• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سہیل وڑائچ سے میری پہلی ملاقات 1993میں ہوئی، میں اُس وقت ’’دی نیشن‘‘ میں سب سے جونیئر رپورٹر تھا اور تازہ تازہ کرائم کی beatسے میری جان چھوٹی تھی۔ الیکشن کی گہما گہمی عروج پر تھی، روز کہیں جلسہ اور کہیں کارنر میٹنگ، کہیں پریس کانفرنس اور کہیں ریلی ہوتی، رپوٹرز کی قلت کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ مجھ ایسے نومولود کی ڈیوٹی بھی اچھے خاصے اہم رہنماؤں کی ملاقاتیں کور کرنے کے لئے لگا دی جاتی۔ انہی دنوں دو حضرات نے ہمارا اخبار جوائن کیا، ایک کا نام عامر میر تھا اور دوسرے کا سہیل وڑائچ۔ یہ دونوں حضرات اُس دور میں بھی سکہ بند صحافی تھے جب ایسے لوگوں نے ابھی صحافت میں قدم بھی نہیں رکھا تھا جنہیں ہم آج ٹی وی پر بطور اینکر دیکھتے ہیں۔ اِن کی آمد سے رپورٹنگ سیکشن میں گویا جان پڑ گئی، سہیل وڑائچ پنجاب کی سیاست کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے، جب بھی اُن سے کسی حلقے (خصوصاً پنجاب) کے بارے میں پوچھا جاتا وہ نہایت اطمینان سے بتاتے کہ پچھلے الیکشن میں وہاں سے کون منتخب ہوا تھا، سبقت کتنی تھی، کسے ہرایا تھا، اس مرتبہ وہ کس جماعت کا امیدوار ہے، کیا امیدواروں نے جماعت تبدیل کر لی یا وہی ہے، اب اس حلقے میں کس کا دھڑا زیادہ مضبوط ہے، کس امیدوار کو کس جماعت کی حمایت حاصل ہے، ممکنہ نتیجہ کیا ہو سکتا ہے! گویا حلقے کا کلیجہ نکال کر رکھ دیتے۔ میں تو خیر کسی شمار میں ہی نہیں تھا اچھے خاصے سینئر رپورٹر بھی اپنے تجزیئے میں بیان کردہ حقائق احتیاطاً سہیل وڑائچ سے درست کروا لیا کرتے تھے۔ وہ ایک عجیب ہی دور تھا، میں نے تازہ تازہ بی اے کیا تھا اور اس کے بعد سی ایس ایس کرنے کا ارادہ تھا، ایسے میں سہیل وڑائچ جیسے دیوقامت صحافی کولیگ بن گئے، وہ مزے مزے کے قصے سناتے اور سیاستدانوں سے اپنی بے تکلفی کے واقعات بیان کرتے، یوں انگریزی اخبار کی رپورٹنگ نے عجیب سی لت ڈال دی۔ اوپر سے انتخابات کا زمانہ تھا جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ کسی اخبار میں کام کرکے الیکشن کور کرنے کا تجربہ زندگی کے پانچ برس کے تجربے کے برابر ہوتا ہے جبکہ میرے کیس میں یہ تجربہ دگنا ہو گیا کیونکہ میرے اساتذہ میں سہیل وڑائچ شامل تھے۔
سچ پوچھیں تو میں سہیل وڑائچ سے حسد کرتا ہوں۔ وجہ بڑی سادہ ہے کہ ہم ہر اُس شخص سے حسد کرتے ہیں جو کسی بھی شعبے میں ہم سے آگے ہو۔ موصوف کی نئی کتاب ’’دی پارٹی از اوور‘‘ ہی لے لیں، یہ کتاب اُن کے گزشتہ ایک برس میں شائع ہونے والے کالموں کا مجموعہ ہے اور ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انتخابات میں تین ہفتے رہ گئے ہیں، اس سے زیادہ آئیڈیل بات کیا ہو سکتی ہے۔ ادھر اپنا حال یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے سوچ رہا ہوں کہ اپنے کالموں کا انتخاب کرکے چوتھی کتاب شائع کروا لوں مگر کاہلی کا عالمی انعام جیتنے کے بعد طبیعت ادھرنہیں آتی۔ سو ایسے میں سہیل وڑائچ سے حسد نہ کروں تو کیا کروں! یوں تو ’’پارٹی از اوور‘‘ کے تمام کالم میں نے پہلے ہی پڑھ رکھے تھے مگر گزشتہ روز کتاب ملنے کے بعد دوبارہ ان کا مطالعہ کیا تو حیرت میں ڈوب گیا، کئی کالموں میں اِن کی بیان کردہ پیشین گوئیاں اور تجزیئے بالکل درست ثابت ہوئے اور اِس کی وجہ اُن کی تحقیق کی عادت ہے۔ (آج کل آئندہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے اُن کی پیشین گوئیاں/تجزئیے کالموں میں شائع ہو رہے ہیں جن سے میں مودبانہ اختلاف کی جسارت کرتا رہتا ہوں کیونکہ اس بارے میں خاکسار کی رائے اُن سے مختلف ہے)۔ آپ شاید پاکستان کے اُن چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جو ریسرچ کے بین الاقوامی معیار کے مطابق کام کرتے ہیں، سہیل وڑائچ کی کتاب ’’قاتل کون‘‘ اس کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ اپنے تجزیئے میں سب سے پہلے وہ اپنی تحقیق اور مطالعے سے حاصل کردہ حقائق بیان کرتے ہیں، تعصب کی عینک اتار کر سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور صرف حقائق کو پرکھتے ہیں، حقائق درست کرنے کے بعد وہ تاریخ کے حوالے دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ باقی دنیا میں جب اس قسم کے مسائل ہوئے تو انہوں نے اِن کا حل کیسے نکالا، اس کے بعد وہ اپنا تجزیہ اور رائے بیان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سہیل وڑائچ کے تجزیئے ایسے جاندار ہوتے ہیں کہ ان سے اختلاف کرنے کے لئے آپ کو ویسا ہی مطالعہ اور تحقیق کرنی پڑتی ہے، ہم میں چونکہ یہ دونوں صلاحیتیں نہیں اس لئے سہیل وڑائچ سے حسدکرنے میں ہی عافیت ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت آپ کو احساس ہوتا ہے کہ سہیل وڑائچ کی صرف پاکستانی سیاست پر ہی گرفت نہیں بلکہ وہ تاریخ اور ادب کے بھی استاد ہیں۔ اپنے کالموں میں وہ قاری کے سر پر اپنی دوٹوک رائے کا ڈنڈا رسید نہیں کرتے بلکہ پہلے اس کے لئے تاریخ سے کوئی مثال ڈھونڈتے ہیں، کبھی پنجاب کی لوک داستانوں سے ہیرو اور ولن کے کردار مستعار لیتے ہیں، کبھی نیلسن منڈیلا کی کہانی سناتے ہیں، وہاں سے واپس آتے ہیں تو بلھے شاہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ استعارے کا کام لیتے ہیں، کہیں دارا شکوہ اور عالمگیر کے تاریخی حوالوں کا آج کی طاقت کی کشمکش سے موازنہ کرتے ہیں اورپھر کسی کالم میں جولیس سیزر کی ٹریجڈی کو بیان کرکے اسے پاکستانی سیاست سے جوڑ دیتے ہیں۔ دوسرا اسلوب جو سہیل وڑائچ نے اِن کالموں میں اپنایا وہ غیر مستقیم (indirect) بیان ہے، یہ ایک نئی چیز ہے، سیاست کے کرداروں کے براہ راست نام لینے کی بجائے سہیل وڑائچ نے انہیں دلچسپ القاب دے دیئے جیسے عسکری خان، سیاست خان اور پھر ان کی زبانی وہ تمام باتیں کہہ دی ہیں جو شاید براہ راست انداز بیان میں ممکن نہیں تھیں۔ تیسرا اسلوب گو کہ نیا نہیں مگر سہیل وڑائچ نے اسے نیا رنگ ضرور دیا ہے، انہوں نے کئی کالموں کو مشاہیر کے خطوط کے انداز میں لکھا ہے جیسے کہ جسٹس مارشل کا خط، حبیب جالب کا خط، بابائے جمہوریت کا خط۔
یہ خطوط بھی ان کے اعلیٰ کرافٹ کا نمونہ ہیں، اس میں وہ اپنے پسندیدہ موضوع تاریخ کا حوالہ قدرے آسانی سے دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور شاید یہ اسلوب اپنانے کی وجہ بھی یہی ہے۔ میری رائے میں اگر یہ کتاب صحافت، سیاسیات اور تاریخ کے نصاب میں شامل کر دی جائے تو ان 358صفحات سے پاکستانی نوجوان اتنا کچھ جان سکیں گے جتنا شاید وہ کسی یونیورسٹی میں دو برس لگا کر بھی نہ سیکھ سکیں۔ بلاشبہ کتاب کا سب سے ہِٹ کالم ’’پارٹی از اوور‘‘ ہے، اس کالم نے پورے ملک میں دھوم مچا دی تھی، یہ بات کسی بھی کالم نگار کی کامیابی کی معراج سمجھی جاتی ہے کہ اس کا کالم ملک کے طول و عرض میں زیر بحث آئے تاہم میری ذاتی رائے میں ’’نیت یا نتیجہ؟‘‘ نہ صرف اس کتاب کا بہترین کالم ہے بلکہ اگر اردو کالموں کا انتخاب کیا جائے تو شاید یہ کالم پہلے دس بہترین کالموں میں شامل ہو۔ اب ایسے میں سہیل وڑائچ سے کوئی حسد نہ کرے تو کیا کرے!
یہ کتاب پڑھتے ہوئے ایک بات کا احساس البتہ ضرور ہوتا ہے کہ سہیل وڑائچ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کا کالم تمام حلقوں میں پڑھا جائے، ہر جماعت کے حمایتی کے لئے اس میں کچھ نہ کچھ ضرور ہو، وہ یہ نہیں چاہتے کہ اُن پر کسی ایک جماعت یا طبقے کی حمایت یا مخالفت کا لیبل لگ جائے۔ یہ کوئی ایسی قابل اعتراض بات بھی نہیں بشرطیکہ اس کوشش میں سہیل وڑائچ اُن جمہوری نظریات پر قائم رہیں جس کے وہ داعی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حلیم طبیعت، عاجزی اور حیرت انگیز حس مزاح رکھنے والے اس شخص کے ہر جماعت کے قائدین سے مثالی تعلقات ہیں۔ اب ایسے میں کوئی سہیل وڑائچ سے حسد نہ کرے تو کیا کرے!
کالم کی دُم:سہیل وڑائچ نے اپنی کتاب کا دیباچہ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمٰن سے لکھوایا ہے، پہلے تو میں یہ سمجھا کہ مفتی صاحب نے اس کتاب کے حق میں کوئی فتوی ٰ جاری کیا ہوگا جس کو مصنف نے کتاب کے شروع میں چھپوانا مناسب سمجھا مگر جب ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی تو پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ مفتی منیب جس طرح ہمیں عید کی نوید سناتے ہیں اسی طرح وہ اب ہمیں اچھی کتابوں کی خبر بھی دیا کریں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین