• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقوام متحدہ کے چھٹے سیکرٹری جنرل بطروس غالی 15فروری کو 93برس کی عمر میں اپنے آبائی شہر قاہرہ میں انتقال کرگئے۔ مصر کے ایک معزز عیسائی گھرانے میں جنم لینے والے بطروس غالی تعلیم مکمل کرکے تدریس میں آگئے اور 28برس تک مختلف ملکی اور غیر ملکی جامعات میں پڑھایا۔ موصوف کم و بیش درجن بھر اعلیٰ پائے کی کتب کے مصنف ہیں اور بین الاقوامی امور پر آپ کے ریسرچ آرٹیکلز کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ 1977ءمیں تدریس چھوڑی، تو صدر انوارالسادات نے امور خارجہ کے نائب وزیر کے طور پر کابینہ میں لے لیا، اور عرب، اسرائیل تنائو کے خاتمے کیلئے صدر سادات کی جدوجہد کا حصہ رہے۔ 19نومبر 1977ءکو یروشلم میں اسرائیلی وزیراعظم سے مصری صدر کی متنازع ملاقات میں بطروس غالی بنفس نفیس موجود تھے اور اگلے برس کیمپ ڈیوڈ کی سربراہی کانفرنس میں بھی مصری وفد کا حصہ تھے۔ اسرائیل کیساتھ مفاہمت کی ان کوششوں میں شامل رہنے کے باوجود پیس پروسیس کے حوالے سے بطروس غالی کے اپنے تحفظات تھے۔ بعد میں جس کا ذکر انہوں نے مختلف مواقع پر کیا۔ خاص طور موصوف اسرائیل کے جارحانہ رویئے سے شاکی تھے، جس میں رعونت ہی رعونت تھی اور مفاہمت کا عنصر یکسر ناپید تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے بے سروپا مطالبات کے علی الرغم صدر سادات کا رویہ بھی ان کیلئے ناقابل فہم تھا، جنہوں نے وزیراعظم بیگن کے مطالبات کو ناجائز سمجھنے کے باوجود احتجاج نہیں کیا۔ انہیں عربوں کے رویئے سے بھی شکایت تھی جنہوں نے سمجھے بوجھے بغیر پیس پروسیس کو رد کر دیا۔ موصوف کو صدر سادات سے یہ گلہ بھی تھا کہ وہ اپنی مذاکراتی ٹیم کو مناسب اہمیت نہیں دیتے اور اس کی آراء کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ پیس پروسیس کے حوالے سے بطروس غالی کا نقطہ نظر ایک طرح کا اختلافی نوٹ (Note of Dissent) ہے۔ انکے نزدیک ’’فلسطینیوں کو اعتماد میں لئے بغیر خطے میں قیام امن کا سوچا بھی نہیں جا سکتا اور ان کے حقوق کی ضمانت دیئے بغیر امن کا کوئی معاہدہ بھی دیرپا ثابت نہیں ہوگا۔‘‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام تر وضاحتوں کے باوجود پیس پروسیس کا حصہ ہونے کے جرم میں عرب دنیا نے بطروس غالی کو کبھی معاف نہیں کیا اور ان کے کردار پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہیں۔کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر بطروس غالی کچھ زیادہ کامیاب نہیں تھے۔ 1991ءمیں موصوف نے جب یہ منصب سنبھالا تو دنیا ایک عبوری دور سے گزر رہی تھی۔ سرد جنگ ختم ہو چکی تھی۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر سامنے آیا تھا ایسے میں بطروس غالی نے اقوام متحدہ میں ریفامز کی بات کی، تو بعض پیشانیوں پر بل آنا عین فطری تھا۔ وہ یوگوسلاویہ کی شکست و ریخت کا زمانہ تھا۔ بطروس غالی کی سوچ یہ تھی کہ مسئلہ کی گمبھیرتاکے پیش نظر روایتی قسم کے امن دستوں سے کام نہیں چلے گا۔ اس کیلئے امن کا ایک نیاایجنڈا درکار ہوگا۔ جس میں پیس کیپنگ کیساتھ ساتھ انسدادی سفارت کاری Preventive diplomacy اور تعمیر امن Peace bnilding کی طرف جانا ہوگا۔ اس کے بعد ڈویلپمنٹ اور جمہوری عمل کی باری آئیگی۔ مگر امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کو امن کا یہ ایجنڈا قبول نہ تھا۔ صدر بل کلنٹن نے اس ضمن میں کہا تھا کہ مسلح بغاوتیں تو جگہ جگہ ہو رہی ہیں۔ جن سے نمٹنے کیلئے امن کا یہ کثیر الجہت ایجنڈا قریب قریب ناقابل عمل ہے۔ مغرب سے مایوس ہو کر بطروس غالی نے ترقی پذیر دنیا کے ساتھ سلسلہ جنباتی کیا، مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور موصوف کو اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنے مشن میں ناکام ہوگئے ہیں۔ بطروس غالی پر الزامات کی فہرست بھی طویل ہے۔ کہا گیا کہ وہ روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کے حوالے سے مثبت کردار دا نہ کر سکے اور دس لاکھ کے لگ بھگ بدنصیب جان کی بازی ہارگئے۔ اور یہ کہ انگولا کی خانہ جنگی میں بھی اقوام متحدہ ناکام رہی۔ یہ بھی کہا گیاکہ صومالیہ کے بدترین قحط کے دنوں میں بھی وہ متاثرین کی قابل ذکر مدد نہ کر سکے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایک طرف الزامات کی بھرمار ہے تو دوسری طرف ان کا دفاع کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ صومالیہ کے قحط زدگان کیلئے اقوام متحدہ کے ریلیف پروگرام کا ذکر متعدد ورلڈ فورمز پر سننے میں آچکا ہے۔ اقوام متحدہ کے انتظامی امور کی اصلاح کے پروگرام نے بھی بطروس غالی کو ’’ناپسندیدہ شخصیت‘‘ بنانے میں کردار ادا کیا۔ بطروس غالی کی بدقسمتی یہ بھی رہی کہ بعض مغربی جغادریوں کے نزدیک اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر ایک ’’افریقی پروفیسر‘‘ کا تقرر بذات خود اچنبھے کی بات تھی۔ موصوف کی سادگی اور لو پروفائل شخصیت کو خوبی کی بجائے خامی گردانا گیا۔ اور برملا کہا گیا کہ یہ تقرر میرٹ پر نہیں بلکہ براعظم افریقہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ہوا ہے۔ بعض کا خیال تھا کہ 69 برس کے اس مصری پروفیسر کی حیثیت کیئرٹیکر قسم کے سیکرٹری جنرل کی ہے۔ جو دن پورے کر کے چلا جائیگا اور نئی سوچ اور تبدیلی کی بات نہیں کرے گا۔ وقت نے ثابت کیا کہ ان کے نقاد غلط انداز ے لگا رہے تھے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ میں بطروس غالی کے دوستوں کی تعداد کم ہو نہ ہو، ان کی آواز زیادہ موثر نہیں تھی۔ تمام تر انحصار امریکہ کے چشم ابرو پر تھا۔ جس کا مظاہرہ 1996 میں اس وقت ہوا جب موصوف عہدے کی دوسری ٹرم کیلئے نامزد ہوئے اور امریکہ نے ویٹو کردیا۔ جس پر بطروس غالی نے کہا تھاکہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ امریکہ نے ایک بارپھر ثابت کر دیاکہ وہ محض طاقت پر یقین رکھتا ہے، سفارت کاری کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا کی جیل سے رہائی میں بطروس غالی کا اہم کردار تھا۔ مصر کے نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے موصوف دو برس تک جنوبی افریقہ کی حکومت کے ساتھ نسل پرستی کے خاتمے اور منڈیلا کی رہائی کے حوالے سے خفیہ مذاکرات کرتے رہے۔ اس معاملے میں مصر کے اثر و رسوخ کی وجہ یہ تھی کہ قاہرہ برسوں سے نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کی مالی معاونت کرتا آیا تھا۔ نیلسن منڈیلا کی رہائی اور نسل پرستی کے خاتمہ میں بطروس غالی کے کردار کی اہمیت کا اندازہ اس امرسے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی موصوف کی اس کاوش کو سراہا لطف کی بات یہ ہے کہ اپنی اس کامیابی کا کریڈٹ بطروس غالی نے کبھی نہیں لیا اور منڈیلا نے بھی موصوف کے احسان کی حفاظت ایک مقدس راز کی طرح کی۔
تازہ ترین