• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے برسات کا دل توڑ دیا
برسات ایسا موسم ہے کہ جس میں آسمان طرح مصرع کہتا ہے تو زمین اس پر گرہ لگاتی ہے اور یوں یہ کوئل کی کوک اور آموں کی مٹھاس جیسی رُت ایک مرصع غزل ہو جاتی ہے، مگر ہم نے برسات کے لئے کوئی اہتمام نہیں کیا، اور اللہ کی رحمت کو زحمت میں بدل دیا، مال روڈ پر برسات کے راستے میں اتنا بڑا گڑھا کس کے کمال ہنر کا شاہکار ہے اس کا تعین کرنے سے کیا فائدہ کوئی بھی ہوتا یہی کچھ ہوتا کہ شاید ’’حسن کارکردگی‘‘ کے حوالے سے ہم سب ایک جیسے ہیں، البتہ ہماری بڑھکیں الگ الگ۔ اگر ٹائون پلاننگ کے ماہرین حقیقت پر مبنی رپورٹ مرتب کریں تو یہ فرضی پیرس برسات کے لئے فٹ ہی نہیں، اس لئے کہ یہاں بارشوں کا سالانہ تناسب خاصا کم ہو چکا ہے۔ مال روڈ سے لنک ہونے والی سڑکوں کی سطح کافی نیچی ہے، اور مال روڈ اب اتنی پرانی ہو چکی ہے کہ اس میں جگہ جگہ پیوند لگا کر اسے اس گدے کی مانند کر دیا گیا ہے کہ جس پر پُر اعتماد ہو کر لیٹنے والے کا ٹائی راڈ ٹوٹ جاتا ہے، اگر پوش علاقوں کی حالت برسات کی پہلی بارش سے ناگفتہ بہ ہو گئی ہے تو عوامی بستیوں میں ووٹ کی عزت تو پانی کے ساتھ ہی بہہ گئی ہو گی اور سنا ہے 11ووٹرز اللہ کو پیارے بھی ہوئے کئی زخمی ہوئے، سلامت پورہ کے علاقے گاڈیاں والا بھٹہ میں برسات کے ساتھ ہی بجلی گئی ہے، لوٹ کے نہیں آئی اور برائے نام سیوریج الٹی گنگا کی طرح بہہ رہے ہیں، گھروں میں سامان تیر رہا ہے، اور مکین بے بس، خالی پلاٹوں والی نوزائیدہ کالونیوں میں بھینسوں کے مزے ہیں، گوبر اور بول و براز سے شہری طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، مویشی، انسان اکٹھے رہ رہے ہیں نگران حکومت یہ مویشی ہی شہر سے باہر کر دے۔
٭٭٭٭
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
گردش قرضوں کا بوجھ، بجلی کے بلوں میں 150 ارب روپے کی وصولی شروع۔ کیا آئین اجازت دیتا ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی، اور یہ کوئی وہی تو ہیں جن کے پاس ووٹ کی عزت ہے، یہ غریب معززین ہی اب 150ارب ایک جبر کے تحت ہر آنے والے بجلی کے بل میں جرمانے کی صورت ادا کریں گے، اس ظلم کے خلاف بھی کوئی تو درِ انصاف پر دستک دے یا اعلیٰ عدلیہ از خود نوٹس لے مہنگائی اور مالی نقصانات کے سارے جھٹکے کروڑوں غریب عوام سہتے بھی ہیں پورے بھی کرتے ہیں نہ جانے ان کے دل کے ارمان کب پورے ہوں گے، ہم یہ نہیں کہتے کہ امیروں کو کچھ ہو، اللہ انہیں حیاتی دے مگر غریب کو اتنا تو نیچے نہ دھکیلا جائے کہ اسے غربت کانٹوں کی طرح چبھنے لگے، وہ کھلی آنکھیں، کھلا منہ لے کر امراء کی زندگی جنت بنتے ہوئے حیرت سے تکتا رہ جائے، مساوات کا جو آئیڈیا حجۃ الوداع کے چارٹر میں مسلم امہ کو دیا گیا وہ نافذ غیر مسلموں کے ممالک میں ہے کیا یہ سفلی کامیڈی نہیں؟ گردشی قرضے لئے کس نے خرچ کہاں ہوئے سب جانتے ہیں مگر ان کی ادائیگی دوشِ مفلس پر ڈال دی گئی ہے، آج میرؔ ہوتے تو اپنے اس شعر کا عملی نقشہ دیکھتے؎
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
25؍ جولائی اب دور نہیں، ہم 22کے بجائے 21 کروڑ مفلسان وطن سے گزارش کرتے ہیں کہ ذات، برادری، دوستی، عقیدت سے بالاتر ہو کر اپنی حالت زار کو ووٹ دے، ووٹ کو وہ خود ہی عزت دے گا تو معزز ہو گا، امیر تر نہ ہو گا تو غریب تر بھی نہیں رہے گا۔
٭٭٭٭
ہوائی فائرنگ روکیں!
دیگر شہروں میں تو ہے ہی ہم لاہور کی بات کرتے ہیں کہ سرشام ہی گلی محلوں اور چھتوں سے پے در پے کان شگاف فائرنگ سے بچے آغوش مادر میں سہم جاتے ہیں اور گھونسلوں کا رخ کرنے والے پرندے لوٹ جاتے ہیں، ہم نے کئی بار لکھا کہ جس طرح مکین یہ گولیوں کی آواز سنتے ہیں، متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او بھی سنتا ہے، مگر وہ حرکت میں نہیں آتا، کہ تعین کرے گولی کس نے چلائی، کیا دنیا میں کہیں ایسا کلچر ہے؟ کیا آئی جی پنجاب ہر تھانے کو پابند کریں گے کہ اس کے علاقے میں جہاں سے گولی چلنے کی آواز آئے اس کی تحقیقات کرے، ذمہ دار کو پکڑیں اور معاشرتی ہراسانی کے مکروہ جرم کی دفعات اس پر لگا کر پرچہ درج کریں۔ اسے ہتھکڑیاں پہنائیں عدالت میں پیش کریں، وہ جو ڈولفن فورس ہوا کرتی ہے وہ کہاں محوِ خرام رہتی ہے، پٹرولنگ پر غریبوں کی بستیوں میں گردش کرے کہ یہاں نو دولتیئے اور بدمعاش افراد اپنے آس پاس مقیم سفید پوشوں کا ’’تراہ‘‘ نکالتے رہتے ہیں، آخر عوام الناس کو یہ کون لوگ ہیں جو مسلسل ڈراتے، ہراساں کرتے رہتے ہیں، کچھ عرصے سے یہ ہوائی فائرنگ جس کی زد میں کوئی بھی آ سکتا ہے خاصی بڑھ گئی ہے، نگران حکومت اتنی بھی بے اختیار نہیں ہوتی کہ گلیوں محلوں میں بدمعاشی نہ روک سکے، وزیر اعلیٰ پنجاب حسن عسکری پولیس کو تھانوں سے نکل کر گولیاں چلانے والوں کی خبر لینے پر آمادہ کریں، اور کچھ عسکریت بھی دکھائیں۔

تازہ ترین