• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانے میں ’’ٹاکرا‘‘ کے نام سے ایک پنجابی ٹی وی چینل پر ہر ہفتےمیرا پروگرام چلتاتھا۔ دوسرے پروگرام کا نام ’’نال نال‘‘ یعنی ساتھ ساتھ تھا۔ ماضی میں کئے گئے یہ دونوں پروگرام موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھ کر بے اختیار یاد آرہے ہیں۔ انتخابی مہم کےآغاز میں ٹکرائو کی سیاست ہو رہی ہے۔ یہ ٹکرائو سیاسی جماعتوںکا نہیں بلکہ عوام اور سیاسی رہنمائوںکے درمیان ہے۔ شاید 70سالوں میںایسا پہلی مرتبہ ہو رہاہے۔ اس میںدھرنےکے دوران کی گئی عمران خان کی تقریروں کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ 126دنوں تک جو شعور تقسیم کیا گیاتھا، اس کے اثرات سامنے آگئے ہیں۔ ووٹرز پہلی مرتبہ اپنے ووٹ کی عزت کا سوال کر رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ ووٹ لینےوالوں سے انتخابی عمل سے پہلے ہی حساب مانگا جارہاہے۔ جمال لغاری سے شروع ہونے والا عمل ابھی نہیں رکا بلکہ اس عوامی ردعمل نے اور لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے کئی امیداروںکو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سردار سلیم جان مزاری کے بعد نوشہروفیروز میں سرفرا ز شاہ اور سکھر میں پیپلزپارٹی کے دونوں امیدواروں کو سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ بدین میں علی حسن زرداری کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔لوگ دودھ کے ڈرم میدان میں لے آئے ہیں۔ ایک زمانے میں علی حسن زرداری دودھ بیچاکرتے تھے۔ انہیں حلقے کےلوگ ماضی یادکروارہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو انتخابی مہم کے آغاز میں مشکلات کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ لیاری جہاں پیپلزپارٹی کے رہنمائوںپر پھول برسا کرتے تھے،وہاں بلاول بھٹو زرداری پرپتھرائو کیا گیاہے۔ اتوار کے دن کراچی کا لیاری میدانِ جنگ بنا رہا۔ ڈنڈے برسائے گئے،گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود بلاول بھٹو زرداری نے لیاری ہی کے ایک اور مقام پر تقریر کی۔ سینیٹر شیری رحمٰن نےاپنی پریس کانفرنس میں پچیس تیس شرپسندوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے کچھ لوگوںکاخیال ہے کہ لیاری میں سارا کام ماضی میں کراچی پر راج کرنے والی جماعت نے کروایاہے۔ وہ اسے ’’عوامی خدمت‘‘ کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ اس جماعت کے اپنے امیدواروں کو بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ ان کے بڑے بڑے لیڈروں کو بھی عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سندھ کے نگران وزیر اطلاعات کو ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھاجو انہوں نے لیاری کے حالات کے بعد دیا، انہیں اپنی غیرجانبداری برقرار رکھنی چاہئے تھی۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے اس سلسلے میں درست نشاندہی کی ہے کہ سندھ کے نگران وزیر کو جانبداری کامظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری کی حفاظت کے سلسلے میں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کہ آصف علی زرداری نے صدارت کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ہی اپنے ساتھ کام کرنےوالے فوجی افسران اور اہلکاروں کی مدت ِ ملازمت ختم کروا دی تھی۔ دورانِ صدارت انہوں نےکئی فوجی افسران اور اہلکاروں کو اپنی محبتوںکا اسیر بنالیا تھا۔ ان سب نےریٹائرمنٹ لی اور یہ لوگ مختلف دفتری امور اور حفاظتی امور کے لئے آصف علی زرداری کے ساتھی بن گئے۔ یہی لوگ بلاول بھٹوزرداری کی حفاظت کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو داد دینی چاہئے کہ وہ پتھرائو کے باوجود مہم جاری رکھے ہوئےہیں۔ ن لیگ کے رہنما تو ہمت ہی نہیں کررہے۔ ابھی پنجاب میں تحریک لبیک نے انتخابی مہم کاآغاز نہیںکیا مگر پنجاب میں ن لیگ کے رہنمائوں کے لئے انتخابی مہم چلانا مشکل ہو چکاہے۔ بہاولپور میں بلیغ الرحمٰن، چنیوٹ میں قیصر احمدشیخ، فیصل آباد میں رانافضل اور سرور شہید چوک میں قاسم ہنجراکی جتنی ’’خاطر مدارت‘‘ ہوچکی ہے، جس کا ایک مظاہرہ آپ پسرور میں زاہد حامدکے ساتھ بھی دیکھ چکے ہیں، جس کی ایک جھلک لاہور میں مہر اشتیاق پر گزر چکی ہے، اس ’’خاطرمدارت‘‘ کے بعد بڑے لیڈر ہمت نہیں کررہے بلکہ وہ کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں گاناگا کر اچھے دنوں کی یاد تازہ کررہے ہیں۔ کراچی میںبھی انہوںنے ’’گل‘‘ کھلائے، کبھی کرانچی کہہ کر اورکبھی پان کھانےوالے کہہ کر۔ شہباز شریف کے ان جملوں کاکراچی والے خوب جواب دے چکے ہیں۔ ایک جواب چوہدری اعتزا ز احسن نے بھی دیا۔ اعتزاز احسن نے ’’محبت‘‘ کے دنوں میں بھی ن لیگ کو جواب دینے سے گریز نہیں کیا تھا۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کرپٹ اشرافیہ کو ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیاہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر انہوں نےخیبرپختونخوا سے ایم ایم اےکے امیدوار کو میاں شہباز شریف کے حق میں دستبردارکرا دیاہے بلکہ ایک مولانا کو ٹکٹ دیکر واپس لے لیا گیا ہے۔ سراج الحق کو ایم ایم اے کے اندر بھی اشرافیہ نظر آنی چاہئے۔ ایم ایم اے کے اندرمولانا فضل الرحمٰن نے کمال دکھایا ہے۔ ان کے ایک بھائی عطاالرحمٰن سینیٹر ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن خود دوحلقوں سے امیدوار ہیں جبکہ دوسرے دوبھائی مولانا لطف الرحمٰن اور مولانا عبید الرحمٰن بھی عوامی ’’خدمت‘‘ کےتحت سیاسی اکھاڑے میں اتر چکے ہیں۔ دونوں بھائیوں کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن کے فرزندمولانا اسد محمودسیاسی میدان میں ہیں۔مولانافضل الرحمٰن کے فرزند مولانا اسد محمود ٹانک سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ ’’عوامی خدمت‘‘ میں مزیداضافے کی خاطر مولانا فضل الرحمٰن نے خواتین کی نشستوں پر بھی کچھ رشتہ دارخواتین کی نامزدگی کو یقینی بنایا ہے۔
پنجاب میں ن لیگ کے کئی افرادالیکشن سے پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔ رہی سہی کسر ’’آزادی‘‘ نے پوری کردی ہے۔ بہت سے امیدوار آزادہو کر’’جیپ‘‘ پر سوار ہوگئےہیں۔ مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے نوازشریف نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ.... ’’شفاف الیکشن کی امید ختم ہوتی جارہی ہے۔‘‘ واضح ہوتی ہوئی شکست کو دیکھ کر میاں نوازشریف بائیکاٹ بھی کرسکتے ہیں اگر انہوں نےبائیکاٹ کیاتو کچھ اور جماعتیں اس کا حصہ بن سکتی ہیں۔ ابھی تو انتخابی مہم کا آغازہے۔ کچھ دنوں تک معاملات ماردھاڑ تک جاسکتے ہیں۔ صورتحال اوربھی خراب ہوسکتی ہے۔
تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری تمام سیاسی جماعتوں میں لاثانی ترجمان ہیں۔ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور تمام دشمنوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں لڑنا فوادچوہدری پر ختم ہے ۔ انہوں نے ایک اور سچ بولا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ایسا لگتاہے جیسے انتخابی مہم صرف پی ٹی آئی چلارہی ہے‘‘ عمران خان نے اتوار کے روزبنوں میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نےمخالفین کو خوب للکارا۔ عمران خان نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیاکہ ’’25جولائی کو نیا پاکستان بنےگا یا پھر لٹیروں کا پاکستان رہ جائے گا‘‘ خان صاحب! حوصلہ رکھیں، یہ لوگ ردعمل دےرہے ہیں۔ یہ سب لوٹ مار کا حساب مانگ رہے ہیں۔ باقی کام پرچی کے وقت ہوجائے گا۔ پچھلے پینتیس چالیس سالوں میں جو لوٹ مار ہوئی اس نے ملک کی معیشت کابیڑہ غرق کر دیاہے۔ آج کی ساری مہنگائی اسی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔ اگر آج ڈالر ساٹھ روپے کاہوتا تو پٹرول کی قیمت پچاس روپے لٹر ہوتی مگر ڈار اور مفتاح نے ڈالر کو ایسے پر لگائے کہ 125پر بھی اسپیڈ نہیں رک رہی۔ ایک برطانوی اخبار نےشریف خاندان کی تھوڑی سی جائیدادوں کی جو جھلک دکھائی ہے۔ وہ اتناسرمایہ ہے کہ عام آدمی کے کیلکولیٹر جواب دےگئےہیں۔ چھوٹے لٹیروں کے بھی کئی نمونےہیں۔ ایک آدمی موٹرسائیکل پر تھا، آج اربوں کامالک ہے۔ اب حوصلہ رکھیں۔ اب پاکستان میں لٹیرے نہیں رہیں گے کیونکہ پہلی مرتبہ لٹیرںاور عوام کا ’’ٹاکرا‘‘ہو رہا ہے۔ ویسے معاشرے میں عمدہ لوگوں کی کمی نہیں، شاید اسی لئے احمدمشتاق نے کہا تھاکہ؎
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین