• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی تجزیات کی بنیاد امکانات پر ہوتی ہے اور امکانات کے بدلتے ہی نتائج بھی بدل جاتے ہیں۔ انتخابات کے قریب ہمیشہ ایک لہر پیدا ہوتی اور چلتی ہے اور وہی لہر انتخابی نتائج کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ انتخابات میں تین ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن وہ لہر ابھی تک ابھری نہیں اور رائے دہندگان کی نیم سردمہری بھی دیدنی ہے۔ اس سرد مہری کو آپ مایوسی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ رائے عامہ کی اکثریت انتخابات کے نتیجے میں کسی بہتری یا تبدیلی کی توقع نہیں رکھتی۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاسی منظر پر موجود سیاسی پارٹیوں میں سے کوئی جماعت بھی پاکستان میں بڑی تبدیلی لانے کی اہل نہیں۔ نتیجے کے طور پر انتخابات کے حوالے سے عام لوگوں میں نہ جوش وخروش دیکھنے میں آرہا ہے اور نہ ہی وہ دلچسپی جو گزشتہ انتخابات کا نمایاں پہلو ہوتی تھی۔ اس صورتحال کی وجہ وہ پروپیگنڈہ بھی ہے جس نے منظم انداز سے ہوائی یا خلائی مخلوق کے کردار کے حوالے سے ایک گہرا تاثر پیدا کردیا ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران مجھے دیہی اور شہری حلقوں میں جانے اور لوگوں کے تاثرات جاننے کا موقع ملا تو مجھے محسوس ہوا کہ عوام کے کچھ حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ خلائی مخلوق انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوگی اس لئے ہمارے ووٹوں سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ شہری حلقوں میں اس تاثر کے سایے ہلکےتھے جبکہ رورل ایریا یعنی دیہی رائے عامہ میں اس تاثر کے سایے قدرے گہرے تھے جن سے ووٹ ڈالنے کی خواہش بھی متاثر ہوتی نظر آئی۔ ایک عجیب تضاد دیکھنے کو ملا۔ لوگوں کو یقین تھا کہ انتخابات فری اینڈ فیئر ہوں گے لیکن یہ بھی خدشہ موجود تھا کہ خلائی مخلوق نتائج پر اثر انداز ہوگی۔اس تاثر کا اظہار مسلم لیگ(ن) کے ووٹروں نے زیادہ کیا اور دوسروں نے کم۔ اس میں شبہ نہیں کہ مسلم لیگ کا ووٹ بینک مضبوط ہے لیکن میں نے دیہی علاقوں میں خاص طور پر ہوا کا رخ تحریک انصاف کے حق میں دیکھا۔ یہ یاد رکھیں کہ میں اس وقت موجود امکانات کا ذکر کررہا ہوں جو کسی بھی صورتحال یا پیش رفت سے بدل سکتے ہیں جس طرح طوفانی بارشوں نے مسلم لیگ(ن) کے طویل دور حکومت کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے اور لاہور کے کچھ حلقوں میں ہوا ان کے خلاف چلنی شروع ہوگئی ہے۔ اس طرح کی زمینی یا آسمانی آفات ہوا کا رخ بدل سکتی ہیں ماسوا ان ووٹروں کے جنہیں آپ پکے ووٹر کہتے ہیں اور جو ہر صورت کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اگلے دو ہفتوں میں کوئی غیر معمولی پیش رفت نہ ہوئی تو عوام کی عدم دلچسپی قائم رہے گی، ووٹ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں قدرے کم کاسٹ کئے جائیں گے اور عمومی طور پر پنجاب میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہی ہوگا۔ دوسری سیاسی و انتخابی قوتیں محض ووٹ تقسیم کریں گی اور کہیں مسلم لیگ(ن) تو کہیں تحریک انصاف کی ٹانگ کھینچیں گی۔ میں کسی غیر معمولی پیش رفت (Development)کی بات کرتا ہوں تو اس میں سرفہرست ایون فیلڈ یعنی میاں صاحب کے لندنی اپارٹمنٹس کا فیصلہ ہے جو آج سنایا جائے گا۔ وکلاء حضرات اس میں سزا کی پیش گوئی کررہے ہیں جس کا بہرحال ردعمل ہوگا۔ سڑکوں پر تو شاید احتجاج اس قدر نہ ہو جس پر قابو نہ پایا جاسکے لیکن یہ فیصلہ رائے عامہ کی لہر کا رخ موڑنے میں اہم کردار سرانجام دے گا۔ برادرم سہیل وڑائچ کے الفاظ میں لسی پی کر سست رہنے والے پنجاب کے لوگ نرم دل واقع ہوئے ہیں اور ان میں ہمدردی کسی لمحے بھی بیدار ہو کر ہوا کا رخ موڑ سکتی ہے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی تو میںنے سب سے زیادہ احتجاج پنجاب کے شہروں اور سب سے زیادہ سوگ پنجاب کے دیہات میں دیکھا۔خود سوزی کے واقعات بھی دیکھے اور سینہ کوبی کے مناظر بھی دیکھے۔ اس بار یہ مناظر تو دہرائے نہیں جائیں گے لیکن انتخابی ہوا پنجاب کی حد تک مسلم لیگ(ن) کے حق میں چل سکتی ہے اور لگائے گئے الزامات کی سیاہی بھی دھو سکتی ہے۔
رہی پارلیمنٹ تو آج کے سیاسی آئینے میں کوئی پارٹی بھی واضح اکثریت لیتی نظر نہیں آتی اس لئے امکان یہی ہے کہ شاید مخلوط حکومت بنے جو کم سے کم دو پارٹیوںپر مشتمل ہوگی۔ میں نے پاکستان میں کئی مخلوط حکومتیں دیکھی ہیں اور میرا مشاہدہ و مطالعہ بتاتا ہے کہ حکومت کی مضبوطی خاصی حد تک وزیر اعظم کی شخصیت کی مرہون منت ہوتی ہے۔ عام طور پر مخلوط حکومت’’لنگڑی‘‘ اور کسی حد تک کمزور سمجھی جاتی ہے لیکن میں نے1970میں بننے والی مخلوط حکومت کو نہایت مضبوط پایا کیونکہ اس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے اور ان کا پارٹنرPartner عبدالقیوم خان تھاجو وزارت داخلہ لے کر مطمئن ہوگیا۔ تمام تر دبائو کے باوجود آئی جے آئی کے تحت بننے والی حکومت بھی مضبوط تو نہیں مگر موثر تھی اور اندرون خانہ کے معاملات پر نظر ڈالنے کے بعد محسوس ہوتا تھا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے لئے حکومتی پارٹنر درد سر نہیں تھے بلکہ اصلی دبائو اور درد سر صدر مملکت جناب غلام اسحاق خان تھے جو58(2)Bکے اختیار سے لیس تھے اور وزیر اعظم کو محض نمائشی بنا کر خود حکومت کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ بالآخر وزیر اعظم اور صدر مملکت کے اختلافات نے دونوں کو اقتدار سے ’’دیس نکالا‘‘ دے دیا اور لڑتے لڑتے ہوگئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دم۔ چونچ صدر مملکت کا وہ اختیار تھا جس کے تحت وہ وزیر اعظم کو برخاست کرسکتا تھا، چنانچہ جب میاں صاحب دوسری بار وزیر اعظم بنے تو انہوں نے آئینی ترمیم کرکے صدر مملکت کو اس چونچ سے محروم کردیا۔ ہمیشہ سے ایجنسیوں کو بھی سیاست میں دخل دیتے اور کھیل کھیلتے دیکھا ہے لیکن حکومت کو قریب سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ جب وزیر اعظم مضبوط شخصیت ہو تو ایجنسیاں بھی کافی حد تک ’’برخوردار‘‘ ہوجاتی ہیں البتہ اگر حاکم اعلیٰ کمزور ہو، حکومت اورپارلیمنٹ منقسم ہوں تو پھر ایجنسیاں بھی ’’پرپرزے‘‘ نکالنا شروع کردیتی ہیں۔ میں نے بھٹو حکومت کو قریب سے دیکھا اور عینی شاہد کے طور پر کہہ سکتا ہوں کہ جب تک حکومت مضبوط تھی ایجنسیاں بھی وزیر اعظم کی تابع مہمل تھیں لیکن جب پی این اے کی احتجاجی تحریک نے حکومت کو کمزور کیا تو ایجنسیاں وفاداری اور کارکردگی کیلئے کسی اور طرف دیکھنے لگیں۔ اس لئے تجزیہ نگاروں کی رائے کے برعکس میرا تجربہ یہ ہے کہ اگر حکومتی سربراہ مضبوط شخصیت کا مالک ہو اور اپنی گرفت مضبوط رکھے تو اسے کوئی ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا البتہ قومی مفاد کا واسطہ دے کر کبھی کبھار فیصلے اپنے حق میں کروا سکتے ہیں۔ واضح اکثریت ہو یا دو تہائی کی حمایت حاصل ہو سیاست میں سمجھوتے Compromisesکرنے پڑتے ہیں، حکمت عملی کا دروازہ کھلا رکھنا پڑتا ہے اور بعض اوقات مخالف یا بالائی قوتوں کو بھی Accomodate اکاموڈیٹ کرنا پڑتا ہے تب حکومت چلتی اور اپنے منشور یا ایجنڈے پر عمل کرتی ہے۔ میرا’’عینی‘‘ مشاہدہ ہے کہ حالات اس وقت بگڑتے ہیں جب حاکم اعلیٰ کو اقتدار کا نشہ چڑھ جائے، وہ تکبر اور غرور کے مرض میں مبتلا ہو کر آمرانہ روش اختیار کرلے اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے۔باقی پھر ان شاء اللہ
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین