• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کے حتمی مرحلے میں مزید کشیدگی ہوسکتی ہے

امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہونےکےبعدجیسےجیسے الیکشن2018 کاحتمی مرحلہ قریب آرہاہے، سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)اور اس کےاتحادیوں کی جانب سے’پری پول انجینئرنگ‘ کےالزامات عائدکیےجارہے ہیں اوراس دوران سیاسی جماعتوں نےاپنی سیاسی مہم کاآغازکردیاہے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف اوراس کےچیئرمین عمران خان 25جولائی کو اپنی فتح کیلئےپُرامید ہیں۔ اگرتشدد کوختم نہ کیاگیاتوحتمی مرحلے کےپُرتشددآغازکےباعث مزیدتشدد ہوسکتاہے۔ اتوارکولیاری میں پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹوجوایک امیدوار بھی ہیں، کی ریلی کےدوران پُرتشدد واقع اورپنجاب میں کچھ واقعات نےسیکورٹی ایجنسیز کو الرٹ کردیاہے۔ جبکہ کچھ حلقوں میں عوام حقیقت میں سنجیدہ سوالات کےساتھ امیدواروں کااحتساب کررہے ہیں، کچھ رپورٹس ایسی بھی ہیں کہ اس رجحان کومخالف جماعتیں شہرت حاصل کرنےکیلئےاپنےحریفوں کےخلاف استعمال کررہی ہیں۔ دوسری جانب مہم پُرجوش ہونے کےساتھ ساتھ جارحانہ بھی ہوسکتی ہے،خاص طورپرپی ایم ایل(ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان۔ پی ایم ایل (ن) کےقائدمیاں نواز شریف اوران کی بیٹی مریم نوازکی رواں ہفتے واپسی کی خبروں نےپہلےسےپُرجوش مہم میں مزید جوش پیدا کردیاہے۔ عمران خان جوپہلے ہی ملک گیرریلیوں اور عوامی جلسوں کےشیڈول کااعلان کرچکےہیں، انھوں نےتین جماعتوں پی ایم ایل (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی(ف) کوٹارگٹ کرتے ہوئےجارحانہ مزاج کےساتھ مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ واپس نہیں آتے تویہ پی ایم ایل(ن) کیلئےالیکشن میں بڑا نقصان ہوگا۔ بند حلقوں میں شہباز شریف کا بیانیہ قابلِ قبول ہوسکتا تھا لیکن یہ نواز شریف کابیانیہ ہے جسے پی ایم ایل(ن) کارکنانا ور ووٹرزمیں زیادہ قابلِ قبول سمجھتی ہے۔ پی ایم ایل(ن) کے رہنماوں اور امیدواروں میں اچانک سے نفرت انحراف میں تیزی آگئی ہے، جوٹکٹ واپس کرر ہے ہیں اورپی ٹی آئی میں جانےکی بجائے بطور آزا دا مید وا رالیکشن لڑر ہے ہیں۔ اس اقدام سے پی ٹی آئی کو مدد ملے گی کیونکہ اس سےپی ٹی آئی کاووٹ بینک تقسیم ہوجا ئے گا۔ بظاہر یہ ایک نئے حربےہیں کیونکہ کسی دوسری پارٹی میں شامل نہ ہونےسے پی ایم ایل(ن) کا ووٹ بینک متاثرنہیں ہوگا۔ یہ اتفاق ہےیانہیں لیکن پی ایم ایل (ن ) سےانحراف کرنے والےکئی آزادا میدو ار و ں کوایک ہی انتخابی نشان ملا ہےیعنی جیپ، ایسا چوہدری نثارعلی خان کی جانب سےیہ نشان حاصل کرنے کے بعد ہوا۔ پی ایم ایل(ن) جسے ایک سال قبل 28جولائی 2017کونواز شریف کی نااہلیت کے بعدسےکئی مشکلات کاسامناہے، وہ اب کافی دبائو میں ہے اوراس کیلئے اپنےووٹ بینک اورامیدواران کوحاصل کرنا مشکل ہورہاہے۔ عمران خان کا مقابلہ کرنےکیلئےباپ اور بیٹی کا جارحانہ سیاست کرنےکا امکان ہے۔ لہذا کیاشہباز شریف محض ایک تماش بین ہوں گے یا پنجاب میں اپنی حکومت کی ڈویلپمنٹس کی بنیاد پر مہم جاری رکھیں گے۔ انھیں بھی کافی مشکل انکوائریز کاسامناہےاور نیب پہلے ہی انھیں 5جولائی کوکرپشن کیس میں طلب کرچکا ہے۔ اگرچہ شہباز شریف نےاپنی مہم کا آغازکراچی سےکیاہےاور کراچی میں دودن قیام کےدوارن وہ بہت مصروف رہےلیکن اتوار کو کسی بڑی ریلی سے خطاب نہیں کیا، جب اکثرسیاسی جماعتیں عوامی جلسوں سے خطاب کرتی ہیں۔ نواز اور مریم ایک ایسے وقت میں واپس آرہے ہیں جب ایک جانب بیگم کلثوم نواز ٹھیک نہیں اور لندن میں شدید بیمار ہیں اور دوسری جانب جولائی میں نیب کی جانب سے ممکنہ فیصلہ آسکتاہے۔ ایسی خبریں بھی ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ وطن واپس آتے ہی نیب کے فیصلےکےبعد ان کے نام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں ڈالےجائیں گے۔ الیکشن کمیشن نےبھی نواز شریف کی نااہلیت کےبعد پی ایم ایل(ن) کےسٹیٹس کو چیلنج کرتےہوئے انھیں9جولائی کو طلب کررکھاہے۔ درخواست گزارنےموقف اختیارکیاہےکہ نااہلیت کےبعدپارٹی بطورپی ایم ایل(نواز) رجسٹرنہیں ہوسکتی اور اب اسے نئی رجسٹریشن کی ضرورت ہے۔ ایک جانب پی ایم ایل(ن) پی ایم ایل(ن) کو نااہلیت،سزا، تحقیقات اورانحراف کاسامناہےاور دوسری جانب لیڈرشپ کےغلط طورطریقوں کےباعث سینئرپارٹی رہنماپارٹی چھوڑ رہے ہیں یا خود کو مرکزی سیاست سے الگ کررہے ہیں۔ چوہدری نثارعلی خان کا کیس اس کی بہترین مثال ہے اور جس طرح نثار کو برطرف کیاگیا شہبازشریف سےزیادہ کوئی بھی پریشان نظرنہیں آیا۔لیکن پی ایم ایل(ن) کیلئےمشکلات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ انھیں ایک اور دھچکہ اس وقت لگاہےجب نوازشریف کے قابلِ اعتماد ساتھی سردارمہتاب خان عباسی اور ان کے خاندان نے پارٹی ٹیکٹ واپس کردیئےالیکشن نہ لڑنےکافیصلہ کیا۔ خیبرپختون خوامیں ان کی پسپائی سے پارٹی کو کافی نقصان پہنچے گا۔ یہ بھی عجیب ہے کہ جس طرح پارٹی نے جاوید ہاشمی کوٹکٹ نہ دینے کافیصلہ کیاخاص طورپرایسےوقت میں جب جنوبی پنجاب میں پارٹی کو مشکلات کاسامناہے۔ نواز شریف کی نااہلیت کے بعد پی ایم ایل(ن)کیلئےحالات خراب ہوناشروع ہوگئے اور جو کچھ سینٹ انتخابات سےقبل اوراس کےدوران بلو چستا ن میں ہوااس سےبیرونی مداخلت اورسیاسی انجینئرنگ سے متعلق سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ ایسا جنوبی پنجاب میں ہونی والی پیشرفت کےبعد ہوا اور اچانک ایک گروپ ’صوبہ جنوبی پنجاب محاذ‘ منظرعام پر آگیا۔ اس محاذکےکچھ حصے اپنے ہی حلقے رکھتے ہیں اور ’الیکٹیبلز‘ کہلاتےہیں۔ پی ایم ایل(ن) کو اس وقت مزید نقصان ہوا جب پی ایم ایل (ن) کےمضبوط رہنماچوہدری عبدا لغفو راورپارٹی کے تر جما ن رہنےوالےزعیم قادری بھی چھوڑ گئے۔ لیکن کچھ واقعات اس وقت ہوئے جب الیکشن کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا، لیکن اندرونی اختلافات الیکشن کے پہلےمرحلےیعنی نامزدگیوں کےدوران ہی منظرعام پرآگئےتھے۔ پہلے مرحلے نے اند رونی لڑائیوں کوبے نقاب کردیا ایسا پی ٹی آئی اور پی پی پی جیسی مرکزی جماعتوں کے ساتھ بھی ہوا۔ جبکہ پی ٹی آئی کو پنجاب اور خیبرپختون خوا میں اس مشکل کاسامنا کرنا پڑا اور پی پی پی کو پنجاب اور سندھ میں کرناپڑا۔ ایم کیوایم (پاکستان) کوکراچی اور حیدرآباد، ایم ایم اے کوکےپی میں اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ ا۔ پی ٹی آئی میں دو واضح گروپ سامنے آئے ۔ ایک شاہ محمود قریشی اور دوسرا جہانگیر ترین کی زیرِ قیادت، یہ دونوں ہی عمران خان کے بعد پارٹی میں اہم عہدے رکھتے ہیں۔ اگر جہانگیرترین نااہل نہ ہوتے اور ان کے بیٹے پیچھے نہ ہٹتےتو وہ اہم مقام پر ہوتے۔ شاہ محمود قریشی بظاہر عمران خان کوقائل کرنےمیں کامیاب ہوگئے ہیں کہ چونکہ جہانگیر ترین دوڑ میں شامل نہیں ہیں اور مہم نہیں چلاسکتے تو ان کے ’آدمیوں‘ کو اوپرنہیں آنا چاہیے۔ کے پی میں بھی عمران خان کو اندرونی مشکلات کاسامناہےکیونکہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا مکمل کنٹرول ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ 90فیصد سیٹیں پرویز خٹک کی تجویز پر دی جائیں اور ان کےمخالف گروپ کےپاس اِسےقبول کرنےکے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جبکہ عمران خان کی قریبی ٹیم جہانگیر ترین، پرویز خٹک اورعلیم خان پر مشتمل ہے، شاہ محمود قریشی سندھ اور پنجاب میں اپنی گرفت مضبوط کرنےکی کوشش کررہےہیں۔ یہ پی پی پی کیلئے بھی آسان کام نہیں ہے۔ اگر یہ پنجاب میں 4یا 5سیٹیں اورسندھ میں 36سے38 تک سیٹیں نکالنےمیں کامیاب ہوگئے، جو اس وقت آسان نہیں ہوگا، تو زرداری صاحب ضرورت سے زیادہ خوش ہوں گے۔ پی ایم ایل(ن) اور پی ٹی آئی کی طرح بہت سے رہنمائوں نے پی پی پی چھوڑ دی ہے اور اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملالیا ہے یا پی پی پی مخالف کیمپس کی خاموش مدد کررہے ہیں۔ لہذا حتمی مرحلہ شہباز شریف اور پی ایم ایل(ن) کیلئےآسان نہیں ہوگا۔ جب نیب یقیناً کوئی فیصلہ کرنے کی جلدی میں ہے تو پی ایم ایل(ن) رہنمائوں کو بھی اپنی اندرونی مسائل حل کرنے میں ناکامی اور نواز شریف یا شہباز شریف کےایک بیانیےپرجمع نہ ہونے پرخو دکو مودرِ الزام ٹھراناچاہیے، اس سے پی ایم ایل(ن) کے حالا ت بدل سکتے ہیں۔ انتخابات تبدیلی لانے کا واحد جمہوری راستہ ہیں اور اُن قانون سازوں کو بے نقاب کرنے کاراستہ بھی ہیں جوگزشتہ پانچ سالوں میں اپنے وعدے پورے نہیں کرسکے۔ پہلی بار سیاسی جماعتیں اور ان کے نامز دامیدوار’ اپنے حلقوں میں مشکلات کاشکار ہیں ۔ اس طرح کے مزید واقعات ’حتمی مرحلے‘ میں بھی سامنے آسکتے ہیں لیکن اسے ذاتی مفادات کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

تازہ ترین