• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل کالم لکھنے کے لئے گونا گوں موضوعات ذہن میں آتے ہیں لیکن پھر ان میں مضمر خطرات بھانپتے ہوئے کشور کمار کا ایک بہت ہی پرانا گانا ذہن میں گونجنے لگتا ہے:
ہواؤں پہ لکھ دو ہواؤں کے نام
ہم انجان پردیسیوں کا سلام
ویسے آج کل سوشل میڈیا میں جس شعر کی بہت زیادہ تکرار ہو رہی ہے وہ ہے:’’ چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی نہیں۔‘‘
یہ شعر کسی حد تک درست ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ چراغ کے جلنے کے لئے بھی تھوڑی بہت ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہوا کی مقدار کتنی ہے اور اس کی سمت کیا ہے۔ ہوا تو ہمارے ہر طرٖف ہر وقت موجود ہوتی ہے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہوا بگولوں اور آندھیوں کی صورت اختیار کر جاتی ہے:جب ہوا طوفانوں کا روپ دھارتی ہے تو بہت بڑے بڑے پرانے پیڑ اور برج بھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں پاتے۔ یوں تو موسمیات کی سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ آنے والے کئی دنوں اور ہفتوں کا موسم بتا دیا جاتا ہے، یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ کس دن ہوا کی کیا رفتار ہوگی اور اگر طوفان آئیں گے تو اس کے کیا اسباب ہوں گے۔ معیشت اور سیاست کی بھی ایک ہوا ہوتی ہے اور عمرانی علوم کے ماہرین کی جستجو ہوتی ہے کہ وہ محکمہ موسمیات کی طرح آنے والے دنوں کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں۔ لیکن عام طور پر سماجی علوم کے ماہرین اپنے موضوعی تعصبات کی وجہ سے آنے والے وقتوں کے بارے میں بتانے سے قاصر رہتے ہیں۔
جب ساٹھ کی دہائی میں جنرل ایوب خان حکومت کر رہے تھے تو صاحبان اقتدار یہ سمجھتے تھے کہ ان کو چلنے والی سیاسی ہوا کے بارے میں پورا علم ہے۔ چنانچہ جب 1970کا الیکشن آیا تو یہ باور کر لیا گیا کہ مغربی پاکستان میں کونسل مسلم لیگ سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھرے گی کیونکہ اسی کے پاس سب سے زیادہ الیکٹ ایبلز ہیں۔ اسی طرح کی جمع تفریق میں دوسری پارٹیوں کی حیثیت کو بھی جانچا گیا۔لیکن یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عام چلنے والی ہواؤںکے پیچھے طوفان جنم لے رہے ہیں جو پوری سیاست کا نقشہ پلٹ کر رکھ دیں گے۔ مشرقی پاکستان میں بھی جس طرح سے ہواؤں کا اندازہ کیا گیا وہ سب غیر حقیقی ثابت ہوا اور شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے سب کا صفایا کر دیا۔ حکمران طبقے کے لئے وہ الیکشن ایک ڈرائونا خواب بنے رہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس سیاسی طوفان کو روکنے کے لئے مختلف تراکیب استعمال کی گئیں اور آخر کار الیکٹ ایبلز کی ایک نئی کھیپ پیدا ہو گئی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے 2018 کے انتخابی نتائج کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس مرتبہ پھر الیکٹ ایبلز کی بنا پر ہواؤں کے بارے میں غلط اندازے لگائے جا رہے ہیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ 1970کے الیکشن کے دن تک کسی کو یقین نہیں تھا کہ ہم ایک طوفان سے گزر رہے ہیں۔ میرے جیسے بہت سے لوگ جو اس الیکشن میں بھرپور حصہ لے رہے تھے یہ بتانے سے قاصر تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔ گاؤں کی سطح پر ہر چھوٹا موٹا چوہدری الیکٹ ایبلز کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے تھا۔ لیکن نچلے طبقے کے لوگ اور خواتین ہمیں چپکے چپکے بتا رہے تھے کہ ہم ووٹ تلوار کو ہی دیں گے۔ چنانچہ جب شام کو نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ خاموشی اختیار کئے ہوئے نچلے طبقوں اور خواتین نے چوہدریوں کی پوری کلاس کو شکست دے دی ہے۔اس الیکشن کی مہم میں ہوا بدلی ہوئی تو لگ رہی تھی لیکن اس کی تندی کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ بد قسمتی سے کئی دہائیوں بعد تک بھی 1970 کے سیاسی طوفان کا کوئی سائنسی تجزیہ نہیں کیا گیااور آج کے میڈیا پر تجزیے کرنے والوں کو نہ تو حسیاتی سطح پر اس تاریخ ساز واقعے کا تجربہ ہے اور نہ ہی علمی سطح پر کوئی واقفیت ہے۔ غور کریں تو یہ الیکشن برصغیر کی تاریخ میں اس لحاظ سے بے مثال تھا کہ اس نے ذات، برادری، فرقہ واریت اور مذہبی تفریق کے بتوں کو پاش پاش کردیا تھا۔ اس سیاسی طوفان کو آسمانی رحمت یا آفت کے طور پر لیا گیا اور اس کا سارا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت کو دے دیا گیا: اس کے پس منظر میں چھپے معاشی اور سماجی عوامل کو در خور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اس بنیادی سیاسی تبدیلی کا مرکز وسطی پنجاب تھا اور دیکھنے کی ضرورت تھی کہ اس علاقے میں ایسا کیا ہوا جس نے اس نوع کا سیاسی طوفان پیدا کیا۔
بہر حال اس کے باوجود کہ اگلی کئی دہائیاں اس سیاسی طوفان میں تباہ کئے ہوئے بتوں کو سیاسی مندروں میں بحال کرنے کی کوشش ہوتی رہی لیکن اس حقیقت کی نفی نہیں ہو سکی کہ پنجاب میں سیاسی ہواؤں کی رفتار ایک جیسی ہوتی ہے: پہلے تو ساہیوال سے لے کر راولپنڈی تک ایک ہی پارٹی جیتتی تھی لیکن 2013کے الیکشنوں سے تقریباً پورے پنجاب میں سیاسی ہواؤں کی ایک جیسی رفتار کے مظاہر سامنے آگئے۔ اسی بنا پر راقم نے 2013 کے الیکشنوں کے بارے میں لکھا تھا کہ جنوبی پنجاب میں الیکشن کے نتائج مرکزی پنجاب سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔ اور شاید اب بھی ایسا ہی ہونے کی توقع ہے۔
ضیاءالحق نے 1985کے الیکشنوں میں الیکٹ ایبلز کی ایک نئی کھیپ پیدا کی جو بعد میں مسلم لیگ (ن) کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود الیکٹ ایبلز کی یہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو شکست دینے میں ناکام رہی لیکن پاکستان کی بدلتی ہوئی معاشی بنیادوں کی وجہ سے اس نئی سیاسی پارٹی نے پنجاب میں اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دئیے۔ بری گورننس اور بدعنوانیوں نے پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کا صفایا کردیا اور مسلم لیگ (ن) نے اس کی جگہ لے لی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ الیکشنوں سے الیکٹ ایبلز کی سیاست نے وہی صورت اختیار کر لی ہے جو 1970کے انتخابات سے پہلے موجود تھی۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی ایک پوری نسل ہے جس نے صرف الیکٹ ایبلز کی سیاست ہی دیکھی ہے:انہیں 1970جیسے سیاسی طوفان کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا 2018 کے انتخابات میں ایک دفع پھر سے الیکٹ ایبلز کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے؟ فضا میں غیر معمولی ارتعاش ہے لیکن یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پنجاب میں جو پارٹی بھی جیتے گی وہ باقیوں کا صفایا کرتے ہوئے پورے صوبے میں جیتے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین