• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین و حضرات!
السلام علیکم
میں بھی آپ کی طرح ایک عام پاکستانی ہوں۔ میرے دکھ بھی آپ جیسے ہیں۔ میں نے اپنی دھرتی کو اپنے سامنے بنجر ہوتے دیکھا، میں نے کئی دیہات دریا برد ہوتے دیکھے، کئی لوگوں کو راستے میں مرتے دیکھا، بے کسی اوربے بسی میں رُلتے ہوئے انسان دیکھے، میں نے خوشحالی کو بدحالی میں بدلتے دیکھا، پتا نہیں یہ کیا کھیل تھاکہ مجھے رہنمائوں کے روپ میں راہزن نظر آئے۔ میں نے اس سارے سفرکو کبھی تاریخ کی آنکھ سے دیکھا، کبھی حالات کے جبر کے آئینے میں دیکھا، میں نے رہنمائوں کو جھوٹ بولتے دیکھا، میری آنکھیں اکثر بھیگ جایا کرتی تھیں۔ مجھے دکھ ہوتا تھا مگر میں نے آس کا دیا بجھنے نہیں دیا۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ مایوسی گناہ ہے، میں نے کئی پاکستانی رہنمائوں کو دشمن کا کھیل کھیلتے دیکھاتو بس میری آنکھیں نم ہوئیں۔ پھر سوچتارہا کہ ان کی گردن تن سے جدا کیوں نہیں ہوجاتی۔ یہ لوگ کیوں سیاست میں معتبر ہیں؟ جنہوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی وہی لوگ پاکستان کی تقدیر کے وارث بنے ہوئے ہیں۔ برس ہا برس یہی سوچتا رہا کہ جو خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، وہ تو ایسا نہیں تھا۔ جو پاکستان محمد علی جناح نے چاہا تھا وہ تو ایسا نہیں تھا۔ وہ توفرقہ پرستی کی نفی کرتے تھے۔
وہ تو ایک اسلامی فلاحی ریاست کے خواہاں تھے۔ یہ کیا ہو رہاہے؟ اس ملک کی بنیادوں کو اپنا لہو دینے والوں نے تو یہ نہیں سوچا تھا۔ پھر خیال آتا ہے کہ یہ ملک تو خالصتاً جذبے سے بنا تھا۔ کبھی قائداعظم کے زندہ خوابوں پر غور کرتاہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک تو رحمت ِ دوجہاںﷺ کی نگاہِ خاص سے بنا تھا۔ پھر یہ بھی سچ ہے کہ اس ملک میں میر ےجیسے انسانوں کی اکثریت ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس فرمان کے حصار میں ہیں کہ ’’وطن سے محبت ایمان کی نشانیوں میں سے ایک ہے‘‘
دکھوں کی نگری کے ایک باسی کی حیثیت سے میں قیام پاکستان کے وقت کے جذبے کو دیکھتا ہوں اورپھر آج کی بربادیوں کا سفر دیکھتاہوں۔ میرے پیارے پاکستانیو! پھر میں سوچتا ہوں ہمیں کس کی نظر لگ گئی، ہمیں بربادیوں کا سفر کون دے گیا، کس نے سارا چمن برباد کیا، روشنیوں کے چراغ کس نے گل کئے، گلوں کی بستیوں کو بدحال کون کر گیا، کس نے چھینا حسن میرے دیس کا، لوٹ مار کیسے شروع ہوگئی، کیسے خوشحالی کی جانب گامزن گھرانے بدحالی کی قطاروں میں آگئے؟
وہ بھی کیا دن تھے کہ لٹے پٹے قافلے پاکستان پہنچے۔ جذبوں میںمحبت تھی، آنکھوں میں امید تھی، آرزوئوں کا سفر تھا۔ 1940سے 1950تک تو موسم ایساہی تھا جیسے برصغیر کےمسلمانوںکاسب کچھ پاکستان ہے۔ پاکستان بنانے میں نوجوانوں اور خواتین کے علاوہ صوفیا کا بہت بڑاکردار تھا۔ کچھ مفاد پرست افراد اس وقت بھی خلاف تھے۔ وہی شکم پرست حضرات آج بھی خلاف ہیں۔ انہوں نے ایک سچے اورکھرے مسلمان محمد علی جناح کے بارے میںکیاکچھ نہ کہا۔ انہوں نے تو اقبال جیسے عاشق رسولﷺ پرفتوے لگا دیئے۔
پیارے لوگو! پاکستان کی کہانی عجیب ہے۔ اسے بنانے کے لئے بہت سے لوگوں نے سچے دل سے کام کیا۔ اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں میں مسلمانوں کے کئی گروہ بھی شامل تھے۔ آفرین ہے پاکستان سے پیارکرنے والوں پر، انہوں نے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ملک کے لئے بہت کچھ کیا۔ صاحب ِثروت افراد نے اپنے خزانوں کےمنہ وطن کے لئے کھول دیئے تھے۔ وطن کا خزانہ بھر دیا تھا۔ کیا عظیم لوگ تھے اسی لئے تو پاکستان ابتدائی برسوں میں حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود مستحکم رہا۔ کتنا خوبصورت پاکستان تھاکہ جاپان جیسے ملکوں کو قرض دیا کرتا تھا پھر معاف کردیاکرتا تھا۔ جرمنی جیسے ملک پاکستان سے قرض لیتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں ہم نے منصوبوں کے انبار لگا دیئے۔ ہمارے پانچ سالہ منصوبوں کی بدولت کئی مشرقی ملک معاشی طور پر بے حد مضبوط ہو گئے۔ ساٹھ کی دہائی کےبعد ہم ایک ڈیم بھی نہ بنا سکے۔ ایک وہ لوگ تھے جو اپنی دولت اپنے ملکی خزانے میں ملک کی محبت میں جمع کروایاکرتے تھے ایک یہ لوگ ہیں صبح و شام جھوٹ بولتے ہیں، ملکی خزانے کو لوٹتے ہیں، لوٹنے والوںکو وطن سے محبت کیسے ہوسکتی ہے؟ انہوں نے تو اس بے دردی سے پیارے پاکستان کو لوٹا کہ آج ملک قرضوں کے بوجھ تلے ہے۔ انہوں نے پاکستان کے خزانے کو نچوڑ کے رکھ دیا۔ کیا گھر سے پیارکرنے والے لوگ گھرسے چوریاں کرتے ہیں؟
ساٹھ کی دہائی میں ہم تیزی سے ترقی کررہے تھے۔ امریکی صدر، ہمارے صدر کا انتظار کیا کرتا تھا ۔ آج ہمارے حکمران پرچیاں پڑھتے ہیں۔ ہمارا جی ڈی پی ڈبل فگر میں تھا، آج اسے دیکھ کر رونا آتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں دشمن نے جال پھینکا تو کچھ گندی مچھلیاں دشمن کے ہاتھ لگ گئیں۔ سیاستدان بک گئے اور ہمارا آدھا ملک چلاگیا۔ میں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری دنوں کی کہانیاں سلمیٰ اعوان سےسنیں تو دل بجھ کے رہ گیا۔ وطن میں رہنے والے وطن سے دشمنی یوں بھی کرتے ہیں۔ آج جس پاکستانی سیاستدان سے متعلق فیصلہ سنایا جائے گا ، وہ بھی مشرقی پاکستان کی مثالیں دیتا ہے۔ کیا پاکستان سے محبت کرنےوالے ایسا سوچ سکتے ہیں؟
ایوبی دور میں بھی پاکستان میںامیر لوگ تھے۔ 22مشہور خاندان امیرتھے۔ ذراسوچئے آج کے امیروں میں کون کون تھا؟ آپ کو حیرت ہوگی۔ پھر آپ سوچیں گے کہ کس کس نے پاک وطن کو لوٹا۔ میرے نزدیک لوٹ مار کایہ کھیل 1980سے شروع ہوا، آج تک جاری ہے۔ یہ سفر ختم ہوسکتا تھا، اگر پاکستانی لوگ جھوٹے رہنمائوں کو ووٹ نہ دیتے مگر یہاں تو باریاں لگی ہوئی تھیں۔ بس اس 40,35سالہ سفر میں صرف لوٹ مار ہوئی، ہماری تعلیم برباد ہوئی، اسپتال برباد ہوگئے،پینے کا صاف پانی میسر نہ رہا، فصلیں بدحال ہوگئیں، کسان کی خوشحالی خواب بن گئی ، پہلے جاگیرداروں نے ملکی خزانے کو ذاتی جاگیر سمجھے رکھا، پھر تاجر آگئے اورجب تاجراقتدار میں آجائیں تو وہ تو قبر اور کفن کے ساتھ موت بھی بیچ دیتے ہیں۔ ان راہزنوں نے عظیم ترین ملک کو کیا بنا دیاہے۔ جس ملک میں گنا ڈیڑھ سو روپے من اور ایندھن آٹھ سوروپے من ہو، اس ملک کے حکمران ظالم نہیں تو کیا ہیں؟
1951 میں ڈالر صرف ایک روپے کا تھا۔ 1972میں تین روپے کا۔80کی دہائی میں 14,12 کا تھا، پرویز مشرف کے عہد میں 60روپے کا تھا۔ آج ہمارے باریاں لینے والے نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے لچھنوں کے سبب ڈالر 125سے اوپرہے۔ ایک بارش لاہور کی ترقی کاراز کھول دیتی ہے۔ سب جھوٹ بے نقاب کردیتی ہے۔ شاید اسی لئے چوروں اور لٹیروں کا یہ کھیل دیکھ کر نارووال کا سرور ارمان برسوں سے کہہ رہا ہے کہ
بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن
تب ہمارے نام یہ جاگیر کردی جائے گی
لوگو! سوچو، سمجھو، اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھو، ووٹر کی عزت کا احساس کرو، اپنے ووٹ کے ساتھ انصاف کرو، روک دو رستہ راہزنوں کا، چور لٹیرے پھر سے سرگرم ہیں، وطن سے غداری کرنے والے بھی ووٹ مانگ رہے ہیں۔ اپنے پیارے پاکستان کے دشمنوں کوپہچانو۔ اپنے دکھوںکی نگری کو خوشحالی کی بستی بنا ڈالو، اٹھو راہزنوں کے راستے کی دیوار بن جائو ورنہ پچھتاتےرہو گے۔ دکھوں کی نگری سے خط لکھنے والے کو یاد کرتے رہو گے اور پھر ناصرہ زبیری کا شعر پڑھتے رہو گے ؎
وہ وفائوں کی بات کرتا رہا
ہم اسے دیکھتے رہے خاموش
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین