• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ یقینا ہماری بدقسمتی ہوگی اگر فوج اور عدالت عظمیٰ کے درمیان پیدا ہونے والے کچھاؤ میں اضافہ ہوا۔ اس تناؤ کے ماحول میں سب سے اہم ذمہ داری چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مضبوط کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ ماضی میں دونوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے میدانوں میں بڑی سمجھداری اور ذمہ داری سے چلتے ہیں اور ایسے اقدامات سے گریز کرتے ہیں جس سے جمہوری نظام غیر مستحکم یا ڈاوں ڈول ہو۔ ہمارے لیے دونوں شخصیات محترم ہیں مگر ان سے بھی زیادہ قابل احترام ان کے ادارے ہیں جو پاکستان کی خدمت اور مضبوطی کیلئے مصروف عمل ہیں۔
ملک کے لیے فوج کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں ہمارے ہزاروں فوجی افسر اور نوجوان شہید ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ کون پاکستانی ہے جو ان کی تعریف کیے بغیر رہ سکے۔ فوج پاکستان کی سالمیت اور وجود کی ضامن ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آئی ایس آئی بھی ہمارا قومی اثاثہ ہے۔ یہ خفیہ ادارہ دشمن کے خلاف ہر وقت خاموش جنگ لڑ رہا ہے اور جیت رہا ہے۔ کوئی پاکستانی ایسا نہیں جو ان اداروں کی قومی خدمات سے انکاری ہو۔ مگر ان کے چند جنرلوں جو سیاست میں یا دوسری غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہے جو بالکل بجا ہے۔ ایسے افسران کا محاسبہ ہونا چاہئے۔ فوج کو اس عمل کو بطور قومی ادارے کے نہیں لینا چاہئے کیونکہ یہ صرف چند افراد کے خلاف ہے نہ کہ پورے ادارے کے۔ قابل مزمت ہیں وہ لوگ جو چند مخصوص جنرلوں کے احتساب کو کھینچ کر فوج کو بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہزاروں اور لاکھوں افسران اور جوانوں کا ایسے جنرلوں کے اعمال سے کوئی واسطہ نہیں وہ تو وطن کے دفاع میں مگن و مشغول ہیں اور اپنی پیشہ وارانہ ڈیوٹی کو ہی اولین ترجیح دیتے ہیں۔ پرویزمشرف، مرزا اسلم بیگ، جاوید اشرف قاضی، اسد درانی، افضل مظفراور کچھ دوسرے جنرلز کی ان کے اقدامات کی وجہ سے بازپرس کرنا کسی طرح بھی فوج کو بدنام کرنا نہیں ہے اگر کچھ غیر ذمہ دار عناصر کسی ایسے فعل میں مبتلا ہیں تو بازپرس ضروری ہے۔ مگر جنرل کیانی کیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ان ایسے احتساب کے آغاز پر ہی کسی مہم پر نکل پڑیں۔جنرل پرویزمشرف، مراز اسلم بیگ اور اسد درانی کے کچھ اقدامات کو عدالت عظمیٰ غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دے چکی ہے۔
پرویزمشرف ملک سے باہر ہیں جبکہ اسلم بیگ اور اسد درانی ملک میں موجود ہیں مگر ان کا بھی غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے ٹرائل ممکن نہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا پاک فوج محترم ادارہ ہے جس کی جتنی بھی عزت کی جائے کم ہے مگر ان کا سابق جنرلوں کا دفاع نہ کرنے کا سوچیں جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ بلاشبہ فوج کی قربانیوں اور اس کی ملکی سالمیت میں بے مثال کردار پر دو آراء نہیں ہو سکتیں مگر جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا انصاف فراہم کرنے میں کردار کسی طرح بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ 2009ء کے بعد ایک بالکل نئی عدلیہ وجود میں آئی ہے جو صرف آئین اور قانون کی حکمرانی پر عمل پیرا ہے۔ اگر فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے دنیا میں پاکستان کا نام بلند کیا ہے (اگرچہ امریکہ اس کا کم ہی قائل ہے) تو موجودہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں نے بھی ملک کے نام کو بین الاقوامی سطح پر چار چاند لگا دیے ہیں۔ یہ ہمارا قومی اثاثہ بن گئی ہے اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ موجودہ سپریم کورٹ نے مشکل سے مشکل مسائل پر فیصلے دیے ہیں جن سے ماضی میں یہ ادارہ جان چھڑاتا رہا ہے۔ اس نے ایسے بڑے بڑے بادشاہ گروں کو بھی ہاتھ ڈالا ہے جو بلکہ دیدہ دلیری سے یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اپنے رستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ٹھوکر مار کر ہٹا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کو بھی نہیں بخشا جس سے ان کے گھر کا سکون بھی متاثر ہواہے۔ مزید یہ کہ وہ کام جو جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے فوج نہیں کرسکتی تھی عدالت عظمیٰ نے بخوبی کیا۔ وہ تھا حکومت کا احتساب ، کرپشن پر گرفت اور بری حکمرانی پر اقدامات۔ اگر موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ بھی متحرک اور بے خوف و خطر نہ ہوتی تو معلوم نہیں ملک کون سی تاریکیوں میں مزید ڈوب جاتا۔ لہٰذا اگر فوج ملک کی ہر طرح بہتری اور مضبوطی چاہتی ہے تو عدالت عظمیٰ بھی اس مقصد کے حصول کیلئے سرگرم ہے۔ اس طرح دونوں قومی اداروں کی منزل ایک ہی ہے لہٰذا انہیں چاہئے کہ ایک دوسرے کو مضبوط کریں۔ چیف جسٹس کی جو بات بہت سے لوگوں کو پسند نہیں وہ یہ ہے کہ کسی بھی آئینی اور قانونی مسئلہ پر آخر فیصلہ کن سپریم کورٹ ہی ہے۔بھلا اس میں کیا شبہ ہے۔ جو آئین اور قانون میں لکھا ہے اس پر عمل درآمد کرانا آخر عدالت کا ہی کام ہے۔ عدالت کا فیصلے کرنے کا اختیار بھی آئین اور قانون کے دائرے میں محدود ہے۔
دونوں چیفس کو چاہئے کہ وہ یہ تاثر زائل کریں کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ جنرل کیانی کے بیان کی ضرورت نہیں تھی۔ اچھا ہوتا اگر جسٹس افتخار چوہدری بھی اس بارے میں ریمارکس نہ دیتے۔
تازہ ترین