• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پورے پچپن برس ہوئے، سال کے یہی آخری مہینے تھے جب میں روزنامہ جنگ کراچی سے وابستہ ہوا تھا۔ سنہ1857ء کی جنگِ آزادی کی صد سالہ تقریب منائی جا رہی تھی اور سوویت یونین کا پہلا مصنوعی سیارچہ اسپوٹنک خلا میں گیا تھا۔ جس دنیا کو ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے اُس کی یادکچھ نیم دلی سے منائی گئی تھی اور جس خلائی دوڑ کا آغاز ہورہا تھا اُس کی دھوم مچی تھی۔ میں نے ایسی فضا میں اپنی عملی زندگی شروع کی تھی اور کچھ خبر نہیں تھی کہ میری پرواز مجھے کہاں لے جائے گی۔ آج جب ادارہ جنگ نے یہ تجویز رکھی کہ کیوں نہ میں اُس پرانے تعلق کی تجدید کروں اور اخبار کے لئے کالم لکھوں تو جس خیال نے میرے وجود میں سرشاری بھر دی وہ ایک جملے میں بیان ہو سکتا ہے، میں بے شمار قارئین سے بات کر سکوں گا۔ ابلاغِ عامہ سے وابستہ لوگوں کے لئے سب سے زیادہ سکون بخش یہی احساس ہوتا ہے۔
نصف صدی سے بھی زیادہ مدت تک نہ صرف دنیا میں ٹکے رہنے بلکہ دنیا کا کبھی قریب سے اور کبھی دور سے مشاہدہ کرنے کی سعادت جسے نصیب ہو اُس کو خوش نصیب نہ کہیں تو اور کیا کہیں، لیکن اس سے بھی بڑی سعادت یہ ہے کہ انسان (جسے آج کل کی زبان میں بندہ کہا جاتا ہے)اپنے عمر بھر کے مشاہدے، تجربے اور مطالعہ میں اپنے قاری کو بھی حصے دار بنائے۔ جو کچھ دیکھا ، سیکھا، جانا اور برتا وہ کسی دولت سے کم نہیں کیونکہ یہ ہر ایک کے حصے میں نہیں آتا، لیکن اگر اس دولت کو سینے کے کسی گوشے میں ڈال دیا جائے تو اس کا حال انہی کرنسی نوٹوں جیسا ہو گا جنہیں کسی زمانے میں چھپّر میں ٹھونس کر چھپا دیا کرتے تھے۔چھپّر بھی ایسا جو برساتوں میں ٹپکتا ہو اور جاڑوں میں آگ پکڑ لیتا ہو۔
میری خواہش ہے کی قارئین سے میری گفتگو کبھی تاریخ کی طرف لوٹے اور کبھی اسپوٹنک کی بلندیوں میں بھی جھانکے۔ ماضی سے کٹ کر رہنا گناہ ہے اور مستقبل کی فکر نہ کرنا عذاب ہے۔ تاریخ کا سیدھا سا اصول یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، اُس سے پہلے کچھ ہوچکا ہوتا ہے اور مستقبل کے بارے میں ایک سچا شخص کہہ گیا ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس سے قیاس کرلو کہ آگے چل کر کیا ہوگا۔
میرے اس کالم کا مستقل عنوان ’ دوسرا رُخ ‘ ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہر معاملے کے زیادہ نہیں تو دو رُخ ضرور ہوتے ہیں۔ لوگ عام طور پر ایک ہی رخ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور دوسرے پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے تو اس کو کم اہم ضرور جانتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت کی ایک کمزوری ہے۔ معاملے کا ایک ہی رخ ہو تو سارے تصور سپاٹ اور بے لطف ہو جائیں۔ یکسانیت زندگی سے وہ ولولہ چھین لے جس کے بغیر ساری فضا ایک ویرانے جیسی ہو کر رہ جائے۔ بات کے دو رخ اور دو پہلو سامنے ہوں تو کسی فیصلے پر پہنچنا اور کوئی نتیجہ نکالنا سہل ہو جاتا ہے۔ ان سطروں میں ہم معاملے کے اُس دوسرے رُخ کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے اور بہتر نتیجوں تک پہنچنے کی سبیل نکالیں گے۔
اس عمل میں قارئین کو میری صورتِ حال پیش نظر رکھنا ہوگی۔ میں چالیس برس سے برطانیہ میں آباد ہوں۔ آپ چاہیں تو کہہ لیں کہ مغرب میرا مسکن ہے۔ اس پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ میں اپنی اور اپنے قارئین کی سرزمین سے دور ہوں اوران سے کٹا ہوا ہوں لیکن یوں بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ میں وہ مصور ہوں جو اپنی تصویر بنانے کے بعد پیچھے ہٹ کر اُسے دیکھتا ہے۔ پیچھے ہٹ کر دیکھنے میں حکمت یہ ہے کہ پھر ایک وسیع اور مکمل منظر نگاہ میں ہوتا ہے اور اس منظر کے تمام پہلو اپنے تناظر میں دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے جو تصویر بنائی ہے اس پر پہلا نقش ابھارتے ہوئے مجھے وہ نو عمر لڑکا یاد آرہا ہے جس نے اپنی گلیوں میں ’ بن کے رہے گا پاکستان‘ اور اسی طرح ’ لے کے رہیں گے پاکستان‘ کے نعرے لگائے تھے۔ مجھے وہ نصف شب بھی یاد ہے جب لاہور ریڈیو سے پہلی بار پاکستان کا قومی نغمہ نشر ہوا تھا۔ پھر مجھے واہگہ کی سرحد پار کرکے اُس سرزمین پر قدم رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی جس کے لئے میں نے اپنے شہر میں یہ جانتے ہوئے بھی نعرے لگائے تھے کہ میرے بزرگوں کا یہ علاقہ پاکستان نہیں کہلائے گا۔
وہ دن اور آج کا دن، میری تصویر میں نقش پر نقش بن رہے ہیں اور رنگ پر رنگ بھر رہے ہیں ۔ عمر کی کئی دہائیاں ان نقوش کو قریب سے دیکھتے گزریں اور اب چار عشروں بعد تصویر وہی ہے لیکن زاویہٴ نگاہ جدا ہے۔
مجھے یاد آیا، ایک بار مجھے انتخابات کے دنوں میں پاکستان جانے کا اتفاق ہوا۔ میں ریڈیو پر ایک مذاکرے میں شریک تھا۔چار پانچ شرکاء کے اس تبادلہٴ خیال کے بعد جب میں اسٹوڈیو سے باہر نکلا تو کسی نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ آپ کی باتیں سب سے مختلف تھیں۔
اس یاد آنے والی بات پر خیال آیا کہ یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے ہزار قصے کہانیاں یادآئیں گی جن میں آپ کو ساجھے دار بناؤں گا ، کچھ حکایتوں کا یاد آنا طے ہے ، وہ بھی دہراؤں گا۔ کچھ سرشاری کے اسباب ، کچھ المیے اور کچھ حادثے بھی یادوں کے ذخیرے سے سر نکالیں گے، ان سے بھی ان عبارتوں کو آراستہ کیا جائے گا تو سوچئے کہ زندگی کے کیسے کیسے تجربے کن کن دالانوں میں پرندوں کی طرح اتریں گے،کیسا اچھا لگے گا۔
لندن میں میرے گھر کے پچھواڑے ایک جھیل ہے جس میں برطانیہ کے اوپر سے گزرتے ہوئے غیر ملکی پرندے سستانے کے لئے اترا کرتے ہیں۔ جاڑے شروع ہو چکے ہیں اور بھانت بھانت کی چڑیاں ادھر سے گزرتے ہوئے یاد دلا رہی ہیں کہ بدلتے موسم خلقِ خدا کو آمادہ سفر کرتے ہیں۔ مسافروں کے آنے جانے کے جیسے منظر یورپ میں دیکھنے میں آتے ہیں ، اُن کی بات بھی ہوتی رہے گی۔ مثال کے طور پر پاکستان اور بھارت کے جو سرکردہ شاعر امریکہ میں مشاعرے پڑھنے گئے تھے وہ ان دنوں واپس وطن کی طرف لوٹ رہے ہیں اور راہ میں پڑنے والے لندن کو بھی سرفراز کر رہے ہیں۔ تو آج کل ہماری شامیں شاعروں کے ساتھ گزر رہی ہیں اور شعری محفلوں کی گرما گرمی میں ذرا دیر کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ باہر کس غضب کی سردی ہوگی۔
مجھے یقین ہے کہ ان کالموں میں آپ کو ایک مختلف رائے پڑھنے کا موقع ملے گا اور اس سے ایک بہتر اور جدا نتیجہ نکالنے کا لطیف عمل آپ کو طما نیت عطا کرے گا۔
تازہ ترین