• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کی متوقع صدارت کے امیدواروں کے درمیان چار اقساط اور موضوعات پر محیط ڈائیلاگ کو سن کر عجب اور مختلف النوع سوالات ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ دونوں کے ماتھے پہ کسی وقت کوئی شکن نہیں آئی، کسی نے غرّاتے ہوئے آنکھیں پھاڑ کر اور منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے سوالوں کے جواب دینے میں اپنا حلیہ نہیں بگاڑا،کسی نے ایک دوسرے کی طرف بدتمیزی سے اشارے نہیں کئے،کسی نے انگلی اٹھا کر یہ نہیں کہا ”میں تمہاری اوقات بتاتا ہوں“ ”میں بھی تجھے جانتا ہوں“۔ یہ بھی نہیں ہوا کہ دونوں ایک ہی وقت میں بول رہے ہوں اور ایک دوسرے کو خونخوار آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔
سیاست کوئی بچوں کا یا بدتمیزوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس وقت عالمی سیاست میں بہت گمبھیر مسائل درپیش ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ پچاس برس سے لٹکا ہوا ہے۔ ہر چند امریکہ یہودیوں کا ساتھ دینے پہ مجبور ہے کہ خود امریکی مالی توازن قطعی طور پر امریکی یہودیوں کے ہاتھ میں ہے مگر اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کے دباؤ کے علاوہ خود فلسطینی جدوجہد سے منکر نہیں ہوا جا سکتا ہے اس لئے فلسطین کے مسئلے پر بھی دونوں امیدواروں نے سنجیدگی سے بحث کی۔ اسی طرح ایران کے مسئلے پر یہ کہہ کر نہیں ٹال دیا گیا کہ میں آیا تو حملہ کروں گا اور تم آئے تو حملہ کرنا بلکہ باقاعدہ بحث کی گئی کہ اگر ایران پر حملہ کیا جائے تو اس پر کتنے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ کیا اس طرح ایٹمی جنگ چھڑ جانے کا احتمال ہے کہ اس کا اثر وسطی ایشیائی ریاستوں تک بھی پہنچے گا، اسی طرح شمالی کوریا کے مسئلے پر بحث کی گئی۔ امریکہ میں بڑھتی ہوئی افراط زر اور بے روزگاری پہ بھی بحث کی گئی۔ سب سے اہم بحث پاکستان سے دوستی یا دشمنی کے حوالے سے تھی کہ طالبان کی موجودگی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس سے مزاحمت کی ضرورت ہے کہ چاہے افغانستان ہو کہ پاکستان یہ قوتیں دونوں ممالک میں کمزور ہو سکیں۔ خاص کر پاکستان میں یہ رجعت پسند قوتیں حکومت پر کسی صورت میں بھی قابو نہ پا سکیں۔
پاکستان میں سیلاب آیا تھا تو سبّی سے لے کر کشمور تک کے لوگ اس کھلی سردی میں بھی بے سر و سامان اور بے آسرا پڑے ہیں۔ ساری سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ڈفلی بجا رہی ہیں مگر غریب، بے گھر لوگوں کا ان میں سے کسی کو بھی کوئی غم نہیں کھائے جا رہا ہے جب کہ امریکہ میں جیسے ہی سینڈی طوفان نے نیویارک اور سات ریاستوں کو گھیرا تو دونوں امیدواروں نے بیک وقت اپنی اپنی انتخابی مہم بند کر کے بربادی میں گرفتار لوگوں کی مدد کرنے کی فوری منصوبہ بندی کی۔ یہی کچھ پاکستان میں ہوا ہوتا تو ہمارے سیاستدان کہتے ”مقامی پارٹی کے لوگوں کو ہدایت دے دی گئی ہے“ یا پھر ایک دوسرے پہ تہمت لگاتے لگاتے، ہر بدتہذیبی سے گزر جاتے۔ بے آسرا لوگ یوں ہی در بدر رہتے۔
چاہے امریکہ ہو کہ پاکستان انتخابی مہم کے دوران پیسہ بہت لگتا ہے۔ اب ہمارے الیکشن کمیشن کے چیئرمین کتنی ہی پابندیاں لگا لیں یہ اخراجات چاہے ظاہر کر کے ہوں کہ چھپا کر، ہوتے تو بے پناہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی لیڈر کو کوئی امیر نمائندہ جہاز خرید کر دے دیتا ہے، کبھی وہ تمام جلسوں کے اخراجات اپنے ذمے لے لیتا ہے، چاہے کوئی نمائندہ ووٹرز کے درمیان کبھی آٹا، چائے اور گھی مفت بانٹتا ہے تو کوئی ٹیلی ویژن دیتا ہے تو کوئی ٹریکٹر اور کھاد کی بوریاں مفت فراہم کرتا ہے، اب تو کہانی آئی پیڈ تک پہنچ چکی ہے۔ لوگ لیپ ٹاپ مفت دے رہے ہیں۔ ممکن ہے انتخابی مہم کے دوران بے گھر لوگوں کو بھٹو صاحب کی نقل کرتے ہوئے اپنے اپنے علاقے میں تین، تین مرلے کے مکان یا زمین دے ڈالیں یا محض وعدے پر ٹال دیں۔ اسی دوران بہت سے قصے بھی بے نقاب ہوں گے جیسے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقوں میں عوام تک نہ پہنچنے کی خبر ملک کے کونے کونے میں پہنچ گئی ہے۔ رینٹل پاور کا قصہ تو سب کو معلوم ہے اور اب تو پیشی جرنیلوں کی بھی ہو رہی ہے۔ آخر فرانس میں سابق صدر سرکوزی کے خلاف بھی مقدمات سامنے آ رہے ہیں مگر قوت برداشت سب ملکوں میں پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ یوں تو ہندوستان بھی ہم سے پیچھے نہیں ہے۔ بال ٹھاکرے ہی کسی سے کم نہیں ہیں۔ وہ تو خواب میں بھی پاکستان کا نام سن لیں تو دن بھر پاکستان کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ طالبان تو ہر وقت کندھے پر بندوق رکھے کسی بھی وقت چلانے کو تیار رہتے ہیں۔ لوگوں کو قتل کرنے کے بعد شرمندہ بھی نہیں ہوتے بلکہ بہت فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ حملہ ہم نے کیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے لئے کون بہتر ثابت ہو گا؟ اوباما کو ہم جانتے ہیں جنہوں نے کہا کہ پاکستان کو آئی ایس آئی اور فوج چلا رہی ہے پھر یہ بھی کہا کہ اگر ہم اسامہ کو مارنے سے پہلے پاکستان کو بتا دیتے تو پھر یہ کام ہونے سے رہا تھا۔ سو اب آپ سوچ لیں ہمارے ساتھ اوباما کو کتنی محبت ہے یا وہ پاکستان کو کس حد تک سمجھتے ہیں۔ رہے رومنی صاحب! وہ تو دولت مند جیسے دولت مند ہیں پھر ظاہر ہے ان کی ہمدردیاں بھی یہودیوں کے ساتھ زیادہ ہوں گی۔ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ اس وقت امریکہ اقتصادی اور تجارتی معاملات میں ہندوستان کا بڑا پارٹنر ہے۔ ممکن ہے ہندوستان کو سمجھائے کہ اب جو 4نومبر کو 16/کشمیری خواتین مقبوضہ کشمیر سے مظفرآباد دریائے توی عبور کر کے آ رہی ہیں کچھ ایسا ہی سلسلہ تمام بارڈروں پہ ہو جائے اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں قطاروں میں کھڑے ہونے کے وبال سے بچ جائیں۔ اب تو حکومت پاکستان نے بھی یہ ویزا کی نرمی کا قانون پاس کر دیا ہے۔ ممکن ہے نئی حکومت امریکہ میں جو بنے گی وہ بھی دونوں ملکوں کے ایٹم بم کو بھول کر ہندوستان، پاکستان کے رشتوں کو نیا رخ دیا جائے گا۔
پاکستان کے بیشتر لوگوں میں عدم برداشت کا مادّہ ہے مگر ایک اکیلی ثمینہ راجہ تھی جس نے اپنے سارے دکھ خاموشی سے سہے۔ کینسر ہوا تو اس کے بارے میں کسی کو نہ بتایا۔ کسی نے کہا بھی کہ اپنے دکھ مجھے دے دو مگر اس نے بچوں کو پالنے سے لے کر نوکری کرنے، تراجم کرنے اور خود پسندی کو عزت کے ساتھ سنبھالے رکھنے کو ایسے سلیقے سے برتا کہ موت نے جب اس کی آنکھیں بند کیں تو سرہانے کھڑے معصوم بیٹوں کی سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ ہماری ماں کو کیا ہو گیا ہے، ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئی ہے۔ میں لکھ تو رہی تھی امریکیوں کی قوت برداشت کی مثال دے کر مگر ثمینہ راجہ نے میرے اندر ایسے دکھ جگائے کہ مجھے منیر نیازی کا یہ شعر یاد آ گیا ”میں جس سے پیار کرتا ہوں، اسی کو مار دیتا ہوں“۔ منصورہ نے قاسمی صاحب سے اور ثمینہ نے احمد فراز سے بہت پیار کیا۔ یہ معصوم میری بہنیں اپنے اندر پگھلتی رہیں اور دونوں کے جانے کے بعد خود بھی دنیا سے منہ موڑ گئیں۔ سجناں وی مر جانا!
تازہ ترین