• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں افراد کی طرح وہ اقوام مہذب قرار پائیں جنہوں نے اپنی ترقی کی بنیاد استحصال اور لوٹ مار کے بجائے تعلیم، ہنرمندی، محنت اور جدوجہد پر استوار کی۔ پھر ڈکٹیٹر شپ یا آمریت کی جگہ جمہوریت اور جبرو استحصال کی جگہ رواداری، برداشت، انصاف پسندی اور مکالمے نے لے لی۔ بنیاد پرستی کی جگہ لبرل سوچ یا اعتدال پسندی آگئی۔
اس اتنی بڑی شعوری کایا پلٹ کے باوجود اگر ہم منصفانہ بنیادوں پر تجزیہ کریں تو دنیا کا مہذب سے مہذب سماج بھی جذباتی نعرے بازوں سے کلی طور پر خالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیں دیکھنا اور جانچنا پڑتا ہے کہ مخصوص سماج میں کھوکھلے جذباتی نعرے لگانے والوں کی شرح کیا ہے؟ اسی تناسب سے ہم اس سماج کے تہذیبی مقام کا تعین کر سکتے ہیں۔ ہم ترقی یافتہ مہذب اقوام کا اس کسوٹی پر جائزہ بعد میں لیں گے اس وقت ہم ایک نگاہ اپنے پیارے پاکستانی سماج پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہاں شعور اور لاجک کی باتیں کرنے والے بالعموم وہ پذیرائی حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں جو تصوراتی دنیا کے خواب دکھانے والے جذباتی نعرے باز حاصل کرتے ہیں۔
مذہبی جذبات کے نام پر سوسائٹی میں پھیلائی گئی وسیع تر جذباتیت کی تباہ کاریاں، لمحہ بھر کے لیے ملاحظہ فرمالی جائیں۔ اس سے ہمارا ورلڈ ویو تباہ ہو گیا ہے ہم مہذب اقوامِ عالم کے متعلق منافرتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جنوبی ایشیا جیسے تہذیبی خطے میں ہم نے نہ ختم ہونے والا جنگی جنون ازلی و ابدی دشمنی کے نام پر حاوی و مسلط کر رکھا ہے نتیجتاً ہمارے کروڑوں عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم لوگ فکری و شعوری طور پر اس قدر متشدد و پسماندہ کیوں ہیں؟ حسین شہید سہروردی اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی قیادت کے خلاف منافرت پھیلانے والے انہیں بھارتی ایجنٹ اور ملک دشمن قرار دینے والے کون لوگ تھے؟
بھٹو جب بڑھک باز کٹھ پتلی تھا تو ہمارا پیارا قائدِ عوام تھا جب غلام گردشوں کے تھپیڑے کھا کر اسے عقل آئی تو وہ قابلِ گردن زدنی، غدارِ قوم تھا۔ محترمہ کو روزِ اول سے شعور آ گیا تھا لیکن ہم نے مرتے دم تک اس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟ وہ منتخب ہو کر بھی غیر منتخب لوگوں کے استبداد کا شکار رہی۔ اسے ملک دشمن، انڈیا کی ایجنٹ اور سیکورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا اور بالآخر اسی بے بسی میں اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ نواز شریف جب تک کسی کا کاسہ لیس تھا تو محب وطن قومی قائد تھا جب دھکے کھا کر تین مرتبہ تلخ تجربات کی بھٹی سے کندن بن کر نکلا، شعوری ارتقاء نے اُسے ایک منجھا ہوا حقائق آشنا قومی سیاستدان بنا دیا تو اس کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ اس قدر پھیلا دیا کہ گویا اس سے کرپٹ اور ملک دشمن رہنما تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
ہم پوچھتے ہیں کہ اگر وطنِ عزیز میں حریت فکر اور آزادی اظہار کو اعلیٰ انسانی اقدار کی حیثیت سے تسلیم کروا لیا ہوتا تو یہاں کتنے شاہ دولے کے چوہے اور کنویں کے مینڈک باقی رہ جاتے؟ نکتہ توحید سمجھ میں آتو سکتا ہے لیکن اگر کسی کے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے۔ قوم کے اندر ذہنی پسماندگی اور جذباتی کھوکھلی اپروچ کے پاکٹس کو قائم و دائم اور جاری و ساری رکھنے کے لیے کس قدر جبرو استحصال سے کام لیا گیا ہے۔ شعوری ارتقاء کو کچلنے کے لیے حب الوطنی اور مذہبی تقدس کے کیسے کیسے جتھے پالے گئے ہیں۔ کس کس کے قومی رول کی ستائش کی جائے۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ یہاں قومی جمہوری قائد کے بھائی میں اس کے بیانیے پر کھڑے ہونے کا یارا نہیں کسی اور کا شکوہ کیا کریں۔
آپ نواز شریف سے ضرور اختلاف کریں کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن ذرا سوچیے تو سہی کہ اس کا بیانیہ ہے کیا؟ یہ کہ اس ملک کے اصل مالک و وارث اس ملک کے بیس کروڑ عوام ہیں جن کی رائے یا ووٹ کو عزت ملنی چاہئے۔ اس مظلوم قوم کی تقدیر کے فیصلے کہیں اور نہیں منتخب پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں پارلیمنٹ کی بالادستی کا مطلب ہے دیگر تمام اداروں کا منتخب سیٹ اپ کی ماتحتی میں چلنا۔ اگر تمام تر ملکی قوانین کا منبع آئین ہے تو اس آئین کی ماں پارلیمنٹ ہے۔ یہاں تمام مظالم اور بے انصافیوں کے مراکز کی تو عزت ہے لیکن آئین کی ماں کی کوئی عزت و حرمت نہیں، جس کا جب دل چاہتا ہے وہ اس پر لعنتیں بھیجنا ضروری سمجھتا ہے ۔ ہم پوچھتے ہیں آئین کی موجودگی میں یہاں کسی نئے نام نہاد معاہدہ عمرانی کی بحث کس سوچ کے زیراثر چھیڑی جا رہی ہے۔ اگر کوئی آفت آن پڑی ہے تو نو منتخب پارلیمنٹ کو آنے دو اس میں نئی ترمیم کے لیے مباحثہ کروا لو۔
نواز شریف کو سزا بلاشبہ نوشتہ دیوار ہے قوم کے باشعور طبقات پوری طرح آگاہ ہیں کہ کرپشن کے نام پر پھیلائی گئی منافرت کا اصل مدعا کیا ہے اور الیکشن سے قبل اس کا اجراء کیوں ضروری ہے۔ ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے۔ یہ شخص دو تہائی کے عزائم لیے ہوئے تھا ہم نے اس سے سادہ اکثریت چھیننے کے لیے 25جولائی کی شام تک کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی ہے ۔

تازہ ترین