• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی مرض کے علاج کی پہلی شرط درست تشخیص ہے اور حکمائے دوراں نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جملہ امراض مخصوصہ کی جڑ میاں محمد نواز شریف ہیں، یہ جڑ کاٹ دی جائے تو ’سب اچھا‘ کے فلک شگاف نعروں سے یہ خطہء ارض گونج اٹھے گا، ہم ایف اے ٹی ایف کی فہرستِ ابیض میں آ جائیں گے، ہمارے ہمسایہ ممالک واری صدقے جائیں گے، پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کا ٹینٹوا دبا دے گا، پٹرول کی ارزانی دیدنی ہو گی، اصحابِ کلف اپنے حلف کو حرز جاں بنا لیں گے، عدالتیں اپنے اٹھارہ لاکھ کیسز نپٹا کر لائقِ تعظیم قرار پائیں گی، اور راوی تین حرف، یعنی چین لکھے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ راوی نے تین حرف لکھے یا۔۔۔۔۔ بھیجے۔
نااہل نوازشریف کے جی ٹی روڈ سفر کے بعد ان کے مخالفین نے بھی دبے دبے لفظوں میں اعتراف کیا کہ بظاہر وہ اپنے ووٹ بینک کو مجتمع رکھنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن اس تاثر کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ انتخابات ہی ہوسکتے ہیں۔ نااہلی کے بعد میاں صاحب کی جماعت نے پنجاب میں چار ضمنی انتخابات میں حصہ لیا اور چاروں میں فاتح قرار پائی۔ یاد رہے کہ حکومتیں اپنے آخری سال میں Lame Duck بھی تصور کی جاتیں ہیں اور Incumbency Factorتلے بلبلا بھی رہی ہوتی ہیں۔ ان ضمنی انتخابات میں جنوبی پنجاب کی ایک نشست پر مسلم لیگ نون کے ایک غیر معروف امیدوار نے علاقہ کے ایک جید الیکٹ ایبل خاندان کے فرد کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ اس کے بعد مختلف ملکی اور غیر ملکی سروے آنے شروع ہوئے، گیلپ کا ادارہ ان میں سب سے زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے کہ پچھلے انتخابات میں بھی اس کے سروے درست ثابت ہوئے تھے اور مئی2018میں گیلپ کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ نون کو اپنی قریبی ترین حریف پی ٹی آئی پر تقریباً بیس پوائنٹ کی برتری حاصل تھی۔
اس پس منظر میں الیکٹ ایبلز کی ایک ڈار نے مسلم لیگ نون کے گھونسلہ سے پرواز کی اور پی ٹی آئی کی شاخ پر جا بیٹھی۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ ’زمینی حقائق‘ تو کچھ اور کہہ رہے تھے، پھر یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں؟ دو جمع دو پانچ کیسے ہو گیا؟ کیا پاکستان کی سیاست کو انٹم فزکس کے اصولوں کے تحت چلتی ہے؟ جنوبی پنجاب میں انتخابی نشان الاٹ ہونے کے آخری دن کمزور دل امیدوار تو شیر کے نشان سے یوں کترا رہے تھے جیسے انہیں اپنی گُدّی پراسی شیر کی سانسوں کی حدت محسوس ہو رہی ہو۔ ایک صاحب نے تو شیر کا نشان لوٹا کر مرغی کو چُن لیا۔ انگریزی میں غالباً اسے Chicken Out کہتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ انتخابات تک پہنچنے کا بہت دلچسپ راستہ اختیار کیا جارہا ہے، ایسے کئی مضمون ہیں، سرسری نظر ڈالنے پر ہی اکتفا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے ملتان سے ایک صوبائی اسمبلی کے امیدوار اقبال سراج نے کہا انہیں ایک سرکاری خفیہ ایجنسی دھمکا رہی ہے کہ شیر کے نشان پر انتخاب نہ لڑو ورنہ پچھتائو گے، انہوں نے ایجنسی پر جسمانی تشدد کا بھی الزام لگایا۔ نوازشریف نے اس طرح کے واقعات کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیا۔ بعد ازاں اقبال سراج نے اپنا الزام یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی تھی، ان پر دبائو کسی خفیہ ایجنسی نے نہیں بلکہ محکمہء زراعت کے ہرکاروں نے ڈالا تھا۔ جی، محکمہ زراعت کے ہرکاروں نے۔
سرگودہا اور قصور کے کمانڈنگ آفیسرز نے اپنے علاقے کے ڈسٹرکٹ اور سیشن ججز (ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز) کو خط لکھ کر اپنے دفاتر میں انتخابی تیاریوں کے لئے ہونے والی میٹنگز میں بلایا۔ ان ججز نے مذکورہ خطوط کو آئین اور قانون سے متصادم اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ دیکھئے پاتے ہیں عُشاق بتوں سے کیا فیض۔ ادھر نیب اپنے اہداف کے تعاقب میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے، اور حسنِ اتفاق دیکھئے کہ ان سب کا تعلق مسلم لیگ نون سے ہے۔ اپنی عدالتیں بھی مصر ہیں کہ ’کوٹ کو عزت دو‘، نتیجہ یہ کہ توہینِ عدالت کے تازہ مجرم دانیال عزیز اور شیخ وسیم قرار پائے، دونوں کس انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے جا رہے تھے یہ بوجھنے کے لئے آپ کا نابغہ عصر ہونا شرط نہیں ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے شیخ رشید کی دعوت پر انکے حلقہ میں ایک زیرِ تعمیر ہسپتال کا دورہ کیا اور اسکی جلد از جلد تکمیل کے لئے احکامات جاری کئے۔ چیف صاحب کے ناقدین نے ان کے اس دورہ کو شیخ رشید کی انتخابی مہم میں معاونت قرار دیا جب کہ منصف اعلیٰ نے اس الزام کو لغو، لا یعنی اور بے بنیاد جانا۔ شور اس قدر ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آواز سنائی نہیں دے رہی، جسٹس شوکت صدیقی بھی اسی نقار خانے میں خدا جانے کیا فرما رہے ہیں، اور اس داستان میں ضمیر سولنگی کا کیا مذکور ہے۔ خواجہ آصف پر سیاہی انڈیلی گئی، نوازشریف پر جوتا اچھالا گیا اور احسن اقبال کو گولی ماری گئی، وہ بچ گئے، مگر لیگی سوشل میڈیا ٹیم کے متحرک کارکن عابد تنولی گولی سے نہ بچ سکے، انہیں نامعلوم افراد نے پچھلے ہفتے کراچی میں قتل کر دیا۔ کسی حساس طبع پر گراں نہ گزرے سو اس داستان کو یہیں روک لیتے ہیں وگرنہ یہ قصہ طویل ہے۔
ایسے میں دیوار کے ساتھ لگے ہوئے نوازشریف کا ضبط بھی جواب دے رہا ہے، پہلے وہ استعاروں میں گفتگو کرتے تھے، اب وہ ’سیدھے‘ ہو گئے ہیں، لگتا ہے انہیں موجودہ سیٹ اپ سے کوئی توقع نہیں رہی۔ اندیشہ یہی ہے کہ سیاست اور ریاست میں تلخی بڑھے گی۔ گدلے انتخابات کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے، بلکہ بذاتِ خود ایک مسئلہ ہوتے ہیں۔ ہم ستر سال سے اصل مسئلے سے آنکھیں چرا رہے ہیں، ہم ستر سال سے وہیں کھڑے ہیں۔
اس پس منظر میں قوم انتخاب کی طرف بڑھ رہی ہے، بلکہ انتخاب، غراتے ہوئے، قوم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انتہائی خوش گمان دوست بھی یہ کہتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں کہ 25 جولائی کے انتخابات ملک کو استحکام کا تحفہ دے پائیں گے۔ کیا ہم ستر سالہ تاریخ سے سبق سیکھنے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں؟ ہمارے بنجر پن کا یہ عالم ہے کہ ہم نئی غلطی کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ بار بار وہی حماقت، بار بار وہی ضد۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین