• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن ہے یا کوئی طوفان ؟
اسلام آباد، پنجاب، سندھ میں تبادلوں کا جھکڑ، 11 امیدوار ’’شیر‘‘ چھوڑ کر جیپ پر سوار۔ ابھی تو جھکڑ ہے اس کے بعد آندھی ہے پھر طوفان ہے اور اس کے بعد لال بھجکڑ ہے، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، تبدیلیوں کے طوفاں اور بھی ہیں، مگر ایک امید سی ہے کہ اس تمام ٹوٹ پھوٹ ردوبدل اور جنگ و جدل کے بعد باد نسیم چلے گی اور اسے کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہو گی کہ چٹیل میدان ہو گا، اکا دکا اگر ہو گا تو کوئی نادان ہو گا، الغرض اس بار الیکشن اب سے پہلے کی طرح کے نہیں ہوں گے، کون بنے گا سلطان یا ہما چکر لگا لگا کر لوٹ جائے گاکہ یہاں تو کسی سر پر اس کے بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں ہو گی، شاید ہجر، وصال میں بدل جائے، یا ہجر کی رات لمبی ہو جائے، کون جانے کس کو خبر، چیف جسٹس ڈیمز بنانے چلے ہیں، خورشید شاہ کہتے ہیں انہیں حق نہیں کہ کالا باغ ڈیم کسی اور کے پیسے سے بنائیں، باقی تو ٹھیک مگر یہ ’’کسی او رکے پیسے‘‘ کی سمجھ نہیں آئی، چیف جسٹس جلد خوشخبری بھی دینے والے ہیں، گویا بات پائپ لائن سے آگے گزر گئی ہے، پٹرول تقریباً سو روپے لٹر ہو گیا، نگرانوں کی یہ ادا دلربا ہے کہ سمری نامنظور نہیں کرتے، ن لیگ کے بظاہر بھاگے ہوئے آزاد اگر جیت کر با جماعت واپس آسمانی کبوتر کی طرح اپنی پرانی منڈیر پر بیٹھ گئے تو یہ اچنبے کی بات نہیں ہو گی کہ آسمانی کبوتر کو سات سمندر پار بھی بھیج دیا جائے شام کو گھر لوٹ آتے ہیں، شیر پر سواری اکیسویں صدی میں راس نہیں،فصل سب کی اُگے گی کسی کی کم کسی کی زیادہ قابل غور یہ ہے کہ بویا کیا تھا؟ حیرانی ہے کہ تبادلوں کا جھکڑ خیبر پختونخوا میں نہیں چلا، یہ ممکن ہے کوئی مخصوص ٹیکنالوجی ہو کہ جہاں چاہا امریکہ کی طرح زلزلہ برپا کر دیا جہاں چاہا بارش برسا دی اور جہاں چاہا طوفان بپا کر دیا۔
٭٭٭٭
ذاتی حملہ بھی ماتھا ٹیکنا ہے
خورشید شاہ:عمران خان کو ان کی بیوی نے کہا ہو گا درگاہ پر ماتھا ٹیکو تو وزیراعظم بن جائو گے، شاہ صاحب بات تو اپنی سیاسی ’’وکھی‘‘ سے نکالتے اور وہ دلوں میں ترازو بھی ہو جاتی ہے، مگر ایک بات بڑی عجیب ہے کہ تینوں پارٹیوں کی ساری دوڑ تو وزیراعظم بننے کے لئے ہے یہ عمران خان کو بار بار وزیراعظم کہنا کیا یہ ثابت نہیں کر دے گا کہ شاید وہی ان سب میں وزیراعظم بننے کے قابل ہیں، ماتھا ٹیکنا، بیوی کا تذکرہ یہ تو شاہ صاحب سادات کے شایان شان نہیں، آخر کیوں بیوی کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے، عمران خان نے ماتھا ٹیکا اعتراض ہو گیا وہ جو کالی چٹی دیویوں کے سامنے سجدے کرتے ہیں کبھی ان کا بھی نوٹس لیا؟ دو بڑی سیاسی جماعتوں کو غور کرنا چاہئے کہ وہ بالغ تھیں اور ایک نابالغ جماعت نے ’’تھرتھلی‘‘ مچا دی، لوگ تیر کی زد سے نکل رہے اور باقی شیر کی پیٹھ سے کسی اور کی گود میں بیٹھ رہے ہیں، بھلا اب کب زمانہ رہ گیا تیروں، شیروں کا، اب تو تیر کی جگہ گولی اور شیر کی جگہ ایف 16 اپنا نشان رکھنا چاہئے، کرکٹ والا بَلا ہے یا بلی والا بِلاآخر کچھ زمانے سے لگا تو کھاتا ہے، نئے بلاول کے ساتھ کوئی نیا پڑھا لکھا نشان ہوتا، اب تو یار لوگ تیر پی پی کیا تیر نظر کو بھی راستے میں ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ قائداعظم کے بعد ہر کوئی اعظم بننے کی کوشش میں ہے، اعظم سواتی نے بھی اعظم بننے کی تازہ ترین کوشش کی ہے، اب اس میں صداقت کتنی ہے یہ تو ماہر وہی جانتی ہو گی جو کہتی ہے کیا باپ، بیٹی کو دھمکی دیتا ہے، خان صاحب محتاط رہیں آپ کی منجی تلے مخالفین کی بڑی تعداد ہے الٹا ہی نہ دیں، پہلے بھی آپ اسٹیج سے گر چکے ہیں، کہیں کوئی گرا ہی نہ دے۔
٭٭٭٭
زندہ خراج تحسین
ہمارا دیرینہ دستور تو یہ ہے کہ کوئی صاحب علم و فن دنیا سے رخصت ہو تو اسے مرا ہوا کا اعزاز نہ دیں بلکہ اس کے کمالِ فن کا تذکرہ کریں، مگر اب یہ رسم کہن نکلی ہے، ہمارے سامنے ظاہری و باطنی حسن رکھنے والی ایک کتاب ’’سید عارف نوناری فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے موجود ہے، اسے 3مولفین نے تالیف کیا ہے، ایک ڈاکٹر شفیق چوہدری، دوسرے ایم آر شاہد اور تیسرے محمد نوید مرزا سید عارف نوناری جوان ہیں نوجوان نہیں، کم عرصے میں اس سید زادے نے بہت فاصلہ طے کیا ہے، ان کی 9کتابیں چھپ چکی ہیں، 9 کا ہندسہ انسانی تخلیق کی تکمیل کا غماز ہے، عارف نوناری شاعر بھی ہیں ادیب بھی، کالم نگار بھی ہیں نگار علم بھی، ان کے خانوادے ہمہ آفتاب ماہتاب کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، ان کے ایک شعر میں آفاقیت دیکھی زمانہ غیر منقسم دکھائی دیتا ہے بڑی سادگی سے کہتے ہیں؎
نئے تقاضوں سے اک روز جڑ ہی جائے گی
جو ایک بات پرانی دکھائی دیتی ہے
ان کے ہنر میں سماج بھی ہے سماجی کارکن بھی، یہ جبل علم کے کوہ کن ہیں جوئے، نکتہ روی لے آئے ہیں، جو جوئے شیر لانے سے کہیںمشکل ہے، ہم تینوں مولفین کو سلام کرتے ہیں کہ انہوں نے نوناری صاحب کو متعارف ہونے کے باوجود متعارف کیا ہے اس لئے کہ بعض دانشوروں کے لئے ایک تعارف کافی نہیں ہوتا، وطن عزیز میں کتنے ہی جواں سال صاحبان دانش موجود ہیں، جو شعر و ادب، طنز و مزاح اور بذلہ سنجی میں کمال رکھتے ہیں ان کو ڈھونڈنا بھی اہل علم کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ غیرت علم ہے کہ وہ منتظر ہیں اس کے کہ ’’کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا،‘‘ عارف نوناری جوہر قابل ہیں، انسانیت میں اترنے کے بجائے انسان سے پیار کرتے ہیں اور زندگی کا ایک حصہ اس میں گزار دیا، علم مطالعہ ہے تو انسان کتاب، شاید یہی ان کا نظریہ ہے، اس کتاب سے صرف نظر نہ کیا جائے کہ اس میں جاننے کے لئے بہت کچھ ہے۔
٭٭٭٭
کالی زلفیں رنگ سنہرا
....Oتیل مہنگا کرنے کی سمری منظور ہو گئی
نگراں حکومت بھی عوام سے دور ہو گئی
....Oمریم نواز:جس پر نواز شریف کا ہاتھ ہو گا وہی جیتے گا۔
ہم تو سمجھتے تھے جس کے سر پر ہُما بیٹھے گا وہی جیتے گا۔ گویا نواز شریف ید بیضا لئے پھرتے ہیں اپنی آستینوں میں۔
....O خواجہ آصف:عمران خان رَن مرید نہیں، کوئی اور ہی چیز، رَن مرید ہونا تو عزت کی بات۔
خواجہ صاحب نئی نسل بڑی خوبی سے جو خالی جگہ آپ نے اپنے جملے میں چھوڑی پُر کرے گی اور عمر کے اس حصے میں آپ کے حسن گفتار کو سمجھ جائے گی۔
....Oشیخ رشید کے ووٹروں کو لبھانے کے نرالے انداز، بگھی پر بیٹھ کر حلقوں کا دورہ۔
شیدا، شیدا ہی رہے گا چاہے بکنگھم پیلس کے جھروکوں میں بیٹھ کر ٹلی بجائے۔
....Oریحام نے اپنی داڑھی والی تصویر سوشل میڈیا پر چلا دی،
ہنستا ہوا نورانی چہرہ
کالی زلفیں رنگ سنہرا
الغرض: قیس تیری جوانی دلربا دلربا
تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

تازہ ترین