• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا خداکر کے ایون فیلڈ ریفرنس اختتام کو پہنچا ،فیصلہ محفوظ، فیصلہ کیا آئے گا ،کل تک انتظار کر لیں ،میاں صاحب واپس آئیں گے یا نہیں ،چند دن کی بات ،لیکن یہ طے ،میرے افلاطونوں نے یہ ثابت کر دینا کہ واپس آئے تو بھی ووٹ کو عزت ملے گی ، نہ آئے ،تب بھی ووٹ کو ہی عزت ملے گی ، بات آگے بڑھانے سے پہلے بتانا،یہ فیصلہ بھی جمعہ کو، نیب کا قانون، ہر کیس کا فیصلہ ایک ماہ میں ،سپریم کورٹ نے کہا’’ تینوں ریفرنسز 6ماہ میں نمٹائے جائیں ‘‘یہاں ایک ہی ریفرنس چلا ساڑھے 9ماہ ،صرف واجد ضیاء پر جرح ہوئی 18دن ، کیس میں 3بنیادی سوال تھے ،پیسے کمائے کیسے ،لندن بھیجے کیسے اور لندن فلیٹس خریدے کیسے ، سیدھے سادے معصوم سے ان 3سوالوں کے جواب میں کہانیاں اور وہ بھی الف لیلا سے آگے کی ،جیسے میاں شریف نے پیسے کمائے ،قطریوں کے ساتھ سرمایہ کاری کی، لیکن یہ سب خاندان سے چھپائے رکھا ،کسی کو دھواں تک نہ لگنے دیا ،سوائے 8دس سالہ حسین نواز کے ،میاں شریف فوت ہوئے ،حسین نواز نے قطریوں سے دادا جی کی سرمایہ کاری کا حساب مانگا تو قطریوں نے اپنے لند ن فلیٹس دیدیئے ، لیکن سرمایہ کاری ، پیسے آنے جانے کا کوئی ریکارڈ نہیں ۔آگے سنیے ، 90کی دہائی میں ان فلیٹوں میں شریف خاندان کرایہ دار ، لیکن کرائے معاہدے کا کوئی ثبوت نہیں ، میاں شریف کی سرمایہ کاری کے بدلے قطریوں نے فلیٹس دیئے ،لیکن کوئی کاغذی ثبوت نہیں اور تو اور جب سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ ’’وہی کاغذات دیدیں جن سے یہ ثابت ہو جائے کہ یہ فلیٹس قطریوں نے خریدے یا ان کے تھے‘‘، جواب آیا ’’ وہ بھی نہیں ‘‘۔
اسی کیس میں نواز شریف ،مریم نواز اور کیپٹن صفدر سے 390سوالات پوچھے گئے ، 350سوالوںکا جواب تھا ’’ سوال میرے متعلقہ نہیں ، یہ سوال کیس سے متعلقہ نہیں اور مجھے علم نہیں ‘‘، جب تینوں سے پوچھا گیا کہ آپ کے خلاف یہ کیس کیوں بنا تو ایک لمبی چوڑی سیاسی تمہید کے بعد میاں صاحب بولے ’’ چونکہ میں نے مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا ، اس لئے میرے خلاف یہ کیس بنایاگیا‘‘ ، مریم نواز نے کہا ’’مجھے تو نواز شریف کی بیٹی ہونے کی سزا دی جارہی ‘‘اور کیپٹن صفدر نے فرمایا’’ مجھے نواز شریف کے داماد ہونے کی سزا دی جارہی ‘‘، سبحان اللہ ،ساڑھے 9ماہ کیس چلا ،میاں نواز شریف ،مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے ایک ثبوت، ایک گواہ پیش نہ کیا، خود بیان دیئے توحلف اُٹھائے بنا ،پتا تھا کہ حلف لے کر بیان دیں گے تو جرح ہوگی اور جو کہیں گے وہ ثابت بھی کرنا پڑے گا ، اسی کیس کا ہی معجزہ کہ وہ میاں صاحب جو قومی اسمبلی میں فرماچکے تھے کہ ’’ جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع جن کی مدد سے ہم نے جائیدادیں بنائیں ‘‘ یعنی سب کچھ میاں صاحب کو معلوم تھا، لیکن قومی اسمبلی سے احتساب عدالت آتے آتے میاں صاحب کی یادداشت جواب دے گئی ،فرمایا ’’ مجھے تو کچھ پتا ہی نہیں ، علم تھاتو والد میاں شریف کو،یا بیٹوں حسن، حسین کو ،میں نے تو تقریریں بھی حسن ،حسین کے کہنے پر کیں ، سبحان اللہ ، آگے سنیے، میاں شریف کے فوت ہونے کے بعد اس کیس میں نواز شریف کے مضبوط گواہ تھے حسن ، حسین،لیکن عدالت نے انہیں بلانے کو کہا تو فرمایا ’’ عدالت انہیں بلا ہی نہیں سکتی ،وہ برطانوی شہری ،ان پر پاکستانی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا‘‘ ،اللہ اللہ خیر سلا۔
یہاں یہ ضرور کہنا کہ پچھلے دو سالوں میں بھانت بھانت کے وہ افلاطون جو کالی رات میں کالے کمرے سے کالی سازشی چیونٹی پکڑتے نظر آئے ، ان سب نے اس حوالے سے آنکھیں بند کئے رکھیں کہ پانامہ لیکس کے بعد کیوں شریف خاندان ایک ’’چنی منی ٹریل ‘‘ نہ دے سکا ، کیا کبھی ایسے ہو ا کہ اسٹیبلشمنٹ نے شریف خاندان کی ثبوتوں بھری ٹریکٹر ٹرالی غائب کروا دی ہو ، یا ثبوتوں بھرے ٹرک کو نذرِ آتش کر دیا ہو ، کچھ افلاطون تو ایسے بھی جو کہتے ’’ خبردار اس موضوع پر بات نہ کرنا ورنہ جمہوریت ،سویلین بالادستی خطرے میں پڑ جائے گی ‘‘، واہ رے بنارسی ٹھگو ،چوٹی کے وکلاء ،وسائل کی بھرمار، شاہانہ پروٹوکول اور مرضی کے ماحول میں 5فورمز پر موقع ملنے کے بعد بھی ’’منی ٹریل ‘‘ نہ دینے والوں کے وجود مبارک ہی جمہوریت اور سویلین بالادستی،جب یہ سب جائیدادیں بن رہی تھیں ، لوٹ مار ہو رہی تھی ، غریب کا پیسہ دھڑا دھڑ باہر جارہا تھا تب جمہوریت مضبوط اور سویلین بالادستی کو چار چاند لگ رہے تھے ،اب اپنے 3دفعہ کے وزیراعظم سے یہ پوچھ لینا کہ حضور آپکی کمائی جائزہے یا ناجائز ،جمہوریت اور سویلین بالادستی بسترِ مرگ پر جاپہنچے ، سبحان اللہ ۔
اپنے خود ساختہ جمہوریت و سویلین بالادستی پسندوں کیلئے پانامہ کیس کی نظر ثانی اپیل کے 23صفحات پر مشتمل فیصلے کی چند سطریں حاضرِ خدمت ہیں ، تاکہ یادداشتیں تازہ ہو سکیں اور پتا چل سکے کہ جس ذات مبارک میں آج پوری جمہوریت اور سویلین بالادستی سمٹ چکی ، اس کے بارے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کیا لکھ چکی ،پڑھیے ’’نوا ز شریف نے پارلیمنٹ کے اندر ،باہر عدالت کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ،اُنہوں نے پارلیمنٹ ،عوام حتی کہ عدالت میں بھی سچ نہیں بتایا ،جان بوجھ کر اثاثے چھپائے ، بددیانتی کے ساتھ کاغذات نامزدگی میں جھوٹا بیان حلفی دیا ،مریم نواز بادی النظر میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی مالک ،نواز شریف 80کی دہائی سے سیاست اورکاروبار میں ،عدالت کو مایوسی ہوئی جب نواز شریف نے سوالات کے جوابات دیانتدارانہ طور پر نہ دیئے ،میاں صاحب نے یہ احساس بھی نہ کیا کہ آپ لوگوں کو کچھ وقت کیلئے بے وقوف بنا سکتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ کیلئے ،لیکن سب لوگوں کو ہمیشہ کیلئے بے وقوف نہیں بنا سکتے ،جھوٹ بولنے سے تو بہتر تھا کہ باعزت طور پر مستعفی ہو جاتے ،کیا عدالت صرف اس لئے آنکھیں بند کر لیتی کہ درخواست گزار وزیر اعظم پاکستان ،ملک کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے اعلیٰ ترین اقدار کی توقع کی جاتی ہے ،اگر قدرت نے انکے سر پر حکمرانی کا تا ج رکھا تھا توا نہیں مثالی اقدار کا مظاہر ہ کرنا چاہیے تھا ،وزیراعظم تو قوم کیلئے رول ماڈل ہوتا ہے ‘‘اسی فیصلے میں یہ شعر بھی جو 23صفحات کا نچوڑ :
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
اب یہ پڑھ کر بھی اگر کسی کو لگتا ہے کہ جمہوریت اور سویلین بالادستی ، میاں صاحب کے وجود مبارک میں تو پھربھائی جان مرض لاعلاج ہو چکا ، کیا کریں یہ تو وہ ملک جہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی (لگتے تو پڑھے لکھے ہی ہیں) ملک کو قرضوں میں ڈبو کر اور ہر ادارے کو خسارے کی دلدل میں پھینک کر جانے والے میاں صاحب کی اس بات پر بھی سر دھنتے نظر آئیں کہ ’’ ہم نے تو ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا تھا‘‘، یہ تو وہ ملک جہاں چپ چاپ 4سال اقتدار کے مزے لوٹنے والے میاں صاحب جیسے ہی پانامہ کے گھیرے میں آئیں یعنی خود پر پڑے اور وہ یکایک فرمانے لگیں کہ نیب سازشی ہو گیا ،انصاف جانبدار ، ہر کام خلائی مخلوق کا ،ووٹ کو عزت دینے کا وقت آن پہنچا، نظریاتی ،مزاحتمی اور بغاوتی ہونے کے لمحے آگئے تو لوگ دن دہاڑے بولے جانے والے ان چٹے جھوٹوںکو سچ مان کر ڈھول بجائیں اور کیا کریں یہ تو وہ ملک جہاں میاں صاحب جب مشاہد اللہ کو دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھوں والا انٹرویو دینے پر فارغ کریں ،تب بھی واہ واہ ہو ، جب وہ خود کہہ دیں کہ دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ تھے ،تب بھی واہ واہ ہو ،جب میاں صاحب ڈان لیکس کو غلط کہہ کر پرویز رشید اور طارق فاطمی کو فارغ کریں ،تب بھی واہ واہ ہو اورجب خود یہ فرما دیں کہ ڈان لیکس درست ،تب بھی واہ واہ ہو ، اورتو اورمشرف پر مقدمہ بنایا، واہ واہ ، مشرف کو جانے دیا ،واہ واہ، مشرف کو واپس لانے کی جعلی سی کوشش بھی نہ کی ،واہ واہ ، یہ تو چند واہ واہ ہیں،ورنہ ایسی درجنوں واہیں اور بھی ، مگرسو باتوں کی ایک بات کہ ملک چھوٹا پڑا ،لوگ بڑے ہوگئے۔
اب دو چار باتیں لاہو ر کی ،ایک بار ش نے پیرس مطلب لاہور کے کس بل نکال دیئے ، یہ وہی شہر جس پر پورے صوبے کا بجٹ لگا کر شہباز شریف ہر دوسری تقریر میں کہا کرتے ’’جس نے ترقی دیکھنی ہے وہ لاہور آکر دیکھ لے‘‘ ، بلاشبہ قدرتی آفت پر کسی کا کنٹرول نہیں، لیکن چار سٹرکیں بنائیں ،ان میں بھی گڑھے پڑ گئے ،انڈر پاس تالاب بنے ،باقی شہر میں جابجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ، ابلتے گٹر اور گلیاں بنیں گندی نالیاں ،کیا یہی وہ شہر ہے کہ جس پر ہر سال 3سو ارب لگتا تھا اور جسے پیرس کہا جاتا تھا ،او رسنیے چھوٹے میاں صاحب نے یہ فرما دیا کہ بارشوں کے باعث ہونے والی سب تباہی کی ذمہ دار نگران حکومت ،حضور آپکی مہربانی کہ آپ نے نگران حکومت پر تب الزام لگایا جب انہیں آئے ہوئے مہینہ ہو گیا ، ورنہ نواز شریف صاحب نے تو 5دنوں کی نگران حکومت کو لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار ٹھہرا دیا تھا ۔یقین جانیے ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے اس قیادت پر ،جس نے یہ قسم کھارکھی کہ جب بھی بولنا ،جھوٹ ہی بولنا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین