• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے 28 جولائی 2017ءکو نا اہل قرار دیئے جانے اور وزارت اعظمی چھوڑنے کے بعد نواز شریف نے جی ٹی روڈ کے ذریعے سفر کر کے بھرپورعوامی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا، عوام نے اپنے قائد سے والہانہ محبت کا اظہار اس جوش و خروش سے کیا کہ اسلام آباد سے رائے ونڈ تک کا گھنٹوں کا سفردنوں میں طے ہوا۔ جس مسلم لیگ ن کو جی ٹی روڈ کی جماعت ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا اسی جی ٹی روڈ پر لگائی جانے والی عوام کی عدالت نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ عوام کا یہ رد عمل نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماوں کیلئے بھی غیرمتوقع تھا جس نے نہ صرف تیسری بار بھی بطور وزیر اعظم مدت اقتدار پوری نہ کرنے والے بد قسمت نواز شریف میں ایک نئی روح پھونک دی بلکہ جی ٹی روڈ کے اسی سفر نے مستقبل کا لائحہ عمل بھی واضح کردیا۔ اسی عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر نواز شریف نے تاریخ کا دھارا تبدیل کرنے پر مبنی ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگا دیا تاہم وہ بھول گئے اگر عوام نامی مخلوق کسی شمار میں ہوتی تو ان کے مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر نہ چڑھایا جاتا۔ عوام میں مقبولیت کے اسی زعم کو ختم کرنے کیلئے نواز شریف کو نہ صرف مسلم لیگ ن کی صدارت سے بھی فارغ کر دیا گیا بلکہ باسٹھ ون ایف کی تشریح کے ذریعے ان پر سیاست کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کر دیئے گئے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزرا، کئی اپنے بھی پرائے ہو گئے اور کل تک قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں کی یقین دہانیاں کرانے والے نئی منزلوں کو سدھار چکے تاہم عوام کے مینڈیٹ کو احترام دلوانے کے نواز شریف کے بیانیے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آتی گئی۔ انہوں نے مصلحت سے کام لینے کی ہر تجویز کو سختی سے رد کر دیا ،صبح صاحبزادی اور داماد کے ساتھ احتساب عدلت میں پیشیاں بھگتتے اور شام کو کسی شہر یا قصبے میں ووٹ کو عزت دینے کے نعرے لگوانے کے ساتھ خود بھی نعرے لگاتے۔ یہاں تک بھی سنا دیا گیا کہ اب محض انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ نئی شرائط لکھی جائیں گی اور یہ طے کرنے کے بعد ہی واپس آئیں گے کہ اس ملک میں حکومت کون کرے گا۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی مقبولیت نے بہت سوں کی نیندیں اڑا دیں۔ان حالات میں بے دخل کئے گئے نواز شریف کی واحد امید پاکستان کے عوام تھے اور ہیں اسی لئے وہ ہر جلسے اور اجتماع سے خطاب میں لوگوں پر زور دیتے کہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اتنے ووٹ دینا کہ وہ نہ صرف ان کے خلاف دیئے گئے فیصلے کو تبدیل کرسکیں بلکہ لاکھوں کروڑوں ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزرائے اعظم کو بیک جنبش قلم گھر بھیجنے کی روایت بھی ختم کر سکیں۔ تصویر کے اس ایک رخ کے ساتھ قارئین کو اس کالم کی وساطت سے میں وہ دوسرا رخ بھی دکھانا چاہتا ہوں جو میڈیا کی اسکرینوں، اخبارات کی سرخیوں اور سوشل میڈیا کی ہاہاکار سے بالکل مختلف ہے۔ بچپن سے ڈرائنگ روم کی سیاست کی اصطلاح سنتے آئے ہیں بالکل اسی طرح اسٹوڈیو یا نیوز روم میں بیٹھ کر کی جانے والے صحافت کے معانی بھی ایسے آشکار ہوئے کہ جیو نیوزسے چند دنوں کی رخصت لے کر آبائی علاقے ساہیوال کا رخ کیا،اس دوران بالخصوص دیہی علاقوں میں انتخابات سے متعلق عوام کی آرا جاننے کی کوشش کی تو ادراک ہوا کہ ’ ووٹ کو عزت دو‘کے جس بیانیے کے گھر گھر پہنچنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ محض سراب ہی ہے جو روایتی اور سوشل میڈیا سمیت صرف شہری علاقوں تک ہی محدود ہے۔ اگر ساہیوال کاکیس اسٹڈی کے طور پیش کروں تو میں پورے وثوق کے ساتھ تحریر کرسکتا ہوں کہ یہاں دیہاتوں میں ووٹ کی عزت یا عوام کی حکمرانی کے بیانیے پر ایمان لانا تو دور کی بات، ووٹ دینے کیلئے حکومتی کارکردگی تک کو ملحوظ خاطر رکھنے کا رواج تا حال نہیں پنپ سکا۔ دیہی علاقوں میں آج بھی ووٹ دینے کا پیمانہ دھڑے یا گروپ بندی، ذات برادری ، تعلق داری اور ذاتی مفادات ہی ہے۔ عام انتخابات سے قبل امیدواروں کی اکثریت کی طرف سے پارٹی وفاداریاں تبدیلی کرنے کے رجحان نے عوام کی پارٹی اور نظریے کے ساتھ وابستگی کو بھی بہت حد تک کمزور کردیا ہے۔ دیہی علاقوں میں آج بھی عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جاتا، انہیں اس سے بھی غرض نہیں کہ منتخب وزیر اعظم آئینی مدت پوری کرتا ہے یا نہیں، وہ اس بارے میں بھی رتی بھر حساس نہیں ہیں کہ ریاستی ادارے آئین کی متعین کردہ حدود میں کردارادا کرتے ہیں یا نہیں، انہیں یہ بھی فکر نہیں کہ کل تک جو سیاست دان ایک پارٹی اور اس کی قیادت کو ہر سانس کے ساتھ مطعون کرتا تھا آج وہ اسی پارٹی کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے، انہیں یہ بھی غم نہیں کہ کیا وہ جس نشان پر مہر لگائیں گے بیلٹ باکس سے وہی نتیجہ برآمد ہوگا اور تو اور جس ووٹ کے مقدس امانت ہونے اور ایک سال سے عزت دلانے کے وعظ کئے جا رہے ہیں وہ دیہی عوام کے نزدیک موضوع بحث ہی نہیں۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ساہیوال تقریبا ایک دہائی سے ڈویژن کا درجہ حاصل کر چکا ہے جس میں ساہیوال کے ساتھ اوکاڑہ اور پاکپتن کے اضلاع شامل ہیں۔ ضلع ساہیوال مغربی پنجاب کا حصہ ہونے اورلاہور سے ملتان جانے والی جی ٹی روڈپر واقع ہونے کی وجہ سے کسی طور پسماندہ علاقہ نہیں ہے بلکہ اس کے دیہی علاقوں میں سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں سمیت تمام بنیادی سہولتیں دستیاب ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے نتیجے میں ہونے والی حلقہ بندیوں کے باعث ضلع ساہیوال قومی اسمبلی کی ایک نشست سے محروم ہو چکا ہے۔ اب اس میں مجموعی طور پرقومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی سات نشستیں ہیں۔ مئی 2013 ءکے عام انتخابات میں ضلع ساہیوال کی قومی اسمبلی کی چار میں سے تین نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ ن جبکہ صوبائی اسمبلی کی سات نشستوں میں سے چھ پر مسلم لیگ ن اور ایک پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تھی۔ قومی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہونیو الے رائے حسن نواز اثاثہ جات کے مقدمے میں نا اہل ہوئے تو ان کی نشست بھی چوہدری طفیل جٹ کی ضمنی الیکشن میں کامیابی سے مسلم لیگ ن کے حصے میں آگئی۔ حالیہ مردم شماری میں ضلع ساہیوال کی مجموعی آبادی 25 لاکھ 17 ہزار560 نفوس پہ مشتمل ہے جس میں شہری آبادی 5 لاکھ 17 ہزار 120 جبکہ دیہی آبادی 20 لاکھ 440 ہے۔ ضلع ساہیوال میں مجموعی ووٹرز کی تعداد 13 لاکھ 62 ہزار 201 ہے۔ شہری اور دیہی آبادی کے تناسب سے امیدواروں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والوں میں تقریبا اسی فیصد دیہی ووٹرز ہوں گے ، یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ضلع ساہیوال کی تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی پارٹی وابستگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ،بعض نشستوں پر صرف یہ فرق آیا کہ باپ کی جگہ بیٹا ،بھائی یا بھتیجا امیدوار ہے۔ ضلع ساہیوال کی قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی سات نشستوں میں سے ایک دو نشستوں کے علاوہ کانٹَے دار مقابلہ متوقع ہے۔ مسلم لیگ ن کو صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ٹکٹ کی غلط تقسیم جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے پارٹی امیدواروں کے درمیان اختلافات کا خمیازہ گزشتہ عام انتخابات کے نتائج میں تبدیلی کی صورت میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ ضلع ساہیوال کی قومی اور صوبائی اسبلی کی مجموعی طور پردس نشستوں میں سے کوئی ایک نشست بھی ایسی نہیں ہے جس پریہ کہا جا سکتا ہو کہ اس پر ’ووٹ کو عزت دو‘ یا ’نئے پاکستان‘ کے بیانیے کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ پچیس جولائی کے عام انتخابات میں بھی ضلع ساہیوال کے عوام بالخصوص دیہی ووٹرزکے نزدیک ووٹ دینے کا پیمانہ ماضی کی طرح روایتی ہی ہوگا۔ ضلع ساہیوال کی اسی کیس اسٹڈی کو اگر پاکستان اور بالخصوص صوبہ پنجاب پراپلائی کیا جائے تو دیہی آبادی ترتیب کے لحاظ سے تریسٹھ اعشاریہ چھ فیصد اور تریسٹھ اعشاریہ انتیس فیصد ہے چناچہ ؛ووٹ کوعزت دو؛ کا بیانیہ انتخابی نتائج کی تبدیلی کیلئے کسی طور کارگر ثابت ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اسی کیس اسٹڈی کو سامنے رکھا جائے تو دیہی ووٹرز کی اکثریت کے باعث ’’ووٹ کوعزت دو‘‘ کے بیانیے سے عام انتخابات میں اسلئے بھی کوئی انہونی نہیں ہوگی کیونکہ روایتی میڈیا کی بریکنگ نیوز اورسوشل میڈیا کی ہاہاکار سے جنم لینے والا تاثر اور زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین