• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹیلی فون ڈائرکٹری پر انحصار کی وجہ سے ہم اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ٹیلی فون نمبرز بھول گئے ہیں جبکہ ہمیں کم از کم ڈیڑھ سونمبرز یاد ہوا کرتے تھے۔ اس طرح جب سے ہمارے ہاتھوں میں کیلکولیٹرز آئے ہیں ہمیں پہاڑے یاد کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ پکے پکائے کھانوں نے باورچی خانوں اور رسوئیوں کی رونق ختم کردی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے خبریں پڑھنے کے بعد ہمیں ان کا مطلب، مقصد اوراثرات معلوم کرنے پر وقت اور دماغ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ خبروں کے تجزئیے اور تبصرے کرنے والے ہمیں بتادیں گے کہ کس نے کیا کہا ہے؟ کیوں کہا ہے؟ اور جو کچھ کہا ہے اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ چنانچہ مستقبل قریب کے تعلیمی اداروں کے امتحانات میں اس نوعیت کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے کہ ذات پات اور چھوت چھات کے فائدے اور نقصانات بیان کئے جائیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لوگ خبریں پڑھنے کی بجائے صرف ان پر تبصروں اور تجزیوں کا انتظار کریں اور بقول شاعر کہیں کہ
آج کے دن دنیا پر جو کچھ گزرے گی
کل اخبار میں پڑھ لیں گے
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے عدلیہ اور فوج کے سربراہوں، چیف جسٹس اور آرمی چیف کے بیانات یا تقریروں کی اخبارات میں اشاعت نے پیدا کردی ہے۔ ہماری خوش قسمتی سے ان بیانات یا تقریروں کے ساتھ ہی ہمارے بعض ذمہ دار مبصروں اور تجزیہ نگاروں نے ان کی وضاحت بھی کردی ہے۔ تجزئیے بھی پیش کردئیے ہیں۔
خود میں نے ان دونوں چیف صاحبان کے بیانات اور تقریروں کے متن پڑھنے کی زحمت سے گزرنے کی بجائے ان تجزیوں اور تبصروں پر ہی اکتفا کیا ہے جن میں اتنا کچھ بہت تفصیل کے ساتھ کہہ دیا گیا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آیاکہ ان تقریروں یا بیانوں میں کہی گئی باتوں کا اصل مقصد کیا تھا اور مطلب کیا نکلتا ہے اور آخری تجزئیے میں ریاست کے دو اہم ترین اداروں کا کون سا ادارہ سب سے زیادہ ذمہ دار ،سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔ سب سے بڑی اتھارٹی کس کے پاس ہے اور سب سے آخری اتھارٹی کس کے قبضے میں ہے؟ان تبصروں اور تجزیوں کو پڑھنے سے پہلے میرے جیسے لوگوں کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ تقریبات میں صاحبان صدر کے علاوہ مہمانان خصوصی کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟ اور اگر ضرورت ہوتی ہے تو صاحب صدر زیادہ اہمیت رکھتے ہیں یا مہمان خصوصی زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں؟ ان دونوں میں اصل اتھارٹی اور آخری اتھارٹی یا الٹی میٹ ا تھارٹی کس کے پاس ہوتی ہے؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان میں اتنا ہی فرق ہو جتنا کہ وزیر اعلیٰ اور خادم اعلیٰ میں ہوسکتا ہے یعنی
نتھا سنگھ اینڈ پریم سنگھ
ون اینڈ دی سیم تھنگ
والا معاملہ ہو۔
کسی ایسے ہی پریشان شخص نے کسی سیانے سے پوچھا تھا کہ کبوتر اور کبوتری کی کیا پہچان ہے؟ سیانے اسے بتایا تھا کہ یہ معلوم کرنے کے لئے ان کے سامنے کچھ کھانے کو ڈالا اور پھر دیکھو کہ جو کھاتا ہے وہ کبوتر ہے اور جو کھاتی ہے وہ بلاشبہ کبوتری ہوگی۔ یہی بات بچوں کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے کہ جب تک وہ برف کو چھوئیں گے نہیں اور آگ کو تاپیں گے نہیں انہیں سرد اور گرم کی پہچان نہیں ہوگی مگر بچھو اور سانپ میں تمیز سکھانے کے لئے اس سے بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح حیوانوں اور درندروں کی پہچان بھی چڑیا گھروں کے محفوظ جنگلوں کے باہر سے ہی کروانی لازمی ہے۔
جہاں تک اس پریشانی کا تعلق ہے کہ صاحب صدر کے علاوہ مہمان خصوصی کی کیا ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں میں زیادہ اہمیت اور اتھارٹی کس کے پاس ہوتی ہے یہ پریشانی آج تک دور نہیں ہوسکی اگر چہ کچھ تقریبات کی صدارت کرنے کے علاوہ بعض محفلوں میں مہمان خصوصی کے فرائض(؟)بھی ادا کرچکا ہوں مگر اب تک ویسے کا ویسا ہوں۔ نہ دانت لمبے ہوئے ہیں اور نہ ہی ناخن بڑھے ہیں۔ صحت کی خرابی میں بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا اور انشاء اللہ اسی حالت میں دونوں جہانوں کی آخری سب سے بڑی، فائنل اور الٹی میٹ اتھارٹی کے حکم سے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوجاؤں گا اور سب کچھ یہاں ہی چھوڑ جاؤں گا اور جو کچھ چھوڑ جاؤں گا اس میں زیادہ ترواجب الادا قرضے ہی ہوں گے۔
تازہ ترین