• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات باراک اوباما کے لئے ایک بار پھر سے فتح کی نوید لائے، اگرچہ باراک اوباما کے پچھلے چار سالہ دور حکومت کے دوران پاکستان کے ساتھ رویے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اوباما کی جیت پاکستان امریکہ تعلقات میں کوئی مثبت تبدیلی لائے گی۔ یہ باراک اوباما کا ہی دور حکومت تھا کہ جب امریکہ کی ڈرون پالیسی بڑھتے بڑھتے ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں کی پاکستانی سرزمین پر کارروائی تک جا پہنچی۔
انتخابات کے دھوم دھڑکے میں اوباما اور ان کی پارٹی نے اسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والی اس کارروائی کو بہت بہتر انداز میں اپنے حق میں استعمال کیا اور وہ ایسا کیونکر نہ کرتے آخر کار ان انتخابات اور اس سے قبل ہونے والے تمام امریکی انتخابات میں ملکی مفاد کو ہمیشہ اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکی صدر باراک اوباما دوبارہ منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنے سیاسی حریف کو ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں حکومت سے مل کر کام کرنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ ہر بار امریکی انتخابات کے اختتام پردونوں حریفوں کو اپنی فتح اور شکست کو ملکی مفاد کے پس منظر میں پیش کرتے دیکھ کرمیں سوچتا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے ملک کی سیاسی قیادت اور جماعتیں بھی ایسی ہی سوچ کا مظاہرہ کر پائیں گی۔ وہ کون سا وقت ہو گاکہ جب ہم اپنی زبان، کلچر اور روایات کی بنیاد پر آپس میں تفریق کرنے اور پھر اس تفریق کوسیاسی طاقت کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی بجائے ملکی مفاد کے بارے میں سوچیں گے؟کیا اب وقت نہیں آن پہنچا کہ ہم اپنی تفریق کی سیاست کو چھوڑ کر ملکی مفاد کی سیاست کریں؟
امریکی صدارتی انتخابات کے دوران دونوں امیدواروں نے کھل کر نہ صرف پیسے کا استعمال کیا بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اس بار کے امریکی انتخابات تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات تھے جن میں امیدواروں کی جانب سے تقریباً 2.5 ارب ڈالر اشتہارات اور دیگر اخراجات کی مد میں خرچ کئے گئے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اس بار کے صدارتی انتخاب کو امرا اور غریب ، متوسط طبقے کے مابین مقابلے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا وہاں اس قدرپیسے کے خرچ ہونے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیسے دونوں جماعتوں کے لئے اپنی بقا کی جنگ تھی۔ باراک اوباما نے اس انتخاب کے دوران خود کو ان امریکی شہریوں کا حقیقی نمائندہ بنا کر پیش کیا جن کی نظر میں ریاست کو اپنے غریب افراد کی مدد کرنی چاہئے۔
باراک اوباما کی صدارتی مہم اس اصول کے گرد گھومتی رہی، اس نے غریب افراد کو تعلیم،روزگار اور صحت مہیاکرنے کا جو وعدہ کیا وہی اس کی کامیابی کا سبب بنا۔ اس انتخاب میں اوباما کی جیت نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی غربت اور امارت کے فرق کی بنیاد پر ووٹ دیئے جاتے ہیں، مٹ رومنی کا تعلق امریکہ کے طاقتوراور پیسے والے خاندان سے ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی ساری انتخابی مہم کا دارومدار ملک میں دولت مند طبقے کو آسانیاں فراہم کرنے پر رہا اور ووٹنگ والے دن یہی شاید ان کی شکست کا سبب بنا۔
کامیابی کے بعد باراک اوباما کا اپنے ورکرز سے خطاب بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا، انہوں نے اس انتخابات میں جو واضح فتح حاصل کی، اس میں بہت زیادہ ہاتھ ان کی اس ٹیم کا تھا کی جس نے ہر ریاست میں جا کر عوام کو اوباما کے لئے ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔انتخابی عمل میں جانے سے پہلے تمام مبصرین کانٹے دار مقابلہ کی توقع کر رہے تھے۔ لیکن نتائج سب کی سوچ کے برعکس تھے اور اوباما نے ان نتائج کا ذمہ دار اپنے ورکرز کو قرار دیا۔ اوباما کے ورکرز کی تعداد لاکھوں میں تھی، یہ وہ لوگ تھے کہ جو بغیرکسی لالچ یا طمع اوباماکی انتخابی مہم کے لئے ووٹ مانگنے مختلف علاقوں میں جاتے رہے، اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اوباما کبھی بھی اپنے پیغام کو عوام تک مثبت انداز میں پہنچانے میں کامیاب نہ ہو پاتے۔ یہ سیاسی ورکرز کی ہی طاقت تھی کہ جو کام الیکشن کے دوران خرچے گئے اربوں ڈالرزنہ کر پائے وہ ان افراد نے کر دکھایا جو کہ اپنے اس کام کا معاوضہ بھی نہیں لیتے۔
یہ سب سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہمارے ملک میں کبھی ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا کسی سیاسی جماعت کے پاس ملک بھر میں ایسے ایک لاکھ ورکرز موجود ہیں کہ جو عوام تک ان کا پیغام پہنچا سکیں؟ کیاوجہ ہے کہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں ایسی تنظیم سازی نہیں کرپاتیں کہ ان کے حامیوں اور ورکرز کو مثبت انداز میں اپنی پارٹی کے منشور کو عوام تک پہنچانے میں آسانی رہے؟شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ میں دو صدیوں سے جمہوریت رائج ہے جبکہ ہمارے ہاں آئے روز جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے اور جب سب کو پتہ ہو کہ آخرکار سب کی چھٹی ہوہی جانی ہے تو کوئی تنظیم سازی کے تھکا دینے والے عمل میں کیونکر پڑے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کو امریکی انتخابات سے سبق سیکھنا چاہیے ، ان انتخابات میں دونوں امیدواروں کا مقصد امریکہ کی خدمت کرنا تھا اور اسی کی خاطر وہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے رہے کیونکہ وہ دونوں یہ سمجھتے تھے کہ اس وقت امریکہ کو ان کی ضرورت ہے۔ لیکن انتخابات کا نتیجہ آتے ہی ہارنے والے نے بردباری سے اپنی شکست تسلیم کر لی اور اپنے حریف کو اس کی جیت پر مبارکباد بھی دی۔ ہمارے ہاں تو قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے انتخابی نتائج اپنے خلاف آنے پر دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگا دیئے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ سب اس اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے کہ جس کے ہاتھ سے جانے کے وقت سے بھی وہ لاعلم ہوتے ہیں۔اس اقتدار کی خاطر وہ ملک کی بھی پروا نہیں کرتے اور محض اپنے ذاتی مفادات کے لئے ملکی مفادکو ہی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ امریکی انتخابات سے ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک اوروہاں کے بسنے والے اہم ہوتے ہیں۔۔۔ہمیں پاکستان اور پاکستانیت پر انحصار کرتے ہوئے اپنے مسائل کو حل کرنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہئے۔
تازہ ترین