• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اوباما پھر جیت گئے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک دفعہ پھر ہار گئیں۔امریکہ کے صدارتی الیکشن میں باراک اوباما کی دوسری مرتبہ کامیابی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہار دو مختلف واقعات ہیں لیکن پاکستانیوں کی اکثریت ان دونوں واقعات کو ایک ہی تناظر میں دیکھ رہی ہے، جس دن امریکہ کے صدارتی الیکشن میں اوباما نے کامیابی حاصل کی اسی دن یہ خبر بھی آئی کہ نیویارک کی ایک اعلیٰ عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی 86سال قید سزا کے خلاف اپیل کو مسترد کردیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو2003ء میں پاکستان کے خفیہ اداروں نے کراچی سے اغواء کرکے امریکی اداروں کے حوالے کیا تھا۔ پانچ سال کی تفتیش کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر کوئی الزام ثابت نہ ہوا تو جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے آخری دنوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دوبارہ پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر اس لاپتہ خاتون کو رہا کیا جاتا تو وہ میڈیا کو بتادتیں کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا لہٰذا انہیں افغانستان بھجوا کر گرفتار کرادیا گیا۔ سلطان محمود غزنوی کے مزار کے قریب ان کی گرفتاری ڈالی گئی اور پھر الزام لگادیا گیا کہ انہوں نے ایک امریکی فوجی سے اس کی رائفل چھین کر اس پر فائر کردیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ ا س مزاحمت میں کوئی ا مریکی فوجی زخمی نہ ہوا بلکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو گولی لگ گئی، پھر زخمی خاتون کو افغانستان سے امریکہ بھجوایا گیا اور وہاں کی ایک عدلت نے امریکی فوجی پر گولی چلانے کے الزام میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو86سال قید کی سزا سنا ڈالی۔ یہ سب کچھ باراک اوباما کے دور میں ہوا۔ انسانی حقوق کے علمبردار باراک اوباما کے امریکہ میں آج تک اقدام قتل کے الزام میں کسی خاتون کو86سال قید کی سزا نہیں ملی لیکن امریکہ نے یہ اعزاز صرف ایک مسلمان پاکستانی خاتون کو دیا کہ اسے صرف گولی چلانے کے ا لزام میں ایسی سزادی گئی جو دہرے اور تہرے قتل کے ملزموں کو بھی نہیں ملتی۔ امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان کچھ عرصہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے قانونی جنگ لڑرہی تھیں لیکن افسوس کہ جس دن امریکہ میں صدارتی الیکشن تھا اس دن ڈاکٹر عافیہ کی سزا کے خلاف اپیل کو مسترد کردیا گیا۔
بدھ کی صبح کچھ امریکی ٹی وی چینلز اور ریڈیو چینلز نے باراک اوباما کی کامیابی پر میرا ردعمل پوچھا تو میں نے کہا کہ مجھے اوباما کی کامیابی پر خوشی نہیں ہوئی کیونکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپیل مسترد ہونے پر دکھی ہوں۔ ایک امریکی صحافی نے کہا کہ عافیہ کی تمام تکالیف کا ذمہ دار امریکہ تو نہیں کیا پاکستان کے وہ طاقتور لوگ بھی ذمہ دار نہیں جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے تین بچوں کی ماں کو اغواء کرکے ہمارے حوالے کردیا؟ یہ سن کر میں نے فون بند کردیا اور سوچنے لگا کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرنے والوں نے ذمہ داری قبول کرلی تھی اور ہم نے حملہ آوروں کی خوب مذمت کی لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغواء کرکے امریکہ کے حوالے کرنے والے تو آج تک خاموش ہیں؟ان خاموش محافظین وطن میں سے کچھ ریٹائر ہوگئے ،کچھ پاکستان سے بھاگ کر اپنے اصلی آقاؤں کی پناہ میں چلے گئے اور کچھ عدلیہ و میڈیا کو ڈرانے دھمکانے میں مصروف ہیں لیکن ان مجرموں کے نام کب سامنے آئیں گے؟ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ملالہ یوسفزئی پر گولی چلانے والوں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کرنے والوں میں کیا فرق ہے؟ کیا دونوں نے پاکستان کا قانون نہیں توڑا؟ آج کل پاکستانی ٹی وی چینلز پر یو ایس ایڈ کے اشتہارات چل رہے ہیں جن میں اس عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ امریکی اور پاکستانی عوام مل کر پاکستان میں ترقی کو فروغ دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ کی جیل میں قید رہیں گی پاکستان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکہ کی ساکھ کیسے بہتر ہوسکتی ہے۔اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ باراک اوباما دوبارہ الیکشن جیتنے کے بعد اپنی پرانی پالیسیوں کو ایک نئے جارحانہ انداز میں آگے بڑھائیں گے لیکن پاکستان کو ہر صورت میں اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔اوباما نے لیبیا اور شام میں کھلم کھلا مداخلت کی اور اب وہ ایران پر بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو کسی صورت میں ایران پر امریکی حملے کی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ حمایت نہیں کرنی چاہئے۔
اوباما کے دوسرے دور حکومت میں ڈرون حملوں کا دائرہ کار قبائلی علاقوں سے آگے کچھ شہری علاقوں تک پھیل سکتا ہے اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لئے دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کو امریکی دباؤ پر امریکی مفادات کے لئے اپنے کسی علاقے میں کوئی فوجی آپریشن نہیں کرنا چاہئے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی سرزمین کے ہر حصے پر اپنے قانون کی عملداری قائم کرنی چاہئے تاکہ فوجی آپریشن کا جواز ہی پیدا نہ ہو۔اوباما اپنے دوسرے دور حکومت میں اپنی کابینہ میں کچھ تبدیلیاں کرسکتے ہیں اور اگر انہوں نے وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو تبدیل کردیا تو پاکستان کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ ہیلری کو اوباما کے مقابلے پر پاکستان کے حالات سے زیادہ واقفیت حاصل ہے تاہم ایک اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی نے ہمیشہ پاکستان میں فوجی آمروں کی حمایت کی ہے اور ڈیموکرٹیک پارٹی نے فوجی آمروں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اوباما کے اگلے چار سال میں امریکہ کی طرف سے پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار کی حوصلہ افزائی کا کوئی امکان نہیں۔ اوباما کو چاہئے کہ وہ جارج ڈبلیو بش کی طرح پاکستان کو کسی این آر او کے ذریعہ چلانے کی بجائے 2013ء میں فیئر اینڈ فری انتخابات کا راستہ ہموار کریں۔امریکہ کو یہ غرض نہیں ہونی چاہئے کہ2013ء کے انتخابات میں کون جیتے گا؟ پاکستان کے عوام جس کو بھی مینڈیٹ دیں امریکہ کو مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہئے کیونکہ ایک فیئر اینڈ فری الیکشن ہی پاکستان کو صحیح راستے پر ڈال سکتا ہے۔
فیئر اینڈ فری الیکشن کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک ادارہ دوسرے ادارے کے ساتھ محاذ آرائی نہ کرے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ایک حالیہ بیان نے سپریم کورٹ اور عدلیہ میں محاذ آرائی کا تاثر پیدا کیا۔ فوجی ذرائع نے اس تاثر کو مسترد کیا اور کہا کہ آرمی چیف کا پیغام سپریم کورٹ کے لئے نہیں بلکہ میڈیا کے لئے تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا ایک سافٹ ٹارگٹ ہے۔ سپریم کورٹ کی نسبت میڈیا کو دبانا آسان ہے اسی لئے فوجی ذرائع نے یہ تسلیم کیا کہ آرمی چیف نے میڈیا کو پیغام دیا۔ دوسرے الفاظ میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مہذب انداز میں وہ کام کیا جو جنرل پرویز مشرف غیر مہذب انداز میں کیا کرتے تھے، تاہم جنرل کیانی کے بیان میں ایک خوش آئند نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے قانون اور آئین کے راستے پر چلنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس ایک نکتے کی وجہ سے میڈیا کو ان کے بیان کا مزید پوسٹ مارٹم نہیں کرنا چاہئے اور آنے والے وقت میں جب بھی کسی فوجی افسر کی طرف سے آئین و قانون کی خلاف ورزی کی جائے تو جنرل کیانی کو ان کا یہ بیان یاد دلانا چاہئے۔ اس وقت پاکستان واقعی ایک فیصلہ کن دور سے گزررہاہے عدلیہ ، میڈیا، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور فوج کو مل کر پاکستان میں فیئر اینڈ فری الیکشن کو ممکن بنانا چاہئے تاکہ پاکستان میں ایک صرف ستھری جمہوریت فروغ پاسکے جس میں ملالہ یوسفزئی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت ہر پاکستانی محفوظ ہو، ہمیں ایک ایسا پاکستان چاہئے جس میں ملالہ پر حملہ کرنے والوں کا بھی احتساب ہو اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغواء کرکے اوباما کے دیس بھیجنے والوں کے مکروہ چہرے بھی بے نقاب کئے جائیں۔
تازہ ترین