• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ گفتگو جس میں محض جذبات چھلکتے ہوں بالآخر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور جذباتی فیصلے قوموں کے زوال اور تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ ہم نے 1971ء کے آخری مہینوں میں کرش انڈیا کا غلغلہ اُمنڈتے اور اِس کے ہولناک نتائج برآمد ہوتے دیکھے۔ دشمن بڑی عیاری اور منصوبہ بندی سے عوام کے اندر ایک غیر فطری ہیجان پیدا کر کے اُنہیں ایک ایسے راستے پر ڈال دیتا ہے جو افراتفری کی طرف لے جاتا اور ہوش و حواس ماوٴف کر دیتا ہے۔ آج کل بعض ٹی وی چینلز پر اور اخبارات میں اپنی فوج کا پوسٹ مارٹم اِس بے رحمی سے کیا جا رہا ہے جیسے وہ دشمن کی فوج ہو اور اُس کی قوت پر کاری ضرب لگانا حب الوطنی کا سب سے اہم تقاضا بن چکا ہو۔ جب عقل پر پردے پڑنے لگیں اور اپنی ہی دفاعی قوت پر سنگ باری جرأتِ اظہار اور مردانگی کا اعلیٰ ترین درجہ قرار پا جائے تو حالت ِ جنگ میں سانس لیتی قوم ایک ناگہانی صورتِ حال سے دوچار ہو سکتی ہے۔ عدالت ِ عظمیٰ نے ائیر مارشل اصغر خاں کیس میں فیصلہ کیا دیا کہ چند قصاب چاقو چھریاں لے کر وطن کے پاسبانوں پر ٹوٹ پڑے اور کمین گاہوں میں بیٹھے دانشور تیر اندازی فرما رہے ہیں۔
عدالت ِ عظمیٰ نے دو ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسروں کے نامہٴ اعمال پر گرفت کرتے ہوئے اُن کے خلاف حکومت کو قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ٹرائل کے دوران ملزمان کو اپنے دفاع کا پورا موقع ملے گا اور وہ یہ واضح کر سکیں گے کہ اُنہوں نے کن قومی مصالح کے تحت وہ اقدامات کئے جو اَب خلافِ آئین قرار پائے ہیں۔ عدالت ِ عظمیٰ نے حقائق اور محرکات کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنانے سے دانستہ گریز کیا جو لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور بریگیڈئیر (ر) حامد سعید کے بیانات میں شامل تھے۔ دونوں ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسروں نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ وہ تحقیقات کا سامنا کرتے ہوئے قوم کو تمام حقائق سے آگاہ کریں گے  البتہ اُن کا ٹی وی کے سامنے حاکمانہ طرزِ عمل ناپسندیدہ تھا مگر اِس طرح اُنہوں نے قانون کی حکمرانی کے سامنے سرِ تسلیم خم کر کے ایک صحت مند روایت کی بنیاد رکھ دی ہے۔
ایک ایسے وقت جب فوجی قیادت ماضی کی غلطیوں کی تلافی اور اصلاح کے لیے بڑی سنجیدگی سے کوشاں ہے اِس کی سفاکانہ کردار کشی کے پیچھے یقینا کچھ گمراہ کن عناصر سرگرم ہیں۔بلاشبہ فوج کی سیاست میں بار بار کی مداخلت نے سول ادارے بہت کمزور کر دیئے اور جمہوری نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے مگر موجودہ عسکری قیادت پر تیر اندازی کا اب کیا جواز ہے جو پورے شعور کے ساتھ سیاسی آلائشوں سے کنارہ کش دکھائی دیتی ہے اور دنیا کی بہترین فوج کے افسر اور جوان پاکستان کو دہشت گردی کی عفریت سے محفوظ رکھنے کیلئے بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں۔اس عدیم المثال بلند ہمتی اور ایثار کیشی کے باوجود ایک مخصوص گروہ ہماری قابلِ فخر فوج پر کنکریاں پھینکنے میں لذت محسوس کر رہا ہے۔ کڑا احتساب ہر ادارے کا ہونا چاہیے کہ اِس کی بدولت قوم کو توانائی حاصل ہوتی ہے مگر احتساب کے پردے میں پورے ادارے کو ہدفِ ملامت بنائے رکھنا قومی طاقت کے بنیادی مراکز کو ضعف پہنچانے کے مترادف ہو گا۔
ہمیں قومی سطح پر نہایت گہرائی سے اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ بعض ٹی وی چینلز پر فوج کے خلاف اِس وقت ایک طوفان کیوں اُٹھایا جا رہا ہے جب ملک عام انتخابات کی دہلیز پر کھڑا ہے اور پاکستان کے نہایت حساس علاقوں میں بدامنی کا راج ہے۔ کیا اِس مہم کی پشت پر ملک دشمن طاقتیں کام کر رہی ہیں یا وہ کوتاہ نظر عناصر سرگرم ہیں جو اپنی ”جواں مردی“ کا سکہ جمانے کے لیے فوج کو تختہٴ مشق بناتے ہیں یا وہ حکمران ہیں جو گزشتہ چار پانچ برسوں میں مال بنانے اور عوام کا خون چوس لینے میں مصروف رہے اور اب کوئی ڈرامہ رچا کر عوام کے عتاب سے بچ جانا چاہتے ہیں؟ کیا اِس بحرانی کیفیت کے ذمے دار اعلیٰ عدالتوں کے وہ فیصلے ہیں جو فوجی جرنیلوں ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں آئے ہیں جن میں اُنہیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے اور احتساب کے کٹہرے میں لانے کے احکام جاری کئے گئے ہیں؟ کیا صورتحال کے بگاڑ میں ہمارے میڈیا کے غیر ذمے دار افراد بھی شامل ہیں جو بات کا بتنگڑ بنانے بے پرکی اُڑانے اور غیر ارادی طور پر فوج کو تقسیم کرنے اور حالت ِ جنگ میں فوجی کمانڈ کے احکام سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں؟ غالباً انہی مختلف عوامل نے آرمی چیف کو اعلیٰ فوجی افسروں سے خطاب میں بعض تلخ حقائق بیان کرنے اور قوم کو ایک بہتر مستقبل کی نوید سنانے کا داعیہ پیدا کیا ہے۔5نومبر کی سہ پہر پاکستان کے فاضل چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جو آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے مطابق معاشرے کی تشکیل دیکھنا چاہتے ہیں اُنہوں نے نیشنل مینجمنٹ کورس کے سویلین افسروں سے خطاب کیا اور اُسکے ڈیڑھ دو گھنٹے بعد آرمی چیف جی ایچ کیو میں اعلیٰ فوجی افسروں سے مخاطب ہوئے جو نہایت خاموشی عقل مندی اور پامردی سے جمہوری نظام کی حمایت کر رہے ہیں۔ اِن دونوں اعلیٰ شخصیتوں نے قومی تعمیر و ترقی کے یکساں اصول اپنی اپنی زبان میں بیان کئے ، مگر الیکٹرانک میڈیا نے اُنکے اعلیٰ خیالات کی ایک ایسے انداز میں کوریج کی کہ اُنہیں ایک دوسرے کے مد ِ مقابل لا کھڑا کیا۔ خوش قسمتی سے الیکٹرانک میڈیا میں ایسے اعلیٰ دماغ اینکرز بھی موجود ہیں جنہوں نے صحیح تناظر میں بات کی ہے اور کسی قدر توازن رکھنے میں ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بیان ایک انقلابی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُنہوں نے برملا اعتراف کیا ہے کہ ہم سب سے ماضی میں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور اُن کی اصلاح کے لیے تمام ادارے بڑی گرم جوشی سے فعال نظر آتے ہیں مگر اُنہیں جلد بازی سے کام لینے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ اُن کے اقدامات اور فیصلوں سے واقعی قانون کی حکمرانی قائم ہو رہی ہے اور ادارے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں یا اُن سے انتشار پھیل رہا ہے۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ فوج قانون کے دائرے میں رہنے کا عزم رکھتی ہے اور دوسرے ادارے بھی اسی اصول پر کام کرتے دکھائی دیں۔ اُن کا یہ کہنا بالکل درست اور مبنی بر انصاف ہے کہ فوجی ہو یا سویلین اُسے جرم ثابت ہونے سے پہلے مجرم قرار نہ دیا جائے۔ اُن کی یہ بات بھی حکمت پر مبنی تھی کہ افراد کی غلطیاں ادارے کے خلاف الزام تراشیوں کے لیے استعمال نہ کی جائیں اور ہائی کمان اور سپاہ کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی مذموم کوشش اِس لیے برداشت نہیں کی جاسکتی کہ وہ ملکی دفاع کا پورا نظام تلپٹ کر ڈالے گی۔ اُنہوں نے پورے یقین سے کہا کہ فوج کی طاقت کا حقیقی منبع عوام ہیں جن کے بغیر قومی سلامتی کا ہر نظام بے معنی ہو گا۔ اُن کے یہ الفاظ بھی بہت فکر انگیز ہیں کہ قومی مفاد کا تعین اتفاقِ رائے ہی سے کیا جا سکتا ہے اور کسی ادارے کو بھی اس پر اجارہ داری حاصل نہیں۔ اُنہوں نے یہ مژدہ بھی سنایا کہ ہم ایک ”نئے پاکستان“ کی تعمیر کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں اور قوم کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے کہ یہ اُنہی کی فوج ہے جو دشمن کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی حیثیت رکھتی ہے۔
تازہ ترین