• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وسطی پنجاب سیاسی اور معاشی حوالے سے پاکستان کا سب سے زرخیز خطہٴ زمین ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ خطہ ہر دور میں خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پاکستانی سیاست پر غور کیا جائے تو شروع سے یہ جاگیردارانہ تسلط کا شکار رہی ہے۔ معیشت پسماندہ اور جاگیردارانہ تھی۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا تعلق بنیادی طور پر جاگیرداروں سے ہی تھا اس لئے یہی طبقہ اقتدار پر بھی قابض رہا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیم کے فروغ کو قومی ترجیحات میں ہمیشہ نیچے رکھا گیا تا کہ عوام کو جدید زندگی کا شعور نہ ہو سکے اور نہ ہی وہ جدید نظام معیشت و معاشرت سے واقف ہو سکیں۔
مزید برآں یہ کوشش بھی کی گئی کہ لوگ لگے بندھے اور دقیانوسی رستوں پر ہی چلتے رہیں کیوں کہ اسی میں حکمران طبقے کا مفاد تھا۔ یہ لوگ ریاست کی جدید شکل سے بہت خوفزدہ تھے کیوں کہ اس میں انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی، معاشی مساوات اور اداروں کے استحکام پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ تمام عوامل اس طبقے کے پسندیدہ نظام اور حاکمیت کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ جدید تعلیم کے نتیجے میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کا رستہ روکا جائے۔ اقتدار میں شریک طبقوں کے تین بڑے مراکز لاڑکانہ، ملتان اور مردان ملکی سیاست کے تمام فیصلوں پر اثرانداز ہوتے تھے۔ یہ علاقے بڑے رقبوں، افرادی طاقت اور پیری فقیری کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔ یہاں کے بڑے جاگیردار چھوٹے زمینداروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے تھے اور جاگیری طبقات میں شامل گدی نشین اپنی عوام کا استحصال کرتے تھے تاہم وقت کی رفتار کے ساتھ آہستہ آہستہ درمیانے اور متوسط طبقے نے، جو صنعت اور تجارت کے ساتھ وابستہ تھا، دو اہم جگہوں کراچی اور وسطی پنجاب میں اپنی معاشی طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی اہمیت کو منوانا شروع کر دیا۔
یہ طبقہ فطری طور پر جدید رجحانات کا حامل تھا، عدالت اس کی ضرورت تھی، قانون کی بالا دستی اس کے مفاد میں تھی کیوں کہ پرامن ماحول اس کی کاروباری ضروریات کے لئے ازحد لازم تھا۔ بدقسمتی سے کراچی، جو ہر اعتبار سے پاکستان کا نمائندہ شہر تھا لیکن اب نئی سوچ کے حامل لوگوں کے لئے وسطی پنجاب مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ وسطی پنجاب میں تقریباً دو عشرے قبل جدید رجحانات کی نمائندگی کرنے والی ایک نئی سیاسی طاقت کا ظہور ہوا جسے ہم سب مسلم لیگ (ن) کے نام سے جانتے ہیں۔ اس جماعت کے منشور میں روزگار، انصاف، صنعتوں کا پھیلاؤ، اعلیٰ پیشہ وارانہ تعلیم اور جدید انفرا سٹرکچر شامل تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو نہ صرف نئے زمانے کی سہولتیں میسر ہوئیں بلکہ کاروبار کے مواقع بھی پیدا ہوئے اور ہر انسان کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرنے کا موقع ملا۔ وسطی پنجاب کا یہ طبقہ آہستہ آہستہ ایک ایسے انجن کی صورت اختیار کر رہا تھا جو پورے پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکے۔ کیوں کہ اس طرح کی ترقی پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی شروع ہو گئی تھی۔ بدقسمتی سے وقت کے دھارے کو پیچھے کی طرف دھکیلنے والی قوتوں کو ترقی اور خوشحالی کا یہ سفر ایک آنکھ نہ بھایا اور ایک بار پھر غیر نمائندہ اور آمرانہ حکومت کے ذریعے اس سارے نظام کی بساط لپیٹ دی گئی۔ لیکن پاکستانی عوام نے، جو اپنے جمہوری مزاج اور لبرل سوچ سے گہری وابستگی رکھتے ہیں، اس غیر جمہوری انتظام پر اپنی ناپسندیدگی کی مہر لگا کر ہمیشہ کے لئے مسترد کر دیا۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ پچھلے تقریباً پانچ سال میں نامساعد حالات کے باوجود دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے جمہوری نظام کو جاری رکھنے اور اس کے تسلسل پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے سے اپنی سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا ہے جس کے سبب پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب سیاسی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہیں۔ دوسری طرف عوام دشمن اور غاصبانہ ذہن رکھنے والی قوتوں نے بھی اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھیں تا کہ سیاست پر عوامی سوچ اور مفاد کے غلبے کو روکا جا سکے۔ چونکہ نئے انتخابات مستقبل قریب میں کسی وقت بھی متوقع ہیں لہٰذا موقع پرستوں نے ان کے نتائج پر اثرانداز ہونے کے لئے اپنی روایتی جوڑ توڑ اور پس پردہ سازشوں کا سلسلہ بھی تیز تر کر دیا ہے جس کی چاپ نئے صوبوں کے قیام کا نعرہ، نئے سیاسی گٹھ جوڑ اور وسطی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کو کم کرنے اور جمہوری ارتقاء کو پس پشت ڈالنے کے لئے ”گملا سیاست“ کی بھی سرپرستی کی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوری اور سیاسی سوچ کے منافی ان سازشی عناصر کو پوری طرح بے نقاب کیا جائے تا کہ عوام کسی کنفیوژن کا شکار نہ ہوں اور ان کا فیصلہ اس ملک کی تقدیر بدلنے اور ترقی کا سفر جاری رکھنے میں معاون ہو سکے۔
تازہ ترین