اسلام آباد(احمد نورانی) الیکشن کمیشن آف پاکستان تمام تر آئینی اختیارات ہونے کے باوجود پانچ بنیادی بے ضابطگیوں اور مشکوک واقعات کے حوالے سے ایک ایسے موقع پر غیر فعال نظر آتا ہے جب پاکستان کی تاریخ میں الیکشن کا عمل 25؍ جولائی کو ہونے والے کانٹے دار عام انتخابات کے حوالے سے اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کی نظر سے بچ جانے والی ان بے ضابطگیوں اور مشکوک واقعات میں سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنمائوں کی جانب سے عام انتخابات 2018ء کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، ریٹرننگ افسران، ٹریبونل اور سرکاری افسران کی امیدواروں کے ساتھ مل کر انتخابی مہم میں شرکت اور ان کا کردار، پنجاب کے مختلف علاقوں میں امیدواروں کو ہراساں کیا جانا اور انتخابی شیڈول میں تبدیلی شامل ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کےترجمان ندیم قاسم نے دی نیوز کے کئی سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہراساںکرنے ، دباؤ اور دھمکیوں سے متعلق شکایات کے حوالے سے متعلقہ سرکاری محکموں کو صرف لکھ سکتا ہےلیکن ایسی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے از خود کچھ نہیں کرسکتا ۔ ندیم قاسم نے کہا کہ ’اب تک موصول ہونےوالی شکایات تمام ایسے امیدواروں کو سیکورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے متعلقہ سرکاری محکموں کو خط لکھ چکے ہیں اور اب یہ متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے احکامات پر عمل کریں‘۔ اس حوالے سے دی نیوز نے وفاقی حکومت کے ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات علی ظفر سے رابطہ کیا اور ان سے وہی سوال پوچھے اور الیکشن کمیشن کے نکتہ نظر کے بارے میں پوچھا تو علی ظفر نے کہا کہ جہاں تک انہیں معلوم ہے الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو کوئی ایسا خط نہیں لکھا ، ہوسکتا ہے انہوں نے صوبے کے سرکاری محکموں اس بارے میں لکھا ہو ۔ علی ظفر نے مزید کہا کہ یہ اب نگراں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزاد اور شفاف انتخابات منعقد کروائے اور اگر امیدواروں کی جانب سے دھمکیوں اور ہراساں کرنے کی شکایات وفاقی حکومت کو موصول ہوئیں تو وفاقی حکومت ضرور کارروائی کرے گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’جب کبھی ہمیں ایسی شکایات موصول ہوں گی یا الیکشن کمیشن آف پاکستان ہمیں خط لکھے گا تو وفاقی حکومت خود کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کو بھی ہدایت دے گی کہ وہ بھی کارروائی کریں ‘ ۔ طاقتور رہنما سمجھے جانے والے سیاسی لیڈر کھلے عام انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کے قواعد کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیف نے بنوں میں الیکشن ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ’’ڈیزل‘‘ اور پارٹی کے سینئر رہنما اکرم درانی کو ’’فرعون‘‘ کہا۔ عمران خان نے الزام عائد کیا کہ فضل الرحمان نے خود کو ڈیزل کے پرمٹ کیلئے بیچ دیا ہے۔ عمران نے مزید کہا کہ فضل الرحمان کے نام کے ساتھ مولانا لگانا لفظ مولانا کی توہین ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن نے اس چلن ایسی گندی زبان اور الزامات کی اجازت دی تو آئندہ الیکشن ملکی تاریخ کے بدترین الیکشن ہوں گے۔ عمران خان کی گالیوں والی زبان اور مولانا فضل الرحمان پر ثبوتوں کے بغیر الزامات عائد کرنا انتخابی ضابطہ اخلاق کے پوائنٹ نمبر 46؍ اور 47؍ کی خلاف ورزی ہے۔ پوائنٹ نمبر 46؍ میں لکھا ہے کہ تنقید کو پارٹی پالیسی، پروگرامز، ماضی کے ریکارڈ اور کام تک محدود رکھا جائے گا۔ سیاسی جماعتیں اور امیدواروں کو نجی زندگی پر تنقید سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ یہ دوسری سیاسی جماعت کے کارکنوں یا رہنمائوں کی عوامی سرگرمیوں سے کسی بھی طرح جڑی ہوئی نہیں ہے۔ بے بنیاد الزامات اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ اسی طرح پوائنٹ نمبر 47؍ میں لکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں، الیکشن لڑنے والے امیدوار، الیکشن ایجنٹ اور ان کے حامیوں کو جان بوجھ کر غلط اور توہین آمیز معلومات پھیلانے سے گریز کرنا ہوگا اور وہ کسی بھی طرح سے دوسری سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو بدنام کرنے یا ان کیخلاف غلط اور جعلی معلومات پھیلانے سے گریز کریں گے۔ ضابطہ اخلاق کا پوائنٹ نمبر 61؍ کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل (3)218؍ الیکشن کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کرپشن، رشوت، بہروپ، غیر ضروری طور پر اثرانداز ہونا، پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ پر قبضہ، کاغذات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا جعلی معلومات یا اعلامیہ جاری کیے جانے اور الیکشن اخراجات میں حد سے زیادہ رقم خرچ کیے جانے کی روک تھام کرے۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی جس میں کرپشن ہونے پر الیکشن کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ انتخابی عمل شفاف رکھنے کیلئے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی چیئرمین کو طلب اور ان سے پوچھنا ہوگا کہ سینئر سیاست دان کیخلاف سخت الزامات عائد کرنے کے حوالے سے ان کے پاس کیا ثبوت ہیں۔ اگر وہ شواہد پیش کرنے میں ناکام ہو جائیں تو پوائنٹ نمبر 61؍ پر عمل کیا جائے۔ ایسے اقدامات اور کارروائیوں سے ہی کنفیوژن دور اور انتخابی عمل قابل بھروسہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جماعت کے رہنما اگر ایسی زبان استعمال کریں اور ایسے بے بنیاد الزا ما ت عائد کریں تو ان کیخلاف بھی یہی اقدامات کیے جائیں۔ تاہم جب دی نیوز نے ای سی پی ترجمان سے یہی سوال پوچھا تو ندیم قاسم کا کہنا تھا کہ ای سی پی نے ہر ضلع میں مانیٹرنگ افسر تعینات کیے ہیں ، جو کہ ہر طرح کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی مانیٹرنگ کریں گے اور اگر کسی متعلقہ ضلع کے مانیٹرنگ افسر نے اس حوالے سے ای سی پی کو آگاہ کیا تو ای سی پی ایسی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف سخت اقدامات کرے گا۔لیکن اگر مانیٹرنگ افسر اس طرح کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے حوالے سے ای سی پی کو تحریری طور پر آگاہ نہیں کرتا تو کوئی بھی شخص ای سی پی کے پاس ثبوت کے ساتھ شکایات جمع کرائے تو ای سی پی اس پر لازمی اقدامات کرے گا۔ اسکروٹنی کے عمل کے دوران، عمران خان، شاہد عباسی اور دیگر کے کاغذات نامزدگی پہلے تو بے بنیاد وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیے گئے جس کی وجہ سے غیر ضروری کنفیوژن پیدا ہوا اور پرسکون انداز سے آگے بڑھنے والا عمل اور ساتھ ہی مہم متاثر ہوئی۔ یہاں تک کہ الیکشن ٹریبونلز نے کسی ٹھوس بنیاد یا وجوہات کے بغیر ہی مشکوک فیصلے سنائے۔ آزاد ماہرین کے مطابق، ریٹرننگ افسران اور ٹریبونلز نے شفاف کردار ادا نہیں کیا۔ ریٹرننگ افسران غیر مجاز انداز سے اور غیر قانونی طریقے سے اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں جسے الیکشن کمیشن کو روکنا ہوگا۔ کچھ مخصوص امیدوار، جن کے پس منظر اور وابستگی سے سب ہی واقف ہیں، آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور ایک جیسا انتخابی نشان حاصل کر رہے ہیں اور ریٹرننگ افسران انہی مخصوص امیدواروں کو ایک جیسا نشان جاری کر رہے ہیں۔ کچھ کیسز میں، امیدوار خود یہ انتخابی نشان مانگ رہے ہیں جبکہ کچھ کیسز میں ریٹرننگ افسران انہیں خود ہی یہ نشان الاٹ کر رہے ہیں۔ ایسے رجحان سے الیکشن کی شفافیت مزید دھندلی ہو جائے گی۔ای سی پی ترجمان ندیم قاسم کا کہنا تھا کہ ای سی پی پہلے ہی متعلقہ حکام اور محکموںکو ان خلاف ورزیوں کے سدباب کے بارے میں لکھ چکا ہےاور ای سی پی ایسی شکایتوں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھے گا جو ثبوتوں کے ساتھ اس کے نوٹس میں لائی جائے گی۔ سرکاری ملازمین امیدواروں کے ساتھ مل کر ایسے موقع پر حلقوں کے دورے کر رہے ہیں جب الیکشن مہم باضابطہ طور پر شروع ہو چکی ہے۔یہاں تک کے ایک اہم آئینی ادارے کے سربراہ کو امیدوار کے ہمراہ سرکاری دفاتر کا دورہ کرتے دیکھا گیا ہے، وہ بھی اس موقع پر جب الیکشن مہم باقاعدہ شروع ہوچکی ہے۔ الیکشن کمیشن کو صبر و تحمل سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ دبائو کو مسترد کرتے ہوئے اختیارات استعمال کرکے غیر قانونی حرکات روکنا چاہئیں۔ آئین کے تحت ایسے سرکاری ملازمین کیخلاف کا ر روائی کی جائے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں امیدواروں کو ہراساں کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی امیدواروں پر مخصوص سیاسی جماعت سے ٹکٹ قبول نہ کرنے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، جن لوگوں نے ٹکٹ لیا ہے ان پر کچھ سیاسی قوتوں کی جانب سے ٹکٹ واپس کرکے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ دبائو اس قدر زیادہ ہے کہ خطرے کا سامنا کرنے والے امیدوار کسی عام آدمی کے سامنے اپنی حالت بیان نہیں کر پا رہے۔ الیکشن کمیشن اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے آزاد ماہرین پر مشتمل اعلیٰ سطح کا طاقتو ر کمیشن تشکیل دے اور معلوم کرائے کہ کیا واقعی ان امیدو ارو ں کو مخصوص سیاسی جماعت کو اس کے جاری کردہ ٹکٹ واپس کرنے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو ہراساں کیے جانے کے صرف دو واقعات کا نوٹس لیا ہے جبکہ ایسے سیکڑوں واقعات ہو چکے ہیں۔یہ عمل تاحال جاری ہے اور اگر اسے نہ روکا گیا تو اس سے 2018کے عام انتخابات کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔ ای سی پی کے ترجمان نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ای سی پی نے متعلقہ سرکاری محکموں کو پنجاب میں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو درپیش خطرات، حملوں اور ہراساں کیے جانے سے متعلق لکھا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ای سی پی صرف یہی کرسکتا ہے اور اب یہ متعلقہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے امیدواروں کو انصاف اور مکمل سیکوریٹی فراہم کرے۔وفاقی وزیر اطلاعات علی ظفر کا بھی کہنا تھا کہ اگر امیدوار یا سیاسی جماعت باضابطہ شکایت کرے گی تو فوری ایکشن لیا جائے گا۔غیر ضروری طور پر انتخابی شیڈول میں تبدیلی کے لیے کہا جارہا ہےاور امیدو ارو ں سے درخوا ست کی جارہی ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹس سے دستبردار ہوجائیں اور انتخابی نشان تبدیل کرلیں ، جس سے سیاسی جماعتوں کو بڑا نقصان ہوگا کیوں کہ ایسا بہت اہم وقت میں کیا جارہا ہے۔اس اقدام سے سیاسی جماعتیں دیگر موزوں امید وار و ں کو ان حلقوں میں لانے سے محروم ہوجائیں گی ۔اگر ای سی پی ایسا کرنے کی اجازت نہ دیتا تو امیدواروں کو انتخابات میں پارٹی کے نشان سے ہی حصہ لینا ہوتا ۔ایسی صورت میں اگر وہ منتخب ہوجاتا تو ایسے امیدوار کو ، اگر وہ وزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی امیدوار کی مخالفت کا انتخاب کرتےتو انہیں آئین کی پارٹی سے غداری کی شق کا سامنا کرناپڑتا۔ای سی پی ترجمان ندیم قاسم نے دی نیوز کو بتایا کہ انتخابی شیڈول میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی اور قانونی طور پر یہ ممکن تھا کہ پارٹی ٹکٹ میں تبدیلی کردی جائے۔