• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈھائی ماہ کے بعد وطن واپس لوٹا ہوں تو بےکیف سیاست کے رنگ دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ پاکستان کے بلدیاتی اور اسمبلیوں کے انتخابات دیکھتے عمر گزری۔دیہی علاقوں میں بھی انتخابات کا کھیل دیکھا اور شہری حلقوں میں بھی انتخابات کی گہما گہمی دیکھی لیکن اس بار میری توقع کے برعکس انتخابی سیاست کچھ بے کیف سی لگتی ہے۔یہ سناٹا انتخابات کے التواء کا پیش خیمہ تو نہیں؟ انتخابات میں تین ہفتے رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک ہمارے میڈیا کا فوکس امیدواروں کے اثاثہ جات پر ہے یا پھر مختلف امیدواروں کی شادیوں، بیویوں اور خفیہ بیگمات پر۔ اس حوالے سے یہ انتخابات کچھ امیدواروں کے گھر اجاڑیں گے کیونکہ کچھ حضرات نے خفیہ نکاح کررکھے تھے لیکن اب’’صادق و امین‘‘ کے خوف سے خفیہ شادیاں ڈکلیئر کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں شاطر سیاستدان خفیہ معاملات کو خفیہ ہی رکھتے تھے اور سب کچھ ظاہر کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اس بار سپریم کورٹ سے لے کر نچلی سطح تک جس طرح صادق و امین کا کلہاڑا سیاستدانوں کی گردنیں اڑارہا ہے اس کے بعد خفیہ معاملات کو خفیہ رکھنا ممکن نہیں رہا کیونکہ عمر بھر کی نااہلی کی تلوار سر پر لٹکتی نظر آتی ہے لیکن میرا اندازہ ہے کہ تمام تر خطرات کے باوجود گھاگ سیاستدان بہت کچھ خفیہ رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں یہ فن آتا ہے۔ یوں بھی سیاست اچھے بھلے لوگوں کو فنکار بنادیتی ہے۔ بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ بیگمات والے سیاستدانوں کو اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ الیکشن کمیشن نے صرف موجودہ بیگمات کا پوچھا ہے، ورنہ اگر سابق بیگمات کے لئے بھی فارموں میں خانہ رکھ دیا جاتا تو بڑے بڑے شیر بےنقاب ہوتے اور کئی جوشیلے سیاستدان بہت سی بیگمات کے خاوند نکلتے۔ بہرحال سیاسی منظر پر نظر ڈالتا ہوں تو مجموعی طور پر عدلیہ کا’’خوف‘‘ حاوی نظر آتا ہے۔ اس خوف کا نقطہ آغاز میاں نواز شریف کی بحیثیت وزیر اعظم نااہلی تھی جس نے بہت سے سیاستدانوں کو اپنی لپیٹ میں لےلیا۔ پہلے دبی دبی زبان میں کہا جارہا تھا اور اب کھل کر کہا جارہا ہے کہ سیاست ایک طے شدہ اسکرپٹ کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔ اس طرح سیاسی حلقے عسکری اور عدالتی گٹھ جوڑ کے خدشے کا اظہار کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک گہرا تاثر ضرور پیدا کیا جاچکا ہے جس کا مقصد حیلے بہانے ،ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں کب کوئی مانتا ہے کہ اس نے کرپشن کی ہے یا جھوٹ بولا ہے یا اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ اربوں روپے لوٹنے والے بھی مظلومیت کا رونا روتے ہیں اور دنیا بھر میں جائیدادیں خریدنے والے بھی اپنے آپ کو معصوم قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار احتساب کا شکنجہ کسا جارہا ہے اور عدالتیں بھی آزادی کا مظاہرہ کررہی ہیں، چنانچہ عدالتوں سے من پسند فیصلے حاصل کرنے والے اپنے آپ کو مظلوم ہی کہیں گے کیونکہ عدالتیں اب ان کی خواہشات کا احترام کرنے کے بجائے آزادانہ فیصلوں کا ظلم ڈھارہی ہیں، البتہ احتساب کی یک رخی شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔ کبھی پی پی پی احتساب کی چکی میں پس رہی تھی ، اب مسلم لیگ(ن) کو احتساب کا سامنا ہے۔ اس سے یوں تاثر ملتا ہے جیسے احتساب توازن سے محروم ہے۔ رہا یہ واویلا کہ ہوائی مخلوق یا اسٹیبلشمنٹ کمزور اور (HUNG)پارلیمنٹ چاہتی ہے مجھے اس لئے متاثر نہیں کرتا کہ اگر مقصد حکومت سے من پسند فیصلے کروانا ہے تو وہ پہلے بھی کروائے جارہے تھے،اس مقصد کے لئے منقسم اور کمزور پارلیمنٹ ضروری نہیں۔ہوسکتا ہے اس پراپیگنڈے کا مقصد بھی ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنا ہو کیونکہ میرے تجربے کے مطابق سیاستدان ووٹ لینے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ کسی کو ظالم اور خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنا ہماری سیاست کا پرانا طریقہ واردات ہے۔
البتہ ایک انوکھی پیش رفت پہلی بار دیکھنے میں آرہی ہے اور قابل غور ہے۔ اس کا کریڈٹ آزاد میڈیا بھی لے سکتا ہے اور اس کا کریڈٹ سیاسی و جمہوری عمل کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ انتخابات کے قریب ووٹر کا رویہ اور انداز ہمیشہ بدل جاتا ہے اور اس پر لاڈلا پن غالب آجاتا ہے۔ ووٹر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ انتخابات کے قرب کا فائدہ اٹھا کر اپنے کام کروالے۔ اس بار کچھ بغاوت کے آثار نمایاں ہورہے ہیں جو میرے نزدیک آزاد اور احتسابی فضا کا تحفہ ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو بھی لت پڑی ہوئی ہے کہ وہ ووٹ لے کر اپنے حلقے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتے، نہ وعدے پورے کرتے ہیں اور نہ اپنے کارکنوں سے رابطہ رکھتے ہیں۔ اس پس منظر میں اس دفعہ ووٹر کے تیور خطرناک لگتے ہیں۔ بہت سے حلقوں میں ووٹ لینے کے لئے آنے والے امیدواروں کا گھیرائو ہوا، ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا، آپ پانچ برسوں میں اپنے حلقے میں کتنی بار تشریف لائے وغیرہ وغیرہ۔ بعض جگہوں پر امیدواروں کو دم دبا کر بھاگنا پڑا اور اکثر مقامات پر انہیں خفت اٹھانا پڑی۔ اس رویے اور انداز سے راز کھلا کہ اب ووٹر زیادہ باشعور اور بیباک ہوچکا ہے۔ وہ امیدوار کا تھوڑا سا احتساب بھی کرتا ہے اور ووٹ کی عزت بھی کروانا چاہتا ہے۔ اس لہر کی زیادہ قیمت اسی جماعت کو اٹھانی پڑے گی جو ووٹ کی عزت کا نعرہ لگارہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں انتخابات قریب آئیں گے یہ لہر پھیلتی جائے گی اور پرانے سیاستدانوں کے لئے شرمندگی لائے گی۔ اس صورتحال سے نئے چہرے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور’’ آزمائش شرط ہے‘‘ کا نعرہ بلند کرسکتے ہیں۔
ووٹر کا شعور اور احتسابی رویہ اپنی جگہ لیکن اس منظر نامے میں ایک قابل غور پہلو بھی پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ ہمارا ووٹر ابھی اسمبلیوں کے انتخابات اور لوکل باڈیز کے انتخابات میں فرق کو نہیں سمجھ سکا۔ مطلب یہ کہ ہمارا ووٹر اتنی بار ووٹ دینے کے بعد بھی یہ نہیں سمجھ سکا کہ حلقے میں نالیاں، سڑکیں بنوانا، صاف پانی کی فراہمی، صفائی وغیرہ اسمبلیوں کے اراکین کا کام نہیں بلکہ یہ بلدیاتی اداروں کے منتخب اراکین کا فرض منصبی ہے۔ ہمارا ووٹر اسمبلیوں کے امیدواروں سے نوکریاں دلانے کے ساتھ ساتھ سڑکیں پکی کروانے کی بھی توقع کرتا ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں کہ اسمبلیوں نے کیا کیا قانون سازی کی اور اس عمل میں ان امیدواروں کا کتنا حصہ تھا یا کہ ان کے حلقے سے منتخب ہونے والے کی پارلیمنٹ میں کارکردگی کیسی تھی؟
انتخابات کی آمد آمد ہے لیکن انتخابی جوش و خروش، ولولہ اور سرگرمیاں نظر نہیں آرہیں جو ووٹروں کو گرماتی اور پولنگ اسٹیشنوں پر لاتی ہیں۔ شاید ابھی تک امیدوار پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے، نامزدگی فارم فائل کرنے اور قانونی جنگیں لڑنے میں مصروف تھے اس لئے انتخابی ہنگامہ آرائی، جلسے جلوس اور محلوں میں وہ سیاسی چہل پہل نظر نہیں آرہی جس کے ہم عادی ہیں اس لئے انتخابی مہم کے بےکیف ہونے کا تاثر پیدا ہورہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جب تک سیاسی کارکنان آپس میں گتھم گتھا نہ ہوں، سر پھٹول نہ ہو، بلند بانگ دعوئوں کے ڈھول نہ پیٹے جائیں، ہر گلی محلے میں مہمان نوازی کے لنگر نہ کھولے جائیں اور وقتاً فوقتاً گولیاں چلنے کی آوازیں نہ آئیں ہماری تسلی نہیں ہوتی اور ہمیں انتخابات بےکیف ہی لگتے ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین