• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعہ کا دن یورپ میں منحوس سمجھا جاتا ہے اور اگر اس دن 13تاریخ ہو تو نحوست دو آتشہ ہوجاتی ہے۔ جمعہ کی مناسبت سے کھڑی کی گئی توہم پرستی کی اس عمارت کی بنیادوں میں بیسیوں برے واقعات ہیں جو اس دن پیش آئے ۔مثال کے طور پر مسیحی عقیدے کی رو سے حضرت عیسیٰ ؑکو جمعہ کے روز مصلوب کیا گیا۔ مسیحی مذہبی دستے ’’دی نائٹس ٹیمپلر‘‘جو بعد ازاں فری میسن میں تبدیل ہو گئی، ڈائون برائون کی شہرہ آفاق کتاب ’’ڈاونچی کوڈ‘‘ کے مطابق فرانسیسی بادشاہ فلپ چہارم نے اس خفیہ فوج کے خلاف جمعہ کے روز ہی کریک ڈائون کیا اور پھر جب انہیں پیرس کے مرکزی چوراہے پر زندہ جلایا گیا تو تب بھی جمعہ کے دن کا انتخاب کیا گیا تھا۔19ویں صدی تک امریکہ میں یہ روایت قائم رہی کہ سزائے موت پانے والوں کو جمعہ کے دن ہی تختہ دار پر لٹکایا جاتا تھا۔اس حوالے سے کئی ناول بھی لکھے گئے مگر ’’فرائیڈے دا تھرٹینتھ‘‘ کے نام سے بننے والی فلم سیریز نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ بیشتر یورپی باشندوں کا خیال ہے کہ اس روز نادیدہ قوتیں متحرک ہوگئی تھیں اس لئے ان کے برے اثرات سے بچنے کے لئے تمام سرگرمیاں ترک کر دینا ہی بہتر ہے۔ اگرچہ میں مشرق و مغرب میں رائج کسی قسم کی توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کا قائل نہیں تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمعہ اور جولائی کو کم وبیش وہی مقام حاصل ہے جو یورپی معاشرے میں جمعہ اور 13تاریخ کے حصے میں آیا ہے۔ 5جولائی 1977ء کو آپریشن فیئر پلے کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا اور 28جولائی 2017ء کو ’’آپریشن رَد النواز‘‘تب کامیابی سے ہمکنار ہوا جب منتخب وزیراعظم نوازشریف کو عدالتی فیصلے کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا۔ اب پوری قوم کو ایک اور جمعہ کا انتظار ہے اور یہ جمعہ بھی جولائی کے مہینے میں آرہا ہے۔ 6جولائی کو جمعہ کے روز احتساب عدالت ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف ،مریم نواز اور کیپٹن صفدر سے متعلق فیصلہ سنا رہی ہے۔ کیا اس روز نادیدہ قوتیں کامیاب ہونگی دوسری طرف ہم تمام مسلمان ،مسیحیوں سے اختلاف کرتے ہیں کہ جمعہ انتہائی مقدس دن ہے اور یہ سب یورپی اور مسیحی ضعیف الاعتقادی ہے یا پھر خلاف توقع فیصلے کے نتیجے میں اس دن اور مہینے سے جڑی توہم پرستی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے مجھے سہیل وڑائچ صاحب کی کتاب ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ موصول ہوئی تو خیالات کا رُخ 22جون 2017ء کو شائع ہونے والے ان کے شہرہ آفاق کالم کی طرف مُڑ گیا جس میں انہوں نے واضح طور پر یہ پیش گوئی کی تھی کہ نوازشریف کا کھیل ختم ہو چکا۔ یہ کتاب ان کے گزشتہ ایک برس کے دوران شائع ہونے والے سدا بہار کالموں پر مشتمل ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ انسانوں کی طرح کالم کی بھی کئی اقسام ہیں۔ بعض کالم مثل غذا ہوتے ہیں جن کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے، چند کالم مِثل دوا ہوتے ہیں جو تریاق کا کام کرتے ہیں جبکہ بیشتر کالم مثل ِوبا ہوتے ہیں جن سے پرہیز لازم ہے۔ سہیل وڑائچ صاحب کے کالم کو میں اول الذکر صف میں شمار کرتاہوں۔ اگرچہ ان کے کالم ’’پارٹی اِز اوور‘‘ کو کھڑکی توڑ مقبولیت ملی مگر اس کتاب میں شامل دو کالم ایسے ہیں جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ سہیل ورائچ صاحب کی تمام تر صحافتی خدمات ایک طرف اور یہ دوکالم دوسری طرف۔ ایک کالم کاعنوان ہے، یہاں ’’دیو‘‘رہتا تھا جبکہ دوسرے کالم کا عنوان ہے ’’پہاڑ اور چیونٹی ‘‘
مجھے نہیں معلوم اس جمعہ سے متعلق سہیل وڑائچ صاحب کیا رائے رکھتے ہیں؟ کسی بھی صحافی یا تجزیہ نگار کے لئے ممکنہ عدالتی فیصلے کے بارے میں پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوںمیں تو دوران سماعت جج صاحبان کے ریمارکس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ معاملات کس طرف بڑھ رہے ہیں۔ بنچ میں شامل جج صاحبان کے ماضی کے فیصلے بھی کوئی رائے قائم کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ احتساب عدالت کا یہ فیصلہ ایک ایسے جج نے صادر کرنا ہے جن کی نگرانی سپریم کورٹ کے ایک جج کر رہے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر میرے خیال میںیہ مقدمہ قانونی اعتبار سے کتنا ہی کمزور اور بے بنیاد کیوں نہ ہو، احتساب عدالت کے جج کے پاس ملزموں کو سزا سنانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اگر وہ ناکافی ثبوتوں ،کمزور گواہوں اور پراسیکیوشن کی ناقص کارکردگی کی بنیادپر ملزموں کو باعزت بری کر دیتے ہیں توسیاسی فضا بدل جائے گی۔ چنانچہ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر’’زرعی ماہرین‘‘ کی حکمت عملی تبدیل نہ ہوئی تو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دیوار پر لکھی تحریر کی مانند صاف دکھائی دے رہا ہے۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز جمعہ کے دن واپس آگئے تو انہیں سزا سنا دی جائے گی۔ اس فیصلے کو موخر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز پاکستان واپس آنے کا ارادہ ترک کر دیں اور اپنی سیاسی موت کے فیصلے پر خود ہی مہر ثبت کر دیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سزا سنا دینے سے کھیل ختم ہو جائے گا اور شریف خاندان قصہ پارینہ بن جائے گا؟ کیا اس فیصلے کے نتیجے میں محکمہ زراعت جمہوریت کے جڑ پکڑنے والے تمام پودے اکھاڑ کر نئی پنیری لگانے میں کامیاب ہو سکے گا؟ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اب کسان باشعور ہوچکے ہیں اورماضی کی طرح پرانی فصل اجاڑ کر نئی فصل کاشت کرنا بہت دشوار ہے۔
میرا خیال ہے کہ نوازشریف کو سزا سنانے کے بعد سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ ابھی ’’بہت ہیں پستیاں حائل میری تحقیر کرنے تک‘‘ کے مصداق بہت سفر باقی ہے۔ تازہ ترین سروے بتاتے ہیں کہ محکمہ زراعت کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ اگر سزا ہونے کے بعد مظلومیت کی ہوا نے نوازشریف کی مقبولیت کو مہمیز کیا تو 25جولائی کو لگنے والی عوامی عدالت کا فیصلہ کیا ہو گا؟ اس دن ہر ووٹر منصف ہو گا اور اپنے ووٹ کی مہر سے فیصلہ صادر کرے گا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ 25جولائی کو جمعہ نہیں بلکہ بدھ ہے۔ میرے خیال میں کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ،نہ ہی 6جولائی کے فیصلے سے پارٹی اوور ہو گی۔ ناک آئوٹ مرحلہ ابھی باقی ہے۔ اگر برطانوی مدبر چرچل کے الفاظ مستعار لوں تو نہ ہی یہ انجام ہے اور نہ ہی انجام کا آغاز ،یہ تو اختتام کی بھیانک شروعات ہیں۔

تازہ ترین