• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سزا کے بغیر سزا، جج نے نواز کو سزا سنانے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا

احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے نوازشریف اور دیگر کو سزا سنانے میں بظاہر ہچکچاہٹ سے کام لیا۔ عدالت نے سابق وزیراعظم کو کرپشن، بددیانتی اور غیر قانونی طریقوں سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس حاصل کرنے کے الزامات سے بری کیا۔ تاہم انہیں لندن فلیٹس کس طرح خریدے گئے اس کی وضاحت میں ناکامی پر سزا سنائی گئی۔ ایسا کرتے ہوئے جج محمد بشیر نے ٹھوس شہادتوں پر انحصار کرنے کے بجائے اخذ کردہ یا ماحولیاتی شہادتوں پر نتیجہ نکالتے ہوئے یہ طے کیا کہ نوازشریف ہی لندن فلیٹس کے حقیقی مالک ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں نہ صرف یہ قبول کیا کہ متعلقہ دستاویزات کی عدم موجودگی میں ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت طے کرنا مشکل ہے لیکن یہ واضح کردیا کہ عدالت استغاثہ کے گمان پر بھروسہ کررہی ہے کہ مذکورہ جائیداد کے حقیقی مالک نوازشریف ہی ہیں، کیونکہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا کہ سابق وزیراعظم 1990کی دہائی سے ان اپارٹمنٹس میں رہتے چلے آرہے ہیں۔ فیصلے کے موثر حصے کے مطابق نوازشریف کے بچے 1990کی دہائی میں مالی اعتبار سے اس قدر مستحکم نہیں تھے اور اپارٹمنٹس کی خریداری کیلئے ذریعہ آمدن بھی نہ تھا۔ تاہم اسی دور میں ملزم نمبر۔ ایک نواز شریف اور ان کے والد ان ہی اپارٹمنٹس میں رہتے تھے۔ اسی بنیاد پر استغاثہ نے گمان کیا کہ نواز شریف ہی ان فلیٹس کے حقیقی مالک ہیں۔ فیصلے کے مطابق آف شور کمپنیوں کے ذریعہ خریدی گئی جائیداد کی ملکیت طے کرنا مشکل تھا کیونکہ رازداری کے پردے میں یہ آف شور کمپنیاں ٹیکس ہیون حدود میں قائم ہوتی ہیں۔ گمان کی بنیاد پر شہادت پر عدالت نے طے کیا کہ نواز شریف مذکورہ فلیٹس کے مالک ہیں اور تب اپارٹمنٹس کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکامی پر سزا سنا دی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف نے سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی دونوں کے سامنے فلیٹس کی ملکیت سے انکار کیا ، ان کے بڑے بیٹے حسین ان فلیٹس کے مالک خاندان کے واحد رکن ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے سامنے قطری خط سمیت دستاویزات پیش کیں تا کہ اس جائیداد کے حصول کا جواز پیش کر سکیں، تاہم وہ احتساب عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور مفرور قرار دیئے گئے۔ اب احتساب عدالت نے گمان کردہ شہادتوں کی بنیاد پر نواز شریف کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا مالک قرار دیا۔ جائیداد کیسے خریدی ذرائع بتانے یا وضاحت میں ناکامی پر نواز شریف کو سزا بھی سنا دی۔ نواز شریف کو دفعہ (V) 9-A )کے تحت سزا سنائی گئی جس کے تحت ’’ اگر وہ یا ان کے لواحقین یا بے نام دار مالکان اپنی معلوم آمدنی سے غیر متناسب مالی ذرائع رکھتا ہو، وضاحت میں ناکامی پر سزا وار ہے ، گو کہ گمان یا ماحولیاتی شہادتوں پر احتساب عدالت نے نواز شریف کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا حقیقی مالک قرار دیا۔ یہ وضاحت کرنے میں ناکام رہے کہ انہوں نے انہیں اپنے معلوم ذرائع آمدن سے خریدا ہے ۔ ایک نقص اور بھی ہے جو فیصلے کو کمزور کرتا ہے ۔ نیب قانون کی دفعہ ( V) (a) 9 )جس کے تحت نواز شریف اور دیگر کو سزا سنائی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وہ اپنے معنیٰ کھو چکا ہے ، احتساب عدالت کے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ نیب آرڈیننس کی مذکورہ دفعہ میں خلاف ورزیوں کی تمام تر جزویات کی جو وضاحت کی گئی ہے ، وہ معلوم ذرائع آمدن سے غیر متناسب نہیں ہے، تاہم غنی الرحمٰن بنام نیب مقدمہ میں سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے تحریر کردہ فیصلے کے مطابق استغاثہ کو جائیداد کے کرپشن کے جرم سے تعلق کو قائم کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے بغیر کوئی سزا نہیں دی جا سکتی ۔ اب نواز شریف ، مریم اور کیپٹن ( ر) محمد صفدر کے پاس سزائوں کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرنے کا حق ہے ۔ مجرموں کے پاس اسےچیلنج کرنے کیلئے یہ اچھا فیصلہ ہے ، یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ہائی کورٹ اس فیصلے سے کیا سلوک کرتی ہے ۔

تازہ ترین