• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ تو یہ گواہی دیتی ہے کہ ایک 9سالہ فوجی بریک(وقفے) کے بعد پورا دس سالہ جمہوری سیریل چلا۔ جس میں کوئی فوجی وقفہ تو نہیں کمرشل وقفے بہت آئے۔۔ ان برسوں میں ہر طرف سویلین ہی مسند آرا تھے۔ مانیں نہ مانیں ۔ پارلیمنٹ کے پانچ سال پورے کرنے کی روایت کی بنیاد فوجی وقفے نے ہی ڈالی۔ 1999سے پہلے بے نظیر بھٹو اور میاں صاحب کی باریاں کبھی بھی پانچ سال کی نہیں ہوسکی تھیں۔
جمہوری سیریل کے دو Episodesکے بعد اب جو عبوری وقفہ آیا ہے ۔ آئین کے عین مطابق۔ اس میں پوری قوم سیاستدانوں۔ سیاسی جماعتوں سمیت جس افراتفری۔ بد نظمی۔ بے یقینی۔ اور معاشی ابتری کا سامنا کررہی ہے کیا یہ اس دس سالہ حکمرانی کا منطقی نتیجہ ہے۔
مورخین اور ماہرین جب کسی بھی حکمرانی کا معیار متعین کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت زیر نگیں علاقے کی کیا کیا بنیادی ضروریات تھیں۔ ان میں سے کتنی پوری کی گئیں۔ تعلیم۔ صحت۔ پانی۔ خوراک۔ راستے۔ ٹرانسپورٹ سمیت مختلف شعبوں میں ملک کے اشاریے کیا کیا رہے۔2008سے ہم الحمد للہ خالص سویلین حکمرانی کا تجربہ کررہے ہیں۔ کسی وزیر اعظم یا کسی وزیر نے اس بات پر استعفیٰ نہیں دیا کہ اسے آئین کے مطابق کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے۔ کسی میگا پروجیکٹ میں کسی غیر سویلین ادارے کی طرف سے مداخلت کی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن)۔ پاکستان پیپلز پارٹی۔ پاکستان تحریک انصاف۔ جمعیت علمائے اسلام۔ اے این پی۔ سب کو اقتدار میں حصّہ لینے اور ان کے لیڈروں اور عہدیداروں کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع ملا۔ ساری بڑی وزارتیں۔ کارپوریشنیں۔ کلیدی عہدے۔ ان کے اپنے لوگوں کے پاس تھے۔ یہ تاریخ کا رُخ موڑ سکتے تھے۔ ایسی پالیسیاں تشکیل دے سکتے تھے جن سے ملک میں خطّے میں امن قائم ہوسکتا ۔ میڈیا بھی کلی طور پر آزاد تھا۔ 7بجے سے رات 1بجے تک سینکڑوں دانشور حالات حاضرہ ۔ سیاسی ۔ معاشی۔ سماجی مسائل پر کھل کر اظہار خیال کرتے رہے۔ ان دس سالوں میں ہی سوشل میڈیا کو بھی بھرپور عروج ملا۔ سول سوسائٹی بھی جب چاہے مظاہرے کرتی رہی۔
اب ہمارا اپنا ضمیر ہم سے سوال کررہا ہے کہ ان مکمل آزادیوں کے 10سال بعد بے سمتی کا احساس کیوں ہے۔ عدم استحکام کیوں ہے۔ کیا ہم نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے استعمال کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھا تھا۔ یا سویلین قائدین کی دانشمندی برتنے میں رُکاوٹیں تھیں۔ پارلیمنٹ ایسے قانون کیوں نہیں بناسکی جن کی بدولت آج امن و سکون ہوتا۔
ساری سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے قلعوں میں محصور رہیں۔ ملک گیر تنظیمیں کیوں نہیں کرسکیں۔ اس عرصے میں 18ویں آئینی ترمیم قابل ذکر ہے۔ سرحد کا نام کے پی ہوگیا۔ لیکن کیا اس سے اٹک کے اس پار دودھ کی نہریں بہنے لگیں ۔ ہر پاکستانی کی زندگی کی عمدگی میں اس ترمیم کا کیا کردار ہے۔ انتخابی مہم میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں سے کچرے کا سوال کیا جارہا ہے۔ یہ جس کی ذمہ داری تھی ان دس سالوں میں ایک بہتر مستحکم بلدیاتی نظام کو مفلوج اور معذور کردیا گیا۔ پارلیمنٹ کے امیدواروں سے تو سوال ہونا چاہئے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور ان میں کمی کا۔ پانی کی قلّت کا۔ کشمیر کا۔ ہندوستان کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا۔ امریکہ سے اتحاد جاری رکھنے نہ رکھنے کا۔
کیا یہ غیر یقینی صورت حال۔ طوائف الملوکی۔ ہمارے سیاسی نظام۔ ہماری قومی سیاسی جماعتوں قومی قائدین کی مہارت۔ استعداد۔ اور اہمیت پر سوالات نہیں اٹھاتی۔ اور آئندہ پانچ سال بھی انہی غیر محفوظ ہاتھوں میں جانے کا خدشہ لاحق نہیں کرتی۔ملک میں سیاستدانوں اور فوج کے درمیان جس قسم کے کشیدہ تعلقات 50کے عشرے سے چلے آرہے ہیں۔ مارشل لائوں نے معاشرے کو جس طرح جمود۔ تعفن اور شکست و ریخت کا شکار کیا ہے۔ کیا اس کا تقاضا یہ نہیں تھا کہ ان دس برسوں میں سیاسی قائدین اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچتے۔ ایمپائر کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی بجائے سیاستدانوں اور فوج کے درمیان دوریاں غلط فہمیاں کم کی جاتیں۔ آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے فارمولے طے کیے جاتے۔ اس ضمن میں اگر پُر خلوص اور نیک نیتی سے کوششیں کی جاتیں تو ڈان لیکس جیسے واقعات رُونما نہیں ہوتے اور نہ ہی میاں نواز شریف کو بیانیے کی آنچ تیز کرنی پڑتی۔ سیاستدان بھی اپنے ہیں۔ فوج بھی اپنی۔ عدلیہ بھی اپنی۔ ملک کے تاریخی منطقی حالات ایسے رہے ہیں جنہیں المناک کہا جاسکتا ہے۔ مگر اسکے اسباب بھی ہیں۔ جنہیں دور کرنا قائدین کا ہی فرض ہے۔ براہ راست تصادم کی بجائے اس کے لئے سنجیدہ۔ مخلصانہ کوششیں۔ اور ایسا ماحول پیدا کرنا نا گزیر ہے جس کے بعد یہ واقعات نہ دہرائے جائیں۔
کیا کسی نے یہ سروے کیا کہ ان دس سالوں میں ہمارے سیاسی قائدین نے گلوبل دنیا میں پاکستان کو پُر وقار مقام دلانے کے لئے کیا تاریخی قدم اٹھائے۔ ہندوستان سے بہتر اور برابری کے تعلقات کے لئے کوئی جامع پروگرام تشکیل دیا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوئی فکری بنیاد فراہم کی۔ اقوام متحدہ کے سروے دیکھ لیں ہر قسم کی آلودگی میں پاکستان ان دس برس میں کس سطح پر رہا۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں کیا پوزیشن رہی۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لیکن سہولتیں کم ہورہی ہیں۔ ڈالر کو ان دس سال میں کتنا عروج ملا۔ شرح خواندگی میں کتنا اضافہ ہوا۔ کرپشن میں ہمارا کتنا نمبر ہے۔ غیر ملکی قرضے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ خود کفالت اور خود انحصاری کے لئے ان دس سال میں کیا کیا گیا۔ ملکی انتظام بہتر بنانے کے لئے نئے صوبے بنانا ضروری ہے۔ اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہے۔ پانی اور بجلی کی فراہمی کے لئے کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا۔ کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے کے لئے کوئی مباحثہ نہیں ہوا۔
ملک پر حکمرانی یقیناََ عوام کے منتخب نمائندوں کا حق ہے۔ گزشتہ دس سال میں ان کو یہ حق ملا ہے۔ لیکن منتخب نمائندوں کی کارکردگی کیا رہی ہے۔ آج کل تو ٹیکنالوجی کا دَور ہے۔ بہت آسانی سے تناسب حاصل کیا جاسکتا ہے کہ وفاقی حکومت کی استعداد کیسی رہی۔ صوبائی حکومتوں کا معیار حکمرانی کیا رہا۔ ہماری شاہراہیں۔ بازار۔ اسکول۔ کالج۔ یونیورسٹیاں۔ دُکانیں۔ لوڈ شیڈنگ منتخب نمائندوں کی ترجیحات کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ ان کے اپنے بنگلوں کی تعداد بڑھی ہے۔ نئے سے نئے ماڈل کی کروڑوں روپے کی گاڑیاں ان کی راتوں کا افسانہ بیان کررہی ہیں۔ ایک ایم این اے نے اپنی گاڑیوں پر جتنا پاکستانی زر مبادلہ خرچ کیا ہے اس میں کم از کم پچاس ساٹھ غریب پاکستانیوں کے گھر بن سکتے ہیں۔
بلاول زرداری کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی عظیم والدہ کے ایجنڈے کو آگے لے کر چلیں گے۔ کیا یہ ان کا اپنے عظیم والد اور عظیم پارٹی پر عدم اعتماد کااظہار نہیں ہے کہ دس سال میں یہ پارٹی ان کے ایجنڈے کو لے کر نہیں بڑھی۔
شہباز شریف کہتے ہیں ۔ ہم بھاشا ڈیم بنائیں گے چاہے اس کے لئے کپڑے بیچنے پڑے۔ گزشتہ دس سال میں یہ کیوں نہیں ہوسکا۔
پاکستان بہت عظیم مملکت ہے۔ اپنے قدرتی وسائل۔ اپنے جغرافیائی حیثیت اپنی نوجوان آبادی کے باوصف۔ ضرورت ہے جذباتی سوچ کی بجائے سائنسی طرز فکر اور اقتصادی نقطہ نظر کی۔ وہ جو بار بار آواز اٹھتی ہے۔ 3سالہ ٹیکنو کریٹ عبوری حکومت کی۔ وہ بھی یہی طرز فکر اپنانے کی کوشش ہے۔سیاستدان اگر خود یہ سوچ اختیار نہیں کرسکتے ان کی سرشت یا ڈی این اے میں ایسے آثار نہیں ہیں۔ تو وہ اپنی مشاورتی کمیٹیاں ترتیب دے سکتے ہیں جن میں تعلیم ۔ معیشت۔ ٹیکنالوجی کے درد مند ماہرین کو شامل کیا جائے۔ 2018کے الیکشن کے نتیجے میں بھی جس پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے وہ اپنے وزیروں کے لئے یہ ٹیکنیکل مشاورتی کمیٹیاں بناسکتی ہے۔ مگر معاملہ خلوص نیت کا ہے۔ چاہے وہ آصف زرداری کی حکومت تھی یا میاں صاحب کی۔ ملک کے مخلص صنعت کاروں۔ بنکاروں۔ ٹیکنوکریٹس نے ان کو اپنی خدمات بلا معاوضہ پیش کیں۔ اور آگے بڑھنے کے راستے بتائے۔ جن میں سب سے اہم سرکاری کارپوریشنوں کی سربراہی اور کلیدی عہدوں پر اہل افراد کا تقرر ہے جو ان اقتصادی ماہرین کی مشاورت سے میرٹ پر ہونا چاہئے۔700ارب ڈالر سے زیادہ خسارہ دینے والی یہ کارپوریشنیں ملکی معیشت پر غیر ملکی قرضوں سے بھی بڑا بوجھ ہیں۔ ان کو منافع بخش بنانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ مشاورتی کمیٹیوں میں تعلیم۔ صحت۔ تجارت۔ معیشت کے ماہرین کو شامل کیا جائے۔ علماء کو بھی شریک کیا جائے۔ یونیورسٹیوں سے بھی مشاورت کی جائے۔
اگلا پانچ سالہ جمہوری سیریل۔ ان ٹیکنو کریٹ کریکٹرز کوشامل کرنے سے یقیناََباکس آفس ہٹ ہوسکتا ہے۔ اور 3سالہ ٹیکنو کریٹ عبوری دور سے بچنے کا یہی طریقہ ہے ان میں وہی ٹیکنو کریٹ شامل کیے جائیں جو 3سالہ دور کے لئے شیر وانیاں تیار کرواکے اسلام آباد ۔ کراچی ۔ لاہور کے فضائی سفر کرتے رہتے ہیں۔ بہت سی صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں۔ پینے کا صاف پانی سمندر میں گررہا ہے۔ آصف زرداری۔ میاں نواز شریف۔ عمران خان سے غور کرنے کی التجا ہے۔
میں نے کچھ اہل ذوق سے درخواست کی کہ موجودہ صورت حال پر ایک شعر عنایت کریں۔ اور کچھ سے چند سطور کی۔ میں نے اپنے طور پر مشاورت کا اہتمام کیا۔ یہ قیمتی اشعار اور آرا آپ کی نذر ہیں۔
ریحانہ روحی
دیجئے اب ہمیں جانے کی اجازت مرشد
بس بہت ہوچکی خوابوں کی تجارت مرشد
نعیم ضرار
مرے وطن کی رعایا ہے وہ طوائف جو
ہر ایک رات سنورتی ہے پھر اجڑنے کو
ناصر علی سیّد
سب دانش و پندار جہاں ہوتے ہیں نیلام
اس سمت لئے قافلہ سالار گیا ہے
سلیم منصور
ابہام۔انتشار۔لا تعلقی اور بے فکری کی گفتگو ۔ گھٹائیں امڈ امڈ کر یلغار کرتی نظر آرہی ہیں جن میں امید کے جگنو کم اور خوف کے دیوتا چھائے دکھائی دیتے ہیں۔
رضوان جعفر
شفاف جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا بلا امتیاز احتساب کا عمل تیز ہوجائے تو ہی بہتر مستقبل کی امید نظر آتی ہے۔
نام نہیں دینا
سوشل میڈیا کا پانچ سالہ انقلاب اور انتخابی عمل بڑی قد آور شخصیتیں اپنے حقوق سے با خبر عوام کے قہر کا سامنا کررہی ہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین