• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی سیاست کا انتخابی طوفان بھی ختم ہوچکا اور طوفان سینڈی کی تیز طوفانی ہوائیں اور سمندری لہریں بھی اب ختم ہو چکی ہیں لیکن ان دونوں کے اثرات ایک لمبے عرصہ کے لئے امریکہ اور بیرونی دنیا پرمرتب ہوں گے۔ امریکی صدارت کیلئے انتخابی مہم اور6نومبر کی پولنگ سے قبل ہی ووٹ ڈالنے کی قانونی رعایت سے27ملین امریکی ووٹرز نے حق ووٹ استعمال کرکے انتخابی نتائج کی راہ ہموار کردی ہے جو 6نومبر کو باقی امریکی قوم کے ووٹوں کے استعمال اور گنتی کے بعد سامنے آئیں گے کہ ملک کا صدر بارک اوباما ہوگا یا مٹ رومنی جو سینڈی کی تباہ کاریوں کے اثرات سے نمٹنے کا ذمہ دار ہوگا۔ لیکن طوفان سینڈی کی امریکہ آمد، ساحلوں سے ٹکراؤ اور پھر نیویارک سمیت12سے زائد امریکی ریاستوں کے علاقوں میں اس طوفان کی تباہ کاریوں کے سفر کو دیکھنے اور سننے اور قدرت کے ہاتھوں انسانوں کی بے بسی کے جو مناظر دیکھے ہیں وہ انتہائی دلدوز یوں ہیں کہ تمام جدید وسائل اور ٹیکنالوجی والے منظم معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے بااعتماد انسان کس طرح وقت اور صورت حال کی تبدیلی کا سامنا کرتا ہے۔ طوفان سینڈی نے عام امریکی شہری کی طرح امریکہ میں آباد پاکستانی اور پاکستانی نژاد امریکیوں کی ایک بہت بڑی آبادی کو اثاثوں کی تباہی، گھروں میں سمندری اور دریائی سیلاب اور معاشی طور پر نہ صرف شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ ان کے مستقبل اور مزاج دونوں پر مایوسی طاری کردی ہے۔ مگر امریکی معاشرہ اور ماحول عزم و ہمت اور جرأت کو پسند کرتا ہے اور سیلاب سے متاثرہ پاکستانیوں کی بڑی اکثریت بھی ہر طرح کی حوصلہ شکن تباہی اور نقصان کے باوجود جس وقار اور برداشت کا مظاہرہ کررہی ہے وہ انتہائی قابل ستائش ہے لیکن ان سے زیادہ قابل تحسین وہ چند پاکستانی ہیں جنہوں نے نہ صرف خاموشی سے اپنے ذاتی وسائل اور جذبہ خدمت کے ساتھ اس اسکول میں گئے جہاں سینڈی کے ہاتھوں تباہ ہوکر سرکاری قائم کردہ شیلٹرز یعنی کیمپ میں اپنے خاندانوں کے ساتھ پناہ لئے ہوئے ہیں۔ بروکلین، لانگ آئی لینڈ، اسٹیٹن آئی لینڈ اور نیویارک کے دیگر علاقوں میں سینڈی سے متاثر ہونے والے پاکستانی نژاد خاندانوں کی صورت حال اور بعض مخلص پاکستانیوں کے جذبہ مدد کو سمجھنے کیلئے تفصیل کچھ یوں ہے۔ سینڈی طوفان کے دوسرے روز 5میل کا سفر کرکے جب نیویارک میں بروکلین کے علاقے برائنٹن بیچ پہنچا تو وہاں دیگر شہریوں کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں پاکستانی کمیونٹی کی بہت بڑی آبادی بھی سمندری پانی کے ریلے اور زیر زمین پانی کے ابلنے سے سیلاب کا شکار ہوچکی تھی۔ پورے علاقے میں بجلی کا نظام مکمل طور پر فیل تھا، علاقے کی چاروں مساجد میں کئی فٹ اونچے سیلاب کے پانی نے قالین وغیرہ سب تباہ کردیئے اور مذہبی کتابیں ڈبو دی تھیں اونچی بلڈنگوں کے تہہ خانوں میں قائم کردہ مساجد میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا تھا اور نچلی سطح کے گھر بھی بارش نہ ہونے کے باوجود سمندری اور زیر زمین پانی میں ڈوبے ہوئے تھے اور تیز ہواؤں نے کھڑکیاں برباد اور درخت زمین بوس کردیئے تھے ان پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ٹیکسی اور لیموزین چلانے کا کام کرتی ہے اور کنسٹرکشن کے کاروبار کیلئے وین کا استعمال کرتی ہے یہ گاڑیاں بھی ہوا اور سیلاب کے ہاتھوں تباہی اور تیرنے کے باعث ناکارہ ہوچکی تھیں۔ ہر سڑک کے کونے پر شلوار قمیض پہنے پاکستانی چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں خوف اور پریشانی کی تصویر بنے کھڑے تھے اور ایک دوسرے کو سینڈی کے ہاتھوں آپ بیتی سنا رہے تھے۔ کئی خاندان اپنے چھوٹے بچوں اور بچے کھچے ضرروی سامان کی چھوٹی موٹی گٹھڑی اٹھائے ان سیلاب زدہ بلڈنگوں کے اوپری حصوں میں مقیم رشتہ داروں اور جاننے والے پاکستانیوں سے پناہ کی درخواست کررہے تھے۔پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ35سال سے خوشی اور غم میں شرکت کے باعث یہ کمیونٹی جس اپنائیت اور دکھ سکھ کا کھل کر مجھ سے اظہار کرنے کی عادی ہے وہ میرا مفید اثاثہ ہے اور اس روز یہ میرے بڑے کام آیا۔ لوگوں نے کھل کر اپنی تکالیف‘ امریکی قوانین و ضوابط سے ناواقفیت کا اظہار کیا اور ساتھ ہی ساتھ مختلف پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے مقامی لیڈروں‘ کمیونٹی تنظیموں کے قائدین اور پاکستانی سیاست دانوں کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والے پاکستانیوں کی خاموشی اور بے حسی پر تنقید کرتے نظر آئے کہ وہ اس آزمائش کی گھڑی میں کہاں ہیں؟ ان سب کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹہ گزار کر جب ساتھ ہی واقع کاروباری علاقے میں پہنچے تو وہاں بھی پاکستانی ریسٹورنٹ‘ فارمیسی‘ گروسری اسٹور اور دیگر کاروباری دکانیں اور دفاتر بھی سیلاب سے تباہ ہوچکے تھے۔ امریکہ میں یہ مناظر اس سے قبل مجھے دیکھنے کو نہیں ملے تھے۔ اس سے آگے سمندر کی جانب گئے تو وہاں کی بلند و بالا عمارات میں آباد روسی کمیونٹی بھی بجلی سے محروم عمارات کے اوپری حصوں میں کسی حد تک موجود مگر نچلے علاقے سیلاب سے بھرے ہوئے نظر آئے اور سرکش بحر اٹلانٹک ابھی تک سخت سرکش لہروں کے ساتھ اپنی حدود میں شور کررہا تھا لیکن ماحول خوفناک تھا۔ اس علاقے کے لاکھوں مکین سمندر کے کنارے رہنے کے شوق میں بہت کچھ گنوا کر یہاں سے جاچکے تھے اور علاقہ بربادی کا ایک عجیب منظر پیش کررہا تھا۔ پتہ چلا کہ کچھ لوگوں کو تھوڑے ہی فاصلے پر واقع ایک اسکول میں قائم کردہ شیلٹر میں لے جایا گیا ہے دوسرے روز معلوم ہوا کہ اس شیلٹر یعنی کیمپ میں پناہ لینے والے مسلمان اور پاکستانی خاندان حلال کھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کیمپ کا عملہ مشکل کا شکار ہے۔ علاقے میں سرگرم ایک پاکستانی خاتون بازہ روحی کو پتہ چلا تو اس نے ایک ریسٹورنٹ کے پاکستانی مالک سے بات کی اور تعاون مانگا۔ اسی روز چند افراد کیلئے حلال کھانا تیار کرکے دونوں کیمپ میں پہنچ گئے کھانا انتہائی ناکافی تھا مگر کیمپ کی انتظامیہ نے خیرمقدم کیا۔ دوسرے روز اور پھر تیسرے روز تک حلال کھانا کئی گنا زیادہ بڑی مقدار میں تقسیم ہونے لگا خاموش اور پبلسٹی سے انکاری چند پاکستانیوں کو علم ہوا تو وہ اپنے جوان بچوں اور اس سے اگلی نسل کو ساتھ لے کر کیمپ خاموشی سے آئے اور وہاں کی ضروریات کا اندازہ لگا کر اور کیمپ میں مقیم لوگوں کے لئے ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق انتظامات کر گئے۔ پاکستانی کی پاکستانی سے محبت اور خلوص کے مناظر اور عمل سے کیمپ کا امریکہ عملہ انتہائی متاثر ہے۔ نیویارک میں متعین پاکستان کے قونصل جنرل بھی دو مرتبہ اس کیمپ میں آچکے ہیں جبکہ وہاں آباد کسی بھی دوسری کمیونٹی کی یہ صورت نہیں۔ خاتون بازہ روحی کے حلال کھانا مفت فراہم کرنے کا رضاکارانہ کام کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ امریکی حکام حیران مگر خوش ہیں۔ کئی پاکستانی نژاد انسان دوست خاموشی سے ان دکھی انسانوں کو دوبارہ خوش و خرم آباد کرنے کیلئے رضاکارانہ طور پر سرگرم ہیں یا فنڈ فراہم کر رہے ہیں حکومت امریکہ ان پاکستانی نژاد شہریوں کیلئے جو کچھ کرے وہ اپنی جگہ لیکن آزمائش کی گھڑی میں مصیبت زدہ پاکستانی کی مدد کیلئے دوسرے پاکستانی کا آگے بڑھ کر مدد کیلئے آنا ایک صحت مند اور قابل فخر روایت ہے جس سے اس کیمپ کا اسٹاف خوب واقف اور مطمئن دکھائی دیتا ہے۔ غیر پاکستانیوں کے سامنے پاکستانیوں کا یہ خوبصورت امیج جن پاکستانی رضاکاروں، مخیر پاکستانیوں اور متاثرہ باوقار پاکستانی خاندانوں نے مشترکہ طور پر قائم کی ہے، متاثرہ پاکستانی خاندان جلد ہی اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے۔ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے لیکن امریکیوں پر یہ اچھا تاثر پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں قائم رہے گا۔ پاکستانیوں کے امیج کو ایسے ہی قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب کئی اور مسلم تنظیمیں مثلاً ”اکنا“ بھی سرگرم عمل ہورہی ہیں۔ سیلاب زدہ مکانوں کی صفائی و آبادکاری‘ ڈاکٹروں کی تنظیم ”اپنا“ کی جانب سے تعاون اور میڈیکل شعبہ میں تشخیص و علاج کی خدمات یہ سب ”ذرا نم ہو تو اس مٹی کے زرخیز ہونے“ کا ثبوت دیتی ہے۔ نیوجرسی‘ کنکٹی کٹ اور دیگر علاقوں میں پاکستانی خاندان بڑی تباہی کا شکار ہوئے ہیں اور وہاں بھی پاکستانی کی پاکستانی سے قربت اور خلوص کی ایسی ہی اطلاعات مل رہی تھیں۔ خدا کرے قربتوں اور خلوص کے یہ مناظر بحران کے عارضی دنوں سے آگے بڑھ کر دائمی شکل اختیار کرلیں۔
تازہ ترین