• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے بیان کے ذریعے میڈیا کو اپنے خیالات پہنچا دیے کہ انہیں ہم سے کیا شکایت ہے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اصل مرض کو پکڑنے اور اس کے علاج کے لیے کچھ کرتے۔ پہلی بات تو یہ کہ بہتر ہوتا کہ میڈیا میں ایسے افراد جو فوج میں دراڑیں ڈال رہے ہیں اور جن کے تبصرے اور سازشی تھیوریاں دفاعی افواج کو بدنام اور اسکینڈلائز کرنے کی کوشش ہے اُن کو بے نقاب کیا جاتا کیوں کہ کچھ تبصرہ کرنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جن میڈیا والوں کو آرمی اور آئی ایس آئی نے ماضی میں پال پوس کر بڑا کیا وہی اب ان کے گلے پڑ رہے ہیں۔ نجانے اس میں کتنی سچائی ہے مگر آرمی چیف کے لیے مناسب تھاکہ میڈیا سے متعلق اپنی جائز شکایات کے لیے حکومت سے رابطہ کرتے کیوں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس میں میڈیا سے زیادہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا میں کچھ لوگوں نے خود یا کسی دوسرے کو اپنے ٹاک شوز میں بٹھا کر پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کو کوشش کی اور اُن حدوں کو پار کیا جن کو پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت پار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ انہی حربوں کو استعمال کر کے کیا ہم نے میڈیا پر نہیں دیکھا کی کس طرح اعلٰی عدلیہ کے ججوں خصوصاً چیف جسٹس کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔ بلکہ ایک کے بعد ایک ٹاک شوز میں ایسے کرداروں کو بار بار بلایا گیا اور ایسی ایسی باتیں عدلیہ اور ججوں کے بارے میں کی گئیں جو کسی عام شخص کے متعلق بھی نہیں کی جا سکتی تھیں۔ مگر یہ سب کچھ ہوا، بار بار ہوا اور بلا روک ٹوک ہوا اوراس حقیقت کے باوجود ہوا کہ عدلیہ اور ججوں کے بارے میں قانونی طور پر کوئی اس نوعیت کی بات میڈیا میں نشر یا شائع نہیں ہو سکتی۔میڈیا نے کچھ اسی نوعیت کی حدیں عریانیت اور فحاشی کو پھیلانے میں پار کیں مگر یہاں بھی کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ جنرل کیانی کو یاد ہو نہ ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ انڈیا کے کلچر کے پاکستان میں فروغ پر آرمی کو خود شدید اعتراض تھا اور اسی وجہ سے پیمرا اور وزارت اطلاعات کو گزشتہ سالوں میں تین خطوط بھی لکھے مگر اس کا بھی متعلقہ اداروں پر کوئی اثر نہ ہوا۔
یہاں مسئلہ صرف میڈیا کا نہیں۔ اصل مرض اُن حکومتی اداروں کا ہے جن پر آئین اور قانون یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ میڈیا کو ان حدوں کے اندر محدود رکھیں جن کا تعین پارلیمنٹ اور عدلیہ کر چکی۔ فحاشی کے متعلق پہلے بہت لکھا جا چکا اور یہ بھی واضح ہو چکا کہ پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت فحاشی کا فروغ جرم ہے اورپیمرا کی یہ ذمہ داری ہے کہ ٹی وی چینلز میں ایسے تمام مواد کو روکے جو ہمارے معاشرتی اور مذہبی اقدار کے خلاف ہو۔ ہمارے آئین کے مطابق دو ریاستی اداروں جن میں عدلیہ اور افواج پاکستان شامل ہیں کو بدنام نہیں کیا جا سکتا ۔ آئین کا
آرٹیکل 19 آزادی رائے کی ضمانت دیتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ آزادی رائے کو اس بات سے مشروط کرتا ہے کہ اسلام کی عظمت یا پاکستان کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی، دفاع ، توہین عدالت وغیرہ کے بارے میں قانونی طور پر مقرر کی گئی حدوں کو پھلانگا نہیں جائے گا۔پیمرا کے قوانین کے مطابق نہ تو عدلیہ کو بدنام کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستانی افواج کے بارے میں کوئی منفی پروپیگنڈہ کیا جا سکتا ہے۔
اب میرا جنرل کیانی سے سوال ہے کہ جب ّآئین واضح ہے، جب قانون میں کوئی کمی نہیں، جب متعلقہ سرکاری ادرے ان قوانین کی عملداری کے لیے موجود ہیں تو اس سب کے باوجود کیا گلہ میڈیا سے بنتا ہے؟؟ میڈیا کو اگر ریگولیٹ نہیں کیا جائے گا تو پھر وہی کچھ ہو گا جس کا ہم سب کو سامنا ہے۔ اگر میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے اداروں کوحکومتیں آزادی اور خود مختاری سے محروم رکھیں گی تا کہ ان اداروں کو برسراقتدار شخصیات اور سیاسی جماعتوں کے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے تو پھر میڈیا میں بھی جس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گا اور اس سے یقیناً ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ صحافت جیسے مقدس پیشہ کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ اس تناظر میں بہتر یہ ہوتا کہ آرمی چیف حکومت سے بات کرتے جس کی کمزوری کی وجہ سے صحافت کا ایسا روپ سامنے آرہا ہے جو معاشرے کو بہتر بنانے کی بجائے تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ جنرل کیانیسے گزارش ہے کہ مرض کی علامات کا پیچھا کرنے کی بجائے اصل بیماری کو پکڑ کر اس کے علاج کو کوشش کریں۔
تازہ ترین