• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25 جولائی 2018ء کو پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ایک ساتھ ہورہے ہیں۔ پاکستان میں ٹرن آئوٹ ہمیشہ سے کم رہاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو ووٹ دیتا ہی نہیں ہے، اور جب کرپٹ لوگ منتخب ہوجاتے ہیں تو پھر ان کو برا بھلا کہنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک مذہبی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ بات چیت مختلف موضوعات سے ہوتی ہوئی انتخابات پر آگئی۔ ایک مذہبی رہنما کا خیال تھا کہ ہمیں لوگوں کو ترغیب دینی چاہیے کہ وہ ووٹ ہر گز نہ دیں۔ ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ کئی اعتبار سے نقصان ہوتا ہے۔‘‘ ہم نے اس نظریے کی دو ٹوک الفاظ میں تردید کی اور دلائل و براہین سے بتایا کہ ووٹ دینا کس قدر ضروری ہے۔ ہر شخص کو ووٹ دینا چاہیے۔ ایک ایک ووٹ کی بڑی قدر و قیمت ہوتی ہے۔ تاریخ میں بے شمار ایسے سچے واقعات ملتے ہیں کہ صرف ایک ووٹ سے کامیابی ممکن ہوئی۔ رونالڈ ریگن امریکا کا مشہور صدر تھا۔ اُس کی شہرت کی ایک وجہ صدارتی انتخاب میں صرف ایک ووٹ سے جیت بھی تھی۔ کسی تقریب میں ایک صحافی نے ریگن سے پوچھا: ’’جناب صدر! صرف ایک ووٹ سے کامیابی کیسے ممکن ہوئی؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’میری یہ کامیابی ایک بڑھیا کی مرہونِ منت ہے۔‘‘ ریگن بولا: ’’میں واشنگٹن میں ایک انتخابی مہم پر تھا، میری گاڑی اشارے پر رُکی تو میں نے دیکھا ایک بوڑھی خاتون زیبرا کراسنگ سے روڈ پار کرنا چاہتی ہے، لیکن بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے اسے سڑک کراس کرنے میں دقت ہورہی ہے۔ میں فوراََ اپنی گاڑی سے اُترا، بوڑھی مائی کا ہاتھ تھاما، اسے روڈ پار کرائی، بڑھیا نے میرے ہاتھ پر بوسہ دیا اور پوچھا: ’’تم کون ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’میں رونالڈ ریگن ہوں اور صدارتی انتخاب لڑنے جارہا ہوں۔‘‘ بڑھیا نے سر سے پائوں تک میرا جائزہ لیا اور بولی ریگن میرا ووٹ تمہارے لیے ہوگا۔ میں نے مائی کا شکریہ ادا کیا اور واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔ میں سمجھتا ہوں میری ایک ووٹ سے جیت اُس بڑھیا کی وجہ سے ممکن ہوئی، یہ اس عورت کا ایک ووٹ تھا جس نے مجھے امریکا کا صدر بنادیا۔‘‘ قارئین! آپ کا ایک ووٹ بھی اچھے اور برے حکمران منتخب کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے، لہٰذا 25 جولائی کو ہر شخص باہر نکلے اور اپنا ووٹ دے۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیعؒ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ووٹ لازمی دینا چاہیے۔ ’’ووٹ کی شرعی حیثیت‘‘ کے عنوان سے حضرتؒ کا پور امقالہ موجود ہے۔ کسی امیدوار کے حق میں ووٹر کو اپنا ووٹ کس طرح استعمال کرنا چاہیے؟ عام پر لوگ اس کو ذاتی و نجی معاملہ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ خاص دینی معاملہ ہے۔ جواہر الفقہ کے صفحہ نمبر 535پر حضرت مفتی محمد شفیعؒ کہتے ہیں:’’کسی امیدوار کو ووٹ دینے کی ازروئے شریعت کئی حیثیتیں ہیں۔ایک حیثیت شہادت کی ہے۔ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے، اور دیانت اور امانت بھی۔ اگر واقعی میں اس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے، جو سخت کبیرہ گناہ اور وبال دنیا وآخرت ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث میں رسول اللہ ﷺنے شہادت ِکا ذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ) ایک دوسری حدیث میں جھوٹی شہادت کو اکبر کبائر فرمایا ہے۔ (بخاری ومسلم) جس حلقہ میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابل ترجیح ہے تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کو ووٹ دے، محض رسمی مروت یا کسی طمع وخوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔ دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے۔ اس سفارش کے بارے میں قرآن کی سورۃ النساء آیت نمبر 85میں یہ ارشاد ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے: ترجمہ: ’’ جو شخص کوئی اچھی سفارش کرتا ہے، اس کو اس میں سے حصہ ملتا ہے، اور جو کوئی بری سفارش کرتا ہے اسے اس برائی میں سے حصہ ملتا ہے۔‘‘۔ اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانتدار آدمی کی سفارش کرے، جوخلق خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے، اور بری سفارش یہ ہے کہ نااہل، نالائق، فاسق، ظالم کی سفارش کر کے اس کو خلق خدا پر مسلط کرے۔ اس سے معلوم ہوا ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے 5 سالہ دور میں جو نیک یا بد عمل کرے گا، ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔ ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے، لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، مگر یہاں ایسا نہیں، کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے، جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے، اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ د ے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔حاصل یہ کہ ووٹ3حیثیتیں رکھتا ہے۔ ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں، اس طرح نااہل شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے، بری سفارش بھی اور نا جائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ جس طرح قرآن وسنت کی رو سے یہ واضح ہوا کہ نااہل، ظالم، فاسق فاجر اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہ عظیم ہے اسی طرح ایک اچھے نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب عظیم ہے، بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے۔ قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرمایا ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 8 میں ارشاد باری ہے: ترجمہ: ’’ایسے بن جاؤ کہ اللہ ( کے احکام کی پابندی) کے لیے ہر وقت تیار ہو (اور) انصاف کی گواہی دینے والے ہو۔‘‘ اور دوسری جگہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 135 میں ارشاد ہے: ترجمہ: ’’انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو۔‘‘ ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چھڑائیں، بلکہ اللہ کے لیے ادائیگی شہادت کے واسطے کھڑے ہو جائیں۔ تیسری جگہ سورۃ الطلاق کی آیت نمبر 2میں ارشاد ہے: ترجمہ:’’اور اللہ کی خاطر سیدھی سیدھی گواہی دو۔‘‘ ایک آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 283میں ارشاد ہے ترجمہ:’’اور گواہی کو مت چھپاؤ، اور جو گواہی کو چھپائے وہ گنہگار دل کا حامل ہے۔‘‘ ان تمام آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کر دیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چھڑائیں، بلکہ ضرور ادا کر ہیں۔ لہٰذا ہم سب پاکستانیوں کو 25جولائی کو ووٹ دینا ہے۔ یہ آپ کا مذہبی اور ملی فریضہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین