• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے اس بیان نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ کیا 1999 ء والے حالات پیدا ہو رہے ہیں ؟ وزیر اعظم نے اگلے روز بہاولپور میں نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ قومی احتساب بیورو ( نیب ) اپنے دائرے میں رہے ورنہ کارروائی کرینگے ۔ ‘‘ وزیر اعظم نے نیب پر اپنی برہمی کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ’’ حکومتیں عوام کے ووٹوں سے بنتی ہیں ، توڑتا کوئی اور ہے ۔ ‘‘ ان دونوں باتوں سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف ماضی کی طرح تصادم کی راہ پر گامزن ہیں اور انکے ذہن میں خدشات بھی ہیں ۔ وزیر اعظم کے اس بیان نے پورے ملک میں ایک ہیجان پیدا کر دیا ہے ۔
نیب ایک آئینی ادارہ ہے ۔ وزیر اعظم کو ایک اجتماع عام میں اس ادارے کے حوالے سے اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہئے تھی ۔ اگرچہ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے لیکن اسے کسی حد تک وزیر اعظم کے ماتحت ادارہ بھی قرار دیا جا سکتاہے کیونکہ وزیر اعظم ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نیب کے چیئرمین کا تقرر وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے کیا گیا ہے ۔ اگر وزیر اعظم کو نیب سے کوئی شکایت تھی تو انہیں اس شکایت کا تذکرہ سرعام نہیں کرنا چاہئے تھا بلکہ اس رازداری کے ساتھ معاملہ حل کرنا چاہئے تھا ، جو امور ریاست کاری کا تقاضا ہے ۔ ادارے شخصیت سے بڑے ہوتے ہیں ۔ ادارے بڑی مشکل سے بنتے ہیں ۔ قوموں کی ترقی میں ادارے ہی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ادارے قائم رہتے ہیں ۔ ادارے مضبوط ہوتے ہیں تو قومیں آگے بڑھتی ہیں ۔ بالفرض کوئی ادارہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی نظر میں صحیح کام نہیں کر رہا ہے تو اس کی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنا چاہئے ۔ اداروں میں بہتری لانے کیلئے ان پر سرعام تنقید کا طریقہ ٹھیک نہیں ہے ۔ نیب کی کارکردگی کو بہتر کرنے کیلئے اس پر نگراں کمیشن بنانے کا فیصلہ بھی غیر آئینی ہے ۔ عام تاثر یہ ہے کہ جب تک نیب سندھ میں کارروائیاں کر رہا تھا ، تب تک مسلم لیگ (ن) کی قیادت خاموش تھی۔ جب نیب نے پنجاب میں کارروائیاں شروع کیں تب سے وزیر اعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کے وفاقی اور صوبائی وزراء نیب کیخلاف اپنا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا یہ بیان اگرچہ کسی اور سیاق و سباق میں ہے لیکن نیب والے معاملے پر بھی صادق آتا ہے کہ ’’ جس کی دم پر پاؤں پڑتا ہے ، وہی چیختا ہے ۔ ‘‘ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے نیب اور دیگر اداروں کیخلاف باتیں کی جا رہی تھیں اور اب مسلم لیگ (ن) بھی پیپلز پارٹی کی ڈگر پر چل رہی ہے ۔ پنجاب کے ’’ کھری باتیں ‘‘ کرنیوالے وزیر رانا ثناء اللہ کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ ’’ اگر کسی کی خواہش پر کچھ کیا جائے گا تو ہم نہیں ہونے دینگے ‘‘ ۔ رانا ثناء اللہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ کس کی خواہش پر کیا ہو رہا ہے لیکن اس طرح کے بیانات سے ملک میں سیاسی بے چینی ضرور پیدا ہو رہی ہے ۔ زد میں آنے والے چند سیاست دانوں کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ احتساب کے اداروں کو استعمال کرکے جمہوریت پر وار کیا جا رہا ہے اور ان اداروں کی کارروائیوں سے سرمایہ ملک سے باہر جا رہا ہے ۔ یہ موقف بہت کمزور ہے ۔ جمہوریت جزا و سزا کا نظام ہے ۔ جمہوریت کی بنیاد احتساب ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری حکومتوں میں احتساب کے سارے ادارے کمزور ہو جاتے ہیں یا کردیئے جاتے ہیں ۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے ، جہاں سب سے زیادہ قانون سازی ہوتی ہے اور سب سے زیادہ احتساب کے قوانین اور ادارے ہیں ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیز اور اسٹینڈنگ کمیٹیز ، نیب ، ایف آئی اے ، وفاقی اور صوبائی محتسب کے ادارے ، بینکنگ اور ٹیکس محتسب وغیرہ کے ادارے ، صوبائی سطح پر چیف منسٹر انسپکشن ٹیم ، اینٹی کرپشن کے متعدد ادارے ، وفاقی اور صوبائی انٹیلی جنس کے ادارے سمیت احتساب کے اداروں کی طویل فہرست ہے ۔ لیکن نہ تو قوانین پر عمل درآمد ہوتا ہے اور نہ ہی احتساب کے اداروں کا کوئی فائدہ ہوتا ہے ۔ موجودہ سیاسی حکومتوں کے بارے میں عام لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ یہ کرپٹ ہیں اور ان کا انداز حکمرانی بہت خراب ہے ۔ لوگوں کو جمہوریت سے کوئی ریلیف نہیں ملا ہے ۔ غربت اوربے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ ملک بے تحاشا مقروض ہو گیا ہے ۔ موٹرویز ، میٹرو ، اورنج یا یلو لائن کے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر سارے فنڈز خرچ کئےجا رہے ہیں کیونکہ ان بڑے منصوبوں پر بڑا ’’ کک بیک ‘‘ ہوتا ہے ۔ تعلیم ، صحت ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور دیگر شہری سہولتوں جیسے سماجی شعبوں کو نظرانداز کر دیاگیا ہے ۔ کسی بھی سیاسی حکومت نے کبھی بھی اپنے اس وزیر ، مشیر یا رکن اسمبلی کو نہیں ہٹایا ہے ، جسکے بارے میں کرپٹ ہونے کا تاثر ہے ۔ سنگین جرائم اور کرپشن کے کیسز کو دبا دیا جاتا ہے ۔ احتساب پر تنقید دراصل کرپٹ لوگوں کو بچانا ہے۔ دوسری طرف لوٹ مار کا سارا پیسہ ملک سے باہر بھیجا جا رہا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ احتساب کے ادارے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں حالانکہ یہ جواز درست نہیں ہے ۔ دنیا میں سرمایہ وہاں آتا ہے ، جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور کرپشن نہیں ہوتی ۔ہمارا سرمایہ بھی ایسے ہی ملکوں میں جا رہا ہے ۔ احتساب کے اداروں کو جتنا کمزور کیا جائے گا ، سرمایہ اتنا ہی باہر جائے گا ۔ جو لوگ اپنا سرمایہ باہر لے کر جا رہے ہیں ، وہ ہرگز محب وطن نہیں ہیں ۔ ان کے ساتھ قوم کو کسی قسم کی ہمدردی نہیں ہے ۔ احتساب کے اداروں کے خلاف وہ افراد باتیں کر رہے ہیں ، جو اپنی بے قاعدگیوں اور لوٹ مار کی وجہ سے احتساب کی زد میں آتے ہیں ۔ ایسے غیر محب وطن لوگوں کی وجہ سے احتساب کے ادارے ختم نہیں کئے جا سکتے ۔ احتساب ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کا راستہ دیتا ہے۔
نیب اس لئے زیادہ سرگرم ہو گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے طویل عرصے سے زیر التواء میگا کرپشن کیسز 31 مارچ تک نمٹانے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت بعض دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ کسی کے اشارے پر ہو رہا ہے ۔ وہ کھل کر اگرچہ نام نہیں لے رہے لیکن ان کا اشارہ جس طرف ہے اسکا اندازہ سب کو ہے( جو غلط ہے) ۔ دہشت گردی کیخلاف آپریشن میں حالیہ کامیابیوں کے بعد پاکستان کے عوام نے فوج سے یہ توقعات وابستہ کر لی ہیں کہ وہ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کرپشن کا بھی خاتمہ کرے گی ۔
ممکن ہے کہ ماضی میں غیر جمہوری قوتوں نے احتساب کے ہتھیار کو سیاسی قوتوں کے خلاف استعمال کیا ہو لیکن پہلی مرتبہ پاکستان کے عوام سیاسی قوتوں سے مکمل طور پر مایوس ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی حکومتیں کرپشن کو روکنے میں نہ صرف ناکام رہی ہیں بلکہ کرپشن میں شامل بھی ہیں اور سر پرستی کر رہی ہیں ۔ فرض کریں کہ کرپشن کے خلاف یہ کارروائیاں کسی کی خواہش پر کی بھی جا رہی ہیں تو بھی ان کارروائیوں کو بنیاد بنا کر سیاسی حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان تصادم یا جنگ کا تاثر پیدا نہ کیا جائے ۔ اگر سیاست دان ریاستی اداروں کے ساتھ لڑیں گے تو عوام ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف حالیہ کارروائیوں پر لوگ فوج ، رینجرز ، نیب اور ایف آئی اے سے خوش ہیں ۔ عوام تو یہ چاہتے ہیں کہ یہ کارروائیاں مزید تیز کی جائیں ۔ قوم یہ بھی چاہتی ہے کہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہو لیکن سیاست دان کرپشن ، خراب حکمرانی اور نااہلی کی وجہ سے دوسروں کو موقع دیں تو قوم کیا کریگی ۔ NAB کو متنازع بنانے والے ریاست کو کمزور کر رہے ہیں۔موجودہ حکمرانوں سے1999ء میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوئی تھی ۔ اس سے پہلے 1993ء میں بھی ایسے ہی حالات تھے ۔ پاکستان کے عوام نے جمہوریت کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں اور ملک میں جمہوریت کے پنپنے کیلئے حالات پیدا کئے ہیں ۔ اب ’’سانپ سیڑھی والا کھیل ‘‘ نہ کھیلا جائے اور 2016ء میں لوگوں کو واپس 1999ءیا 1993ء کی طرف نہ دھکیلا جائے۔
غیرممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہلِ دانش نے بہت سوچ کہ الجھائی ہے
تازہ ترین