کمی پیدا ہو گی ۔مگر ساتھ ہی بے شمار سماجی مسائل بھی پیدا ہو ں گے جو ہر ایسی سائنسی ایجاد اور دریافت کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں ۔مثلاً چین میں آبادی پر قابو پانے کے لئے1979 سے ”ایک بچہ پالیسی“ کا قانون نا فذ العمل ہے اور تقریباً 36فیصد آبادی یعنی 48کروڑ افراد کو صرف ایک بچے ہی کی اجازت ہے مگر اب وہاں بھی زور دیا جا رہا ہے کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور 2020تک بچوں کی پیدائش پر لاگو پابندی کو ہٹا دیا جائے کیونکہ اس سے بے شمار سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔واضح رہے کہ جن جوڑوں کو صرف ایک بچے کی اجازت ہے وہ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے بچے کی جنس معلوم کرواتے ہیں اور لڑکی کی صورت میں (زیادہ تر کیسوں میں) بچہ ضائع کر وادیا جاتا ہے ۔
اس ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے جہاں دنیا میں صحت مند ،ذہین اور چاق و چوبند بچوں کی پیدائش کو یقینی بنایا جائے گا وہاں دنیا میں آبادی کا تناسب خطرناک حد تک بگڑ جانے کا بھی اندیشہ ہے۔عین ممکن ہے کہ کچھ حکومتیں اس صورت میں چین کی طرح یہ پابندی عائد کر دیں کہ فقط ایک بچہ آرڈر پر بنوایا جا سکتا ہے ،باقی جو اللہ کو منظور۔یہ بھی ممکن ہے کہ جوڑوں پر یہ پابندی عائد کر دی جائے کہ وہ بچوں کا آرڈر دیتے وقت جنس کے تعین سے اجتناب کریں اور دیگر خصائل کے بارے میں آزاد ہوں۔ لیکن اس صورت میں یہ مسئلہ بھی پیش آ سکتا ہے کہ اگر سب بچے ہی گورے چٹے ،ہٹے کٹے اور لمبے تڑنگے پیدا ہونے لگیں تو وہ انسان کم اور روبوٹ زیادہ لگیں گے ۔ان کی ذہانت کا معیار بھی لگ بھگ ایک جیسا ہوگا کیونکہ ہر جوڑا اپنے بچے کے لئے بہترین آئی کیو لیول کا انتخاب کرے گا، کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کا بچہ ایف ایس سی میں فیل ہو جائے ۔ایسی صورت میں دنیا میں competition کا کیا بنے گا ،مقابلے کی فضا کیسے پیدا ہو گی اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو انسانی ترقی کس صورت ہوگی ؟کیا گلیلیو، نیوٹن، آئن سٹائن، لیونارڈو ڈاونچی، شیکسپیئر، رازی، اقبال، ابن الہیثم، شیر شاہ سوری یا سٹیفن ہاکنگز بھی آرڈر پر بنوائے جا سکیں گے ؟ میں اس بات کا جواب یقین سے نہیں دے سکتا البتہ اتنا ضرور کہہ سکتا ہو ں کہ اس ڈی این اے ٹیسٹ سے ان والدین کی اذیت میں ضرور کمی ہو سکے گی جن کے بچے پیدائشی طور پر کسی لا علاج ذہنی یا جسمانی معذوری میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ایسے والدین روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں،نہ جانے خدا اپنے کچھ بندوں سے اس قدر سخت امتحان کیوں لیتا ہے ؟
تازہ ترین