• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے افغانستان پر قبضے کو 12 سال گزر جانے کے بعد خود اس کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2000 فوجی مارے گئے اور500 بلین ڈالرز کا خرچ ہوا جبکہ اُسے کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ افغانستان کو دائمی آزادی دلانے کا عزم دائمی خفت میں تبدیل ہوگیا ہے۔ افغانستان پر 12 ویں سال قبضہ کے موقع پر ہم صرف یہ کہیں گے کہ امریکہ کا ہر کام یکطرفہ ہے اور اخلاقیات سے عاری ہے۔ افغانستان پر حملہ کے وقت امریکہ کے عزائم یہ تھے کہ
1۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے اور ان کے ہیکل اساسی کی تباہی،2۔القاعدہ کی قیادت کی گرفتاری،3۔ افغانستان میں دہشت گرد کارروائیوں کا خاتمہ۔ بعد میں امریکہ نے اپنے نئے عزائم بنا ڈالے جن میں،1۔ سینٹرل ایشیائی ممالک کا کنٹرول،2۔ چین کی پیش قدمی کو روکنا،3۔ ایران کو گھیرے میں لینا،4۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ ،5۔ انڈیا کی پاکستان پر بالادستی۔ان نئے عزائم کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوئی اور سی آئی اے، را، موساد اور افغانیوں کے خلاف سنگین جرم میں مبتلا ہوگئے۔ انڈیا کو اہمیت اور پاکستان کو کونے سے لگانے کی امریکی سوچ کس قدر کمتر درجے کی تھی، کون ایسے بے ایمان لوگوں کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ امریکہ کی یہ بالکل غلط سوچ تھی کہ وہ پاکستان پر انڈیا کو برتری دے اور وہ افغانستان کا کام سنبھال لے۔ امریکہ نے اس طرح افغانستان کے آخری کھیل میں اپنے آپ کو کھو دیا ہے اور اسی کی وجہ سے امریکی وزارت خارجہ اور پینٹاگون میں ٹھن گئی ہے۔ پینٹاگون اپنا آزاد اور امریکہ مخالف ایجنڈے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے جس کی وجہ سے امریکہ دو غلطیاں کر بیٹھا ہے 30 ہزار فوجی مزید کمک کے لئے بھیج دیئے اور ساتھ واپسی کا بھی اعلان کردیا۔ طالبان کے ہاتھوں میں امریکیوں کی طرح گھڑی نہیں بندھی ہوئی ہے بلکہ ان کے پاس وقت ہی وقت ہے۔ امریکہ اور اُس کے اتحادی افغان جنگ میں تھک چکے ہیں۔ انڈیا اس کا پھل کھانا چاہتا ہے۔ اب امریکہ اور انڈیا پر روس، چین، ایران اور پاکستان کی بداعتمادی بڑھ گئی ہے۔ طالبان کی فتح کا منظر بنتا نظر آرہا ہے اور امریکہ کے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کرے۔ پینٹاگون اس جنگ کو بڑھا دے اور پاکستان کی سرزمین پر بھی حملہ آور ہوجائے یا سیاسی ملاپ کا کام شروع کرے کیونکہ امریکہ کیخلاف کافی سے زیادہ غصہ اور بادمخالف چل پڑی ہے۔
عملاً امریکی افواج اور امریکی جاسوسی اداروں کو سخت جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ امریکہ میں بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔ ستمبر 2012ء تک 60 حملے ہوئے ہیں جس میں100 کے قریب فوجی اور اسی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اور جو اموات افغانستان میں ہوئی ہیں اُن کو معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس سے امریکہ کو کافی مالی نقصان ہورہا ہے۔ امریکہ میں یہ بات عام طور پر کہی جارہی ہے کہ موت ایک سانحہ ہے اور ایک ملین اموات صرف اعدادوشمار کی حد تک ہیں کیونکہ وہ اموات مسلمانوں کی ہوتی ہیں۔ امریکہ میں کہا جارہا ہے کہ 2002 اموات اب تک افغانستان میں ہوچکی ہیں مگر امریکی سمجھتے ہیں کہ یہ تعداد تقریباً چار ہزار کے لگ بھگ ہے اور امریکہ جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہا ہے اور اصل حقیقت کہیں سے بھی معلوم نہیں ہورہی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی انتظامیہ جھوٹ بولنے میں مہارت حاصل کرچکی ہے اور یہ کہ اعدادوشمار سے کھیل رہی ہے۔ وائس آف امریکہ اور ریڈیو لبرٹی اس کے وہ اوزار ہیں جس کے ذریعے حکومت پروپیگنڈا کرتی رہی ہے۔ دوسرے جو اعدادوشمار امریکہ سے جاری ہوئے ہیں وہ صرف امریکیوں کے ہیں۔ نیٹو ممالک کے اعدادوشمار اس میں شامل نہیں کئے جاتے اور نہ ہی اُن کے سویلین ٹھیکیداروں کے افراد کی اموات کو ان اعداد وشمار کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ صحافیوں کی اموات بھی امریکی اعدادوشمار میں جمع نہیں کی جاتیں۔ مزید برآں انٹیلی جنس افراد کی اموات کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور نہ ہی اُن اموات کو زیربحث لایا جاتا ہے جو افغانستان ٹریفک حادثات، ہتھیاروں کے غلط استعمال، دوستانہ اموات، صحت گرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں وہ بھی کسی گنتی و شمار میں نہیں آتی۔ 2011ء میں امریکہ کے علاوہ دوسرے ممالک کے 1,190/افراد مارے گئے۔ یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں جبکہ غیرسرکاری طور پر ان اموات کی تعداد 4 ہزار ہے۔ اس طرح افغانستان میں لڑنے والوں کی تعداد 8 ہزار سے 10 ہزار تک سمجھی جاسکتی ہے۔ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ امریکہ میں کئی افراد ایسے دیکھے جاسکتے ہیں جن کے ہاتھ نہیں ہیں یا پیر کٹے ہوئے ہیں۔ پھر وہ کافی دہشت زدہ اور نفسیاتی امراض کے شکار ہوگئے ہیں۔ یہ تعداد بھی اموات یا زخمیوں سے کم نہیں۔ انسانوں کو مارنے کے بعد اللہ کی اچھی تخلیق انسان کے اندر کا اپنا نظام بھی کام کرتا ہے جب انسان کسی غلط کام یا ظلم کرنے میں لگ جاتا ہے۔ امریکی سوسائٹی خود نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہے۔ اُن کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ بڑی مضبوط قوم ہے اور اُن میں جنگی جنون پیدا کردیا گیا ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ امریکیوں کیلئے سم قاتل ہے۔ افغانستان کے بارے میں امریکہ کے مفروضات غلط ہیں کہ وہاں طالبان کی حکومت قائم ہوجائے گی اور نہ ہی پاکستان یہ چاہتا ہے کہ طالبان اور اُس کے درمیان مشکلات بڑھیں اگرچہ طالبان نے وقت کے ساتھ بہت کچھ سیکھا ہے اور پاکستان افغانستان کے ساتھ کنفیڈریشن کا بھی خواہاں نہیں ہے۔ پاکستان کے اہم مفادات کیا ہیں اُن کا تعین کرنا پاکستان کا کام ہے نہ کہ امریکہ کا۔ امریکہ کو افغانستان کے معاملے میں نیوٹرل ہوجانا چاہئے اور پاکستان کے ساتھ جو اعتماد کا فقدان ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے شروع ہوا تھا اور سلالہ کے واقعے کے بعد انتہا کو پہنچا اُس فقدان کو ختم کرنے کی پالیسی اپنانا چاہئے اور امریکہ کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان نہ ہی امریکہ کے احکامات کی تعمیل کرے گا اور نہ ہی انڈیا کی بالادستی قبول کرے گا البتہ پاکستان امریکہ سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے میں خوشی محسوس کرے گا۔ اگر رعونت پسند امریکی انتظامیہ اس پر راضی ہو۔ مسلمانوں کے معاملہ میں زیادہ مداخلت نہ کریں یہ سبق امریکیوں کو بن غازی میں اُن کے سفیر کے مارے جانے کے بعد سیکھ لینا چاہئے۔ اگر وہ اس پیغام کو ابھی پڑھ لیں اور سمجھ لیں تو ان کا مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا عمل شروع ہوجائے گا۔ سعودی انقلاب کے دروازے پر اخوان برادر ایک طویل عرصے سے جس کام میں لگے ہوئے ہیں اس کا اظہار اب ہونے کو ہے۔ مرسی کی بغاوت نے ایران کے ساتھ مضبوط تعاون کی ضرورت محسوس کی ہے۔ امریکہ مشرق وسطیٰ میں خون تو بہا سکتا ہے بن غازی کا واقعہ امریکیوں کو جگانے کیلئے کافی ہے۔
تازہ ترین