• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ بُرا نہ منائیں تو میں ایک بات کہوں … اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا وہ صاحب جھٹ سے بول اُٹھے کہ آپ کا میڈیا بہت غیرذمہ دار ہے ۔ آپ کا میڈیا وہ سب کچھ دکھاتا ہے اور وہ سب کچھ شائع کرتا ہے، جس کی قطعی کوئی ضرورت نہیں اور وہ سب کچھ نہ شائع کرتا ہے اور نہ دکھاتا ہے جسے شائع کرنا اور دکھانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ صاحب لاہور میں رہتے ہیں اور میرے ایک دوست کے ماموں ہیں اور میں ان صاحب کے ہمراہ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا اپنے دوست کا انتظار کر رہا تھا جو میرے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا۔ میرے دوست کے ماموں نے انسانی حقوق کے حوالے سے ایک این جی او بنا رکھی ہے اور اس کیلئے کام کرتے ہیں ۔ میں اس وقت ذہن میں اپنی ایک میٹنگ کا خاکہ بنا رہا تھا اور کسی قسم کی بحث میں اُلجھنے یا کسی بھی چیز کا دفاع کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان صاحب کے ڈرائنگ کی دیوار پر جو ایک ببر شیر کی کھال لٹک رہی تھی میں نے ان کے سامنے اس کی کوئی تعریف یا ذکر نہیں کیا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ اگر مجھ سے یہ غلطی ہوگئی تو یہ صاحب اس شیر کے شکار کا پورا قصہ سنا دیں گے اور میں نے پہلے بتایا ہے کہ میں ذہنی طور پر ایسی کسی بحث یا قصے کے لئے تیار نہ تھا۔ اس لئے ان صاحب کی میڈیا پر تنقید کے حوالے سے صرف اتنا ہی جواب دیا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، میڈیا میں کچھ ایسے عناصر ہیں جو واقعی غیرذمہ دار ہیں لیکن وہ میرے اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے میڈیا کے حوالے سے ایک لمبا چوڑا لیکچر دے دیا لیکن ان کی باتوں سے معلوم ہوا کہ ان کی میڈیا سے اصل ناراضگی اس لئے ہے کہ ان کی این جی او جو انسانی حقوق کے حوالے سے کام کر رہی ہے اس کی خبریں اخبارات شائع نہیں کر رہے اور ان کی ایک پریس کانفرنس میں سارے ٹی وی چینلز نہیں آئے اور جو آئے بھی تھے انہوں نے ان کی پریس کانفرنس کی کوریج نہیں دکھائی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی پریس کانفرنس میں پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کتنے اعداد و شمار تھے اور پھر وہ اُٹھے اور انہوں نے قریبی میز کی دراز سے ایک خوبصورت پرنٹ شدہ پمفلٹ نکالا اور میرے سامنے رکھ دیا، جس میں ان کی این جی او کے نام کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تفصیلات لکھی تھیں اور اس پمفلٹ پر ایک تصویر بھی پرنٹ تھی ، جس میں ایک خاتون نے پلے کارڈ اُٹھا رکھا تھا اور اس پر لکھا تھا”انسانیت کی قدر کریں“ میں نے ان کے کام کی ڈرتے ڈرتے تعریف کی کہ کہیں وہ کسی دوسرے دراز سے مزید پمفلٹ یا اخبارات کے تراشے نہ نکال لائیں ۔ لیکن انہوں نے پمفلٹ کو ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے مجھے بتانا شروع کیا کہ گورے کس طرح نہ صرف انسانی حقوق بلکہ جانوروں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور پھر اُنہوں نے بڑے متاثرکن انداز میں مجھے گوروں کے حوالے سے کتے اور بلیوں کے لئے ان کی تڑپ کے چند قصے بھی سُنا ڈالے کہ میں نے گھڑی پر نظرڈالی اور اپنے دوست کا نام لیتے ہوئے کہاکہ اس نے بڑی دیر لگا دی ہے ان صاحب نے وہیں بیٹھے بیٹھے وہاں سے آواز لگائی ۔
کالے … اوئے کالے…کہ ساتھ ہی ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ اندر داخل ہوا ۔ بچے نے اپنی جسامت سے چھوٹی شرٹ اور پینٹ پہن رکھی تھی جس کی وجہ سے اس کاپیٹ اور کولہے کی ہڈیاں ننگی ہورہی تھیں ۔ بے ترتیبے بال بڑھے ہوئے تھے۔ صاحب نے اس بچے کو دیکھتے ہی پنجابی زبان میں اس سے پوچھا کہ دیکھو بھائی جان تیارہوگیا ہے۔ بچہ بھاگتا گیا اور واپس آکے بتایا کہ وہ ابھی نہا رہے ہیں ۔ صاحب نے دوبارہ بچے کو حکم دیا کہ اس کو کہو کہ جلدی کرے علی صاحب انتظار کر رہے ہیں۔ وہ بچہ اُلٹے پاؤں واپس جانے لگا تو میرے دوست کے ماموں نے اسے ڈانتے ہوئے کہاکہ ہر وقت بھاگنے کی لگی رہتی ہے، بات تو پوری سُنا کر … جلدی سے صاحب کے لئے ایک کپ چائے لیکر آؤ… ھڈ حرام نہ ہو تو ہر وقت کھیلنے میں لگا رہتا ہے۔ بچہ…! اچھا صاحب میں کہہ کر چلا گیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس بچے کا اصل نام کیا ہے تو انہوں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ہم سارے گھر والے اسکو کالا ہی کہتے ہیں اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کھیلنے کا بڑا شوقین ہے ہر وقت کھیلنے میں لگا رہتا ہے۔ میں نے کہا بچہ جو ہوا… میں نے پھر پوچھا کہ اس بچے کو آپ تنخواہ وغیرہ بھی دیتے ہونگے تو وہ صاحب جھٹ سے بولے اوجی تنخواہ کیا دینی ہے اپنے گھر کا بچہ ہے ، اس بچے کا دادا ،پردادا بلکہ کئی پشتوں سے ہمارے گاؤں میں ہمارے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اس بچے کو میری بیوی اپنے ساتھ لاہور لے آئی تھی کہ شہر میں کھائے گا، پئے گا تو اسے بھی دنیا کا پتہ چلے گا۔کپڑے وغیرہ کھانا پینا رہائش سب ہماری ذمہ داری ہے اور آپ اسکو بچہ نہ سمجھیں جی… یہ ایک وقت میں دو آدمیوں کا کھانا کھاتا ہے۔ ابھی وہ بات کر ہی رہے تھے کہ موبائل کی گھنٹی نے انکی توجہ فون کی طرف کرالی اور انہیں شاید اس کال کا انتظار تھا۔ انہوں نے فون اٹھایا… دیکھا اور فون کی طرف اشارہ کرکے کہا… میاں صاحب اور فون اٹھا کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔ کالا (بچہ) چائے کا کپ لیکر داخل ہوا میرے سامنے رکھا اور تقریباً بھاگتے ہوئے واپس چلا گیا اور میں سوچنے لگا کہ ہم انسانی حقوق پر بات کرنے ،کتے اور بلیوں کے حقوق کے قصے بیان کرنے والے اس بچے کو اس کا اصل نام دینے تک تیار نہیں ، کھیلنے کودنے کی اس کی عمر میں اسکے کھیلنے کو برا سمجھتے ہیں ، اپنے بچوں کی اترن اسے پہنا کر سمجھتے ہیں کہ یہی اس کی تنخواہ ہے …!اور پھر ہم نعرہ بھی لگاتے ہیں کہ”انسانیت کی قدر کرو“۔
تازہ ترین