• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں پاناما لیکس اپریل 2016، بقول صدرِمملکت جناب ممنون حسین، ’’آسمانی نزول‘‘ کا دوسرابڑا نتیجہ بھی نکل آیا۔ پہلے والے (جولائی 2017) میں میاں نوازشریف اپنی تیسری 5سالہ وزارت ِ عظمیٰ چوتھے سال میں گنوا بیٹھے تھے۔ اب خود انہیں، ان کی ہمنوا عازم وزارت ِ عظمیٰ صاحبزادی اور داماد کو 10، 7اور ایک سال کی قیدمل گئی۔ لیکن کوئی ایک ماہ قبل میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی مریم صاحبہ لندن جاچکے، جہاں باہمت اور بہادر بیگم کلثوم نواز کینسر جیسے موذی مرض سے تحفظ زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ اللہ انہیں شفائے کاملہ دے پوری قوم کی دعائیں ان کےساتھ ہیں۔
گزشتہ روز بعد نماز ِ جمعہ کروڑوں ٹی وی سیٹس کے سامنے شدت ِانتظار کی سولی پر ٹنگی قوم نے نیب کورٹ کے جج جناب محمد بشیر کا 173 صفحات کے فیصلے کا اختصار سنا، ساتھ ہی الیکشن 18ء کی چلتی انتخابی مہم پاکستانی سیاسی تاریخ کے ایک ایسے مرحلے کی شکل اختیار کرگئی جس کا نتیجہ روایتی انتخابی نتیجے سے کہیں آگے ایسے اَنہونے نتیجے کی صورت میں نکلےگاجو الیکشن 70ء کی طرح انتخابی نتائج کو ثانوی اور نئی سیاسی صورتحال کو اِن پر حاوی کردےگا۔ انتخابی عمل تو نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے جاری احتساب کا عمل وسعت اختیار کرتاہوا نتیجہ خیزہوتا جائےگا۔ یوں پاکستان شدت سے مطلوب حقیقی جمہوریت، اس سے بھی بڑھ کر اپنے قیام کے مقاصد کے حصول کی طرف تیزی سے گامزن ہوکر تابناک ہوتا جائے گا اور یہ سب بمطابق آئین و قانون ہوگا اور منتخب جمہوری حکومت کی موجودگی میں۔
خاکم بدہن، دوسرا نتیجہ اسٹیٹس کو اپنی شدت سے متاثرہ حیثیت میں بھی آخری مزاحمت کی ٹھان کر ملک کو مزید بڑے سیاسی انتشار سے دوچارکرسکتاہے، لیکن اس کےامکانات کم تر ہیں، یوں کہ نیب کورٹ کےن لیگیوں پرفوری حملہ آور ہونےوالی شدید مایوسی کی کیفیت نے، اس دوسری راہ، جس پر ن لیگی کارکنوں اور ووٹروں کو ڈالنے کے لئے خود میاں صاحب نے اور ہمنوا صاحبزادی نے ابو کے نااہل ہونے کے بعد سخت محنت کی، واضح کردیا کہ عملی مزاحمت کے امکانات اتنے ہی کم ہیں جتنامیاں صاحب اور مریم لندن روانگی سے قبل پرعزم تھی۔ن لیگی قائد شہباز شریف کی فیصلے کےفوری بعدبے جان پریس کانفرنس، جس میں ان کی روایتی تیزی غائب تھی، واضح اشارہ دے گئی کہ اب وہ فیصلے پر احتیاط سے نکتہ چینی کے اتمام حجت تک ہی محدود رہیںگے۔ آخر توبھیا، بھتیجی اور داماد کو سزا ہوئی ہےلیکن اس میڈیاٹاک میں مزاحمت کا عنصر دور دور نہیں جھلکا، جس کی اپیل سزاپانے والے ان کے پیارے پارٹی کارکنوں، ووٹرز اور پوری قوم سے کرتے کرتے لندن روانہ ہوئے۔
پارے کی طرح ہر لمحے حرکت میں رہنے والے شہباز شریف کی یکدم اس قدر مایوسی کی وجہ فقط ان کے خاندان کے 35سالہ اقتدارپر بجلی کی مانند گرنے والا نیب کورٹ کافیصلہ ہی نہیں ان کے معتمد پنجاب حکومت کے افسران کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری پھر فیصلے سے صرف ایک روز پہلے فواد حسن فواد کی بھی، یقیناً ’’خادم اعلیٰ‘‘ کو شدید ذہنی دبائو میں لے آئی ہے جبکہ انہیں وزارت ِ اعلیٰ سےالگ ہو کر غیرمعمولی مراعات، انتظامی معاونت اورپروٹوکول سے محروم ہوتے ہی، پارٹی میں جگہ جگہ ہوتی بغاوت اور ناراضوں کو سنبھالنے جیسے جھنجھٹ میں بھی مبتلا ہونا پڑاہے۔ اوپر سے لاڈلے افسران اور کمپنیوں کے ٹھیکیدار ٹائپ معتمدین کی گرفتاری سے پیدا ہونے والا دھڑکا کہ’’نہ جانے یہ نیب تھانے میں کیاکیا اُگل رہے ہوںگے۔ کہیں وعدہ معاف گواہ نہ بن جائیں۔‘‘ سیاسی مخالفین اور میڈیا پہلے ہی ان گرفتار ہونے والوں پر لگےالزامات کو سابق وزیراعلیٰ کے کھلے ڈلے اختیارات کے ساتھ منسوب کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال ن لیگ کی بے جان انتخابی مہم کو کم تر کرتی اس کے ووٹ بنک کو متاثر کرے گی۔ واضح رہے کہ پنجاب میں ڈگمگاتے (فلوٹنگ) ووٹرز کا یہ رویہ روایتی ہے کہ وہ ووٹ دینے کا فیصلہ آخری دنوں میں یہ دیکھ کر کرتے ہیں کہ کون سی جماعت برسراقتدار آنے والی ہے۔ یہ اس طرف ہی چل پڑتے ہیں اورذہن میں اس کا جواز تراشتے ہیں کہ ہمارا ’’ووٹ ضائع نہیں جانا چاہئے‘‘ یعنی ہم جس امیدوار کو ووٹ دے رہے ہیں، وہ جیتے گاہی تو ہمارا ووٹ کارآمد ہے وگرنہ ضائع ہوگا۔ ووٹرز کے اس رجحان کی بڑی وجہ تھانہ کچہری کلچر ہےجس میں عام لوگوں کو معمول کےمتعلقہ کام کرانے کےلئے حکومتی پارٹی کے مقامی رہنما، نمائندے یا ورکرز سے مدد لینا ہوتی ہے۔ اس کے بغیر یہ کام یا تو رشوت سے ہوتا ہےیا کھٹائی میں پڑ جاتا ہے لہٰذا پولنگ سے پہلے کے آخری دنوں میں ووٹرز کو ذراسرگرم ہوکر جیتنے والے کو دکھانا پڑتاہے کہ میں آپ کا ووٹر ہوں۔ فلوٹنگ ووٹرز جیتے امیدوار کو ووٹ دے کر ہی منتخب نمائندے یا اس کے معاون ورکرز سے اپنےچھوٹے موٹے کام کرانے کے لئے رجوع کرنے کا اعتماد حاصل کرتے ہیں۔
اس سار ےپس منظر میں الیکشن 18ء کے نتائج اس لحاظ سے بے پناہ اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں کہ ان سے صرف روایتی تشکیل حکومت ہی نہیں ہوگی بلکہ پاکستان میں آئندہ جمہوری نظام کی نوعیت کا تعین ہونا ہے کہ یہ احتسابی عمل کی روانی سے حقیقی روپ دھارتا ہے یا ن لیگ پھر اقتدار میں آ کر (جس کے امکانات نیب کورٹ کے فیصلے اور میاں صاحب اور مریم کی عدم موجودگی سے معدوم ہوگئے ہیں) مزاحمت کے قابل ہوجاتی ہے بلکہ پہلے سے زیادہ ہوگی لیکن یہ انہونی ہونے پر بھی اب کوئی بھی حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح نیب کو جامد اور احتسابی عمل کو یکسر ختم نہ کرسکے گی کیونکہ مقابل امکانی مزاحمت حکومت کے ساتھ برابر کی ٹکر ہوگی۔ اسی صورت میں سیاسی انتشار کی کیفیت سے ملک بدستور سیاسی عدم استحکام میںمبتلا رہے گا۔
تاہم یہ زندہ حقیقت آشکارہوگئی کہ جمہوری نظام میں اب آئین قانون سے گریز کرکے چلنا محال ہی نہیں ممکن ہی نہ ہوگا۔ جو کچھ شریف فیملی کے ساتھ ہو گیا اور ہوتا نظر آ رہا ہے، اس نے پاکستان میں پہلی بار ’’آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں اطلاق‘‘ کی ایسی راہ نکالی ہے جس پر رکاوٹیں تو کھڑی کی جاسکتی ہیں اسے بند نہیں کیا جاسکتا۔ راہ ہموار کرنے کا بڑا انحصار عمران خان کی امکانی حکومت پر ہوگا کہ یہ گورننس اور پارلیمان کا کیسا معیار قائم کرتی ہے۔ حکومت ملنے پر عمران خان کے چیلنجز اسٹیٹس کو کو توڑنے سے کم نہ ہوںگے باوجود اس کے کہ نظام بد تو اب یقیناً اپنی آخری شکست و ریخت کے عمل میں آچکا ہے، جسے ریورس نہیںکیا جاسکتا۔ تاہم اس سے ہٹ کر حکومت کی کامیابی کا تمام تر انحصار انداز ِ حکمرانی پرہے۔ اجڑی مملکت کو بحال کرکے سنبھالنے اور پھر آگے چلنے کا پوٹینشل تو تادم موجود ہے۔ ملک کی اس جامد سکت کو کیسے حرکت میں لا کر منظم کرکے زمانے کے تقاضے کے مطابق استعمال کیا جائے؟ ’’آئین نو‘‘ میں اس پر بات ہوتی رہے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین