• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابی گھوڑے سر پٹ دوڑ رہے ہیں۔
جیپ میں ہارس پاور زیادہ بتائی جارہی ہے۔
بڑی محنت ہورہی ہے۔ جمہوریت کی پاسداری کے لئے۔ جمہوریت نام کی یا کام کی۔ یہ کسی کو فکر نہیں ہے۔ آج 5جولائی ہے ۔ اسی دوران 41سال پہلے منتخب سیاسی نظام کی بساط لپیٹ دی گئی تھی۔ آج جو جمہوریت کے چیمپئن ہیں۔ اس وقت ان میں سے بھی کئی یا ان کے بزرگ مٹھائیاں بانٹ رہے تھے۔ یوم تشکر منارہے تھے۔ تاریخ یہ حقیقت بیان کرتی ہے کہ پھر اس کے بعد اقتدار کبھی منتخب نمائندوں کو منتقل نہیں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے اور آخری سربراہ حکومت تھے۔ جنہیں مکمل اقتدار منتقل ہوا تھا۔ الیکشن کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام جس کو اکثریت سونپیں۔ انہیں اقتدار منتقل کیا جائے۔لیکن 1988سے یہ روایت ڈال دی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں شرکت کا آغاز کیا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن سے پوچھ لیجئے کہ یہ سب پورا اقتدار لئے بغیر ہی وفاقی حکومت کی تشکیل کے لئے کتنے بے تاب تھے۔ اور بے انتہا خوش بھی۔ اسٹیبلشمنٹ کو تمغۂ جمہوریت بھی عطا کیا گیا اور ساتھ ہی خارجہ پالیسی اور دفاع بھی۔اس کے بعد جو الیکشن بھی ہوئے شراکت اقتدار کے لئے ہوتے آرہے ہیں۔ انتقال اقتدار کے لئے نہیں۔
میں نے جن کو کبھی چُنا ہی نہیں
طاقتیں وہ ہی معتبر کیوں ہیں
منتخب نمائندے ڈبل کیبنوں میں پیچھے مسلح گارڈ بٹھاکر مست رہتے ہیں۔
وزیر اعظم۔ گورنر۔ وزرائے اعلیٰ۔ آگے پیچھے ہوٹربچتا سن کر اپنے آپ کو مقتدر سمجھنے لگتے ہیں۔ کروڑوں روپے کے ملکی اور غیر ملکی دورے۔ سالم ( چارٹرڈ) طیارہ۔ امریکی صدر۔ برطانوی وزیر اعظم۔ چینی صدر کے ساتھ تصویریں بنواکر ان کی زندگی کے خواب پورے ہوجاتے ہیں۔ بے چارے جمہور اسی طرح مجبور و مقہور رہتے ہیں۔ یہ ہے گزشتہ 30سالوں کی کہانی۔ اسی دوران 1999سے 2008کے درمیان فوجی صدر۔ سول وزیرا عظم کا تجربہ بھی ہوا۔ جمہوریت کے انہی چیمپئنز نے وردی میں صدر کو بسر و چشم قبول کیا کوئی بھی اس سے مبرا نہیں۔
اگر کبھی تخلیے میں آپ بیٹھ کر غور کریں کہ جب پورا اقتدار منتقل نہیں ہوگا تو جمہوری نظام کیسے چلے گا۔ عوام کے مسائل کیسے حل ہوں گے۔ پاکستان کو استحکام کیسے حاصل ہوگا۔
یہ پاکستان اگر چہ 1947میں قائم ہوا۔ لیکن یہ خطّہ تو یہاں قریباً آٹھ ہزار سال سے موجود ہے۔ زندگی کا تسلسل ہے ۔ قدرتی وسائل ہیں۔ دریا بہہ رہے ہیں۔ پہاڑ سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ریگ زار سینے میں تیل گیس لئے بے تاب رہے ہیں پہلے پاکستان خلیج بنگال کے پاس بھی موجود تھا ۔ سقوطِ ڈھاکہ ہمارے لئے المیہ ہے۔ مگر ہمارے مسلمان بنگالی بھائیوں کے لئے طربیہ۔ دیکھیں وہ الگ ہوکر کہاں جا پہنچے ہیں۔
تجھ سے جب توڑ لیا میں نے تھا جو بھی رشتہ
اپنے اظہار کے پھر کتنے ہی رستے نکلے
اس المیے کے جو بھی اسباب تھے ۔ محرّکات تھے۔ جو عادتیں رویے تھے۔ وہ آج بھی ہم نے اختیار کررکھے ہیں۔ اسی لئے پاکستان اس رفتار سے آگے نہیں بڑھتا۔ جس سے ہمارے ہمسایے اور دوسرے ملک پیش قدمی کررہے ہیں۔1972میں دنیا کے چوٹی کے معیشت دانوں نے موجودہ پاکستان کو مثالی اقتصادی وحدت Ideal Economic Unitقرار دیا تھا۔ حقائق اور اعداد و شُمار کے ساتھ۔ یہ ہے بھی۔ جفاکش لوگ۔ ہر صوبے کے بلوچستان۔ سندھ ۔کے پی ۔پنجاب۔ آزاد جموں و کشمیر۔ گلگت بلتستان۔فاٹا۔ ان سب علاقوں کے پاکستانی پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں۔ معاشروں کی تشکیل۔ سہولتوں کی تعمیر میں برابر حصّہ لے رہے ہیں۔ جہاں جہاں ان کے بس میں ہوتا ہے دودھ کی نہر نکال کر لے آتے ہیں۔ جہاں قواعد و ضوابط۔ اجارہ داریاں۔ قومی و بین الاقوامی پابندیاں۔ سیکورٹی وجوہ حائل ہوتی ہیں یا عدالتیں رستہ روک لیتی ہیں۔ وہاں سونا تانبا گیس تیل ہماری اقتصادی مدد نہیں کرپاتے۔یونیورسٹیاں ان امور پر بحث نہیں کرتیں۔ مقالات نہیں لکھے جاتے ۔ مقصد جمہور کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ ہر پاکستانی کو تحفظ دینا ہے۔ جمہوریت کی کلیاں اچھا ماحول ہو تو پھول بنتی ہیں۔ اکیسویں صدی میں نئی نئی ایجادات۔ ٹیکنالوجی۔ زندگی کو سہل بنانے میں جمہوریت کی مدد کرتی ہیں۔مگر ہم قبائلی ۔ جاگیرداری۔ سرداری نظاموں کی صدیوں پرانی بوسیدہ دیواریں گرانے میں تامل کررہے ہیں۔ شراکت اقتدار کی یہی مجبوری ہے۔ بڑا ڈیم نہیں بناسکتے۔ ہمسایوں سے اچھے تعلقات قائم نہیں کرسکتے۔ اس خطّے کے ایک ارب سے زیادہ انسانوں کو وہ پُر امن ماحول نہیں دے سکتے جو امریکہ یورپ میں انسانوں کو میسر ہے۔ آئین موجود ہے۔ مگر بیس سے زیادہ ترمیمی پیوندوں کے ساتھ۔ اسمبلیاں کام کررہی ہیں۔ جمہوریت کا ڈھانچہ مکمل دستیاب ہے۔ لیکن جمہوریت کے میٹھے پھل جمہور تک نہیں پہنچتے۔
دنیا سے پاکستان کے کم از کم 50سال پیچھے رہ جانے میں شراکت اقتدار کے نظام کا زیادہ دخل ہے۔ پہلے ہمارے سیاسی خاندان بیٹوں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن بھیجتے تھے۔ کیونکہ ان دنوں حکمرانی کے لئے بیرسٹری ضروری سمجھی جاتی تھی۔ کالجوں یونیورسٹیوں میں یونینوں سے قیادت وجود میں آتی تھی۔ پہلے یہ گملے درسگاہوں میں لگتے تھے جب سے ان کی جگہ کہیں اور منتقل ہوگئی تو اعلیٰ خاندانوں نے اعلیٰ تعلیم پر پیسہ خرچ کرنے کی بجائے یہیں ملک میں لگانا شروع کردیا۔اب حکمران خاندانوں کے شہزادے شہزادیاں۔ میٹرک بھی کم ہی ہوتے ہیں۔ ان کی 60اور 70کی نسلیں دیکھ لیں اور آج کے جوان۔
شراکت اقتدار نے کیا کیا دن دکھادیئے ہیں۔
جہل خرد نے یہ دن دکھائے
گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے
سایوں کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ نوشتوں کے لکھے پر پکڑے جاتے ہیں یا نوازے جاتے ہیں۔
جمہوریت کی روح برقرار رکھنے کے لئے ایک نظام قائم کرناپڑتا ہے۔ انگریز کا دیا گیا نظام بڑی حد تک عوام کی خدمت اور ملک کے استحکام کے لئے مفید تھا۔ اسے مستحکم کرنے کی بجائے مسمار کیا گیا تاکہ اپنے لاڈلے۔ شہزادے شہزادیاں سامنے لائے جاسکیں۔ پولیس میں بیورو کریسی میں اپنے منظور نظر مقرر کیے جائیں۔ خود غلام ہیں۔ اس لئے آگے بھی غلام ہی تلاش کیے جاتے ہیں۔ آزادی تڑپتی ہے۔ سسکیاں لیتی ہے۔ خاندان غلاماں کا دور جاری رہتا ہے۔انٹرنیشنل غلام ریجنل غلام ڈھونڈتے ہیں۔ ریجنل غلام۔ وفاقی اور صوبائی غلام خریدتے ہیں۔ منڈیاں لگی ہیں۔ جنہیں اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے۔ وہ چند لمحوں کی آسائش کے لئے غلام بننے کو تیار ہیں۔ انتخابی مہم آتی ہے تو ہر غلام کو ہزاروں غلام سر پر بٹھانے کے لئے نکل آتے ہیں۔ سرمایہ داروں۔ جاگیرداروں۔ سرداروں سے بھی آگے کے دار آگئے ہیں۔ ٹھیکیدار۔ انہوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ٹھیکیداری سلسلہ سب روحانی ۔ سیاسی۔ فکری سلسلوں پر حاوی ہوگیاہے۔ وفاقی صوبائی حکومتیں بھی نیلام ہوتی ہیں۔ پرانے لائسنس والے ٹھیکیدار بھی حصہ لیتے ہیں۔ بعض اوقات بالکل نئے ٹھیکیدار بھی آجاتے ہیں۔نام کی جمہوریت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کام کی جمہوریت کو فی الحال سرد خانے میں رکھا گیا ہے۔ اس لئے بلدیاتی اداروں سے اختیارات باقاعدہ قانونی طور پر چھین لئے گئے ہیں۔
نام کی جمہوریت کے لئے انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ صرف 20دن رہ گئے ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لئے نہیں شراکت کے لئے۔ دن رات جلسے جلوس۔ گلے بیٹھ رہے ہیں۔ اب کشمیر کی بات ہوتی ہے نہ قرضوں میں کمی کی۔ نہ ہر پاکستانی کی سوشل سیکیورٹی کی ۔ 25جولائی کے بعد شراکت اقتدار کا ایک اور پانچ سالہ دور شروع ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین