• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں،سیاسی و مذہبی جماعتوں کے امیدوار اپنے اغراض و مقاصد کے حوالے سے بے نقاب ہورہے ہیں۔اکثر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عہدیداروں نے ٹکٹ نہ ملنے پر اپنی اپنی جماعتوں سے بغاوت کرلی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایسے لوگ نجی محفلوں میں یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ فلاں رکن اسمبلی اور فلاں وزیرنے اتنی دولت جمع کرلی ہے ہم پیچھے کیوں رہیں اور قربانی کا بکرا کیوں بنیں۔المیہ یہ ہے کہ بعض مذہبی جماعتوں کے حضرات بھی کھلے عام کہتے ہیں کہ ہمارے رہنمائوں کا مقصد اسلام نہیں اسلام آباد رہا،لہذا وہ ان کا حکم کیوں مانیں اور قسمت آزمائی کیلئےمیدان میں خود کیوں نہ اُتریں۔عوام بھی جانتے ہیں کہ اکثر امیدواروں کا مقصد عوام و ملک کی خدمت نہیں بلکہ جھنڈے والی کارہے، لہذہ وہ اپنے حلقوں میں ان کی خوب خبر لے رہے ہیں ۔پہلے ہم یہاں سینکڑوں میں سے محض چند وہ مثالیں دیتے ہیں،جو بغاوتوں کی ہیں۔پھر وہ نظائر دیکھتے ہیں جوموقع پرست امیدواروں کے ساتھ عوام کے سلوک سے نمایاں ہوئے۔ لاہور کی خبر ہے کہ پیپلز پارٹی نے شوکت بسرا سمیت 4عہدیداروں کو پارٹی عہدوں سے برطرف کر دیا،وجہ یہ ہے کہ شوکت بسرا باغی ہوکر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے ہیں۔تحریک انصاف نے ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد الیکشن لڑنے والوں کے نام 2 رکنی کمیٹی کو بھجوا دئیے ہیں ۔مخدوم آف ہالا کوایک قومی اور دو صوبائی حلقوں کے ٹکٹ ملنے کےباوجودمخدوم ہاؤس ہالااور پیپلزپارٹی کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ بلوچستان میں ٹکٹوں کی تقسیم میں سیاسی جماعتوں میں اختلافات دیکھنے میں آ ئے، جس کے باعث کئی امیدوار اپنی پارٹیوں سے بغاوت کرتے ہوئے آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔ حال ہی میں قائم ہونیوالی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا ان دنوں صوبے کی سیاست میں سب سے زیادہ چرچا ہے۔ اہم سیاسی و مذہبی شخصیات جو ’’الیکٹبلز‘‘ ہیں، اس جماعت کاحصہ بن چکے ہیں۔ا ین اے سوات 3 میں ایم ایم اے نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کے حق میں اپنے امیدوار سے ٹکٹ واپس لے لیا۔جس کے بعد مولانا حجت اللہ نے مولانا فضل الرحمٰن کےفیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ڈیرہ غازیخان کی خبر ہے کہ انتخابات 2018ء میں لغاری گروپ پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔موجودہ انتخابات میں ان کے چچا سابق ایم این اے سردار جعفر خان لغاری ، کزن و سابق سینیٹر سردار محسن خان لغاری اور دیرینہ ساتھی سابق ایم پی اے سردار جاوید اختر خان لُنڈ بھی لغاری گروپ اور مسلم لیگ کو خیر باد کہہ کر کپتان کے کھلاڑی بن چکے ہیں ۔بونیر کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی آگئی ، جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے مابین انتخابی اتحاد قائم ہوگیا ہے،ایم ایم اے میںشامل جماعت اسلامی نے بونیر میں تین کی بجائے دو نشستیں دینے پر ایم ایم اے سے راہیں جداکرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ انتخابی اتحاد کا اعلان کردیا ۔یہ صورت حال تشویشناک ہے ، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس حمام میں سب ایک جیسے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک وملت کی خیر خواہی کے دعوے دکھاوا ہی بن جاتے ہیں۔ عوام کی غربت کم ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے مسائل، جب قومی خزانے لٹیروں کے حوالے کردئیے جائیں، پھر یہی ہوتا ہےکہ جو اس ملک میں اسلام اور جمہوریت کے نام پر ہوتا رہا ہے۔کاش عوام ایسے لوگوں کو ووٹ دیں، جونہ تو چور، لٹیرے ہوں اور نہ ہی کسی کے چہیتے ہوں۔اب ایک کراچی کی چند مثالیں لیتے ہیں جہاں امیدواروں کو شہریوں نے دن میں تارے دکھادئیے۔اس شہر کے باسیوں نے امیدواروں کے احتساب کا آغاز کراچی کی ایک بڑی عبادت گاہ، جامع میمن مسجد بولٹن مارکیٹ سے کیا۔یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ یہ آغاز کراچی کی سب بڑی اور بااثر جماعت کے بااثر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار سے کیا گیا۔جمعہ مبارک کی نماز کے بعدنمازی اُن پر برس پڑے، وہ اس حلقے سے اُمیدوار ہیں،ایک ایسارہنما جو دلائل کا بستہ ساتھ لئے ہوئے ہوتا ہے، اس موقع پر اپنی کارکردگی کو بیان کرنےمیں ناکام ہوگئے۔ روزنامہ جنگ کے2جولائی کی خبر کےمطابق ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو نارتھ ناظم آباد میں مرکزی الیکشن آفس کا افتتاح کرنا تھا، جب وہ افتتاح کے لئے وہاں پہنچے تو وہاں موجود عوام کی جانب سے ایم کیو ایم کے خلاف احتجاج کیا گیا ۔گزشتہ روز مسلم لیگ ن سے پیپلز پارٹی میں چھلانگ لگانے والے سابق رکن سندھ اسمبلی ہمایوں محمد خان کے خلاف لوٹے لوٹے کے نعرے اُس وقت لگے ، جب وہ کیماڑی میں اپنے حلقے کا دورہ کررہے تھے۔تحریک انصاف کے سابق رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان جب اپنے حلقے میں گئے، توووٹرز کے سوالات سن کر وہ لاجواب ہوگئے۔ لیاری میں بلاول بھٹو کے قافلے میں موجود گاڑیوں پر پتھراؤ کیا گیا اور ڈنڈے بھی برسائے گئے ۔
اب مریم نواز صاحبہ کا ایک قابل توجہ بیان ملاحظہ فرمائیں۔لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاداریاں تبدیل کرائی گئی ہیں۔ لوگوں کو زبردستی شیر کے نشان سے اتار کر جیپ میں سوار کرایا جارہا ہے، جیپ کا نشان خلائی مخلوق کا نشان بنتا جارہا ہے۔یہاں سوال یہ کیا جاسکتاہے کہ اگر کوئی وفادار ہو، توکوئی کیونکر اُس کی وفاداری تبدیل کراسکتاہے؟ہم نےاسی پاکستانی سیاست میںایسے لوگ دیکھے ہیں، جنہوں نے تن، من دھن سب کچھ قربان کردیا، لیکن وفاداری نہیں بدلی۔وہ وفادار بن ہی نہیں سکتا،جو وفاکے پیرہن و رموز سے آشنا نہ ہو۔المیہ یہ ہے کہ آمروں کو ڈیڈی کہنے والوں سے لیکر امپائر کے اشارے پر ناچنے والوں تک، سب اُس ناپسندیدہ سیاست کے قلب وجان ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ ہے۔آج کل بلوچستان میں سیاسی و مذہبی جماعتیں ’باپ‘ سے بہت خوف زدہ ہیں، جیسا کہ اوپر کے سطور میں ہم نے لکھا کہ باپ دراصل بلوچستان عوامی پارٹی کا مخفف ہے۔ تاثر یہ ہے کہ یہ جماعت اُن قوتوں کی منظور نظر ہے، چیئرمین سینٹ بھی جن کے منظور نظر ہیں۔سب سےزیادہ واویلا تحریک انصاف کررہی ہے،اُسے خدشہ ہے کہ اس جماعت کے ذریعے اُسکی ناک میں نکیل ڈالی جاسکتی ہے۔حالانکہ نکیل تو تحریک انصاف کی موم کی ناک میں پہلے ہی سے پڑی ہوئی ہے۔ لیکن اقتدار کےنشے میں اُس کی توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں۔یہ متوجہ ضرور ہونگےمگر اُ س وقت ......
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا​
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین