• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رحمٰن نشاط

سوال دلچسپ اور قابلِ غور ہے کہ تخلیق کو کیا چیز بڑا بناتی ہے، موضوع یا اسلوب؟ سوال کا جواب دینے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ تخلیق میں، موضوع کیا اہمیت رکھتا ہے۔ تخلیق شعری ہو یا نثری، تخلیق کار کو موضوعات اپنے اردگرد کی دنیا سے ملتے ہیں۔ اردگرد بسنے والے انسان، ان کی کیفیات، حالات، جذبات و احساسات اور اردگرد رونما ہونے والے واقعات، کسی بھی تخلیق کا موضوع ہوتے ہیں۔ یہاں ایک اور سوال ابھرتا ہے کہ کیا کوئی ایسا انسانی جذبہ، کیفیت یا احساس اور انسانی زندگی سے متعلق کوئی ایسا واقعہ ہے، جو ابھی تک کسی تخلیق کا موضوع نہ بنا ہو۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا جواب نفی میں ہو گا۔

ادب، جب سے تخلیق کیا جا رہا ہے، یہ تمام موضوعات، شعر، افسانے اور ناول میں بیان کئے جاتے رہے ہیں، بلکہ دہرائے جاتے رہے ہیں تو پھر وہ کیا چیز ہے، جو تخلیق میں اچھوتا پن پیدا کرتی اور اسے قابلِ توجہ بناتی ہے۔

شاید ہم یہ کہیں کہ موضوع کو برتنے اور بات کہنے کا انداز تخلیق کو اچھوتا بناتے ہیں، اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ شاید تخلیق کار اپنی تخلیق کو قابلِ توجہ بنانے کے لئے، ا پنی بات کہنے کے انداز کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتا ہے۔ گویا اسلوب کے لئے کوئی فارمولا، کوئی فارمیٹ یا کوئی پلاننگ وضع کرتا ہے اور پہلے سے طے کر لیتا ہے کہ وہ کس موضوع کو شعر میں بیان کرے گا یا نثر میں۔ اگر شعر میں بیان کرے گا تو غزل میں، نظم میں یا رباعی میں اور اگر نثر میں بیان کرے گا تو افسانے، ڈرامے یا ناول میں۔ اگر افسانے میں تو کیا علامتی، وضاحتی یا شعور کی روکے افسانے میں۔

ایسا نہیں ہے… سچا تخلیق کار، اس قسم کی منصوبہ بندی نہیں کرتا، بلکہ سچ بات تو یہ کہ تخلیق، کسی منصوبہ بندی یا فارمولے کی پابند ہو ہی نہیں سکتی۔ زبان و بیان اور اسلوب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن اسلوب کی حیثیت ثانوی ہے، تخلیق کا موضوع ہی اسلوب کا تعین کرتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ تخلیق کار، صنف یا اسلوب کا تعین پہلے کر لے اور پھر موضوع تلاش کرے۔ دراصل اسلوب، موضوع کے تابع ہوتا ہے، نہ کہ موضوع اسلوب کے تابع۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلوب کسی فارمولے یا منصوبہ بندی کے تحت نہیں اختیار کیا جاتا تو گویا ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی موضوع کو بیان کرنے کے لئے اسلوب اور زبان و بیان فطری، بے ساختہ اور موضوع سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

موضوع بہت اچھوتا اور بڑا ہو، لیکن اس کو بیان کرنے کا اسلوب کمزور ہو تو تخلیق اپنا جواز کھو دے گی۔ اسی طرح کوئی پیش پا افتادہ موضوع، کسی گمبھیر اسلوب کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اوّل الذکر ریوالور سے ہاتھی کا شکار کرنے اور موخرالذکر توپ سے کاکروچ مارنے والی بات ہو گی، اسے ہم موضوع اور اسلوب کا غیر فطری اور غیر ہم آہنگ ملاپ یا عدم توازن بھی کہہ سکتے ہیں۔ موضوع اگر بڑا ہو گا تو زبان و بیان اور اسلوب بھی فطرتاً بڑا ہو گا۔ اگر موضوع ہی چھوٹا ہو گا تو اسے بیان کرنے کا اسلوب بھی کمزور ہو گا۔

اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ دراصل ’’کیا کہا گیا ہے اور کیسے کہا گیا ہے‘‘ کی بحث ہے۔ کیا اور کیسے یعنی موضوع اور اسلوب دونوں کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن ایک تو یہ کہ اسلوب کی حیثیت ثانوی، دوسرے یہ کہ نہ تو محض موضوع کی آفاقیت تخلیق کو بڑا بناتی ہے اور نہ محض اسلوب کی گمبھیرتا تخلیق کا جواز فراہم کرتی ہے۔

ادب میں وہی تخلیق باقی اور وہی تخلیق کار زندہ رہتا ہے، جس کا موضوع آفاقی، اندازِ فکر منفرد اور اسلوب اچھوتا ہو۔

تازہ ترین