• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدامنی کیس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کی بھرپور توجہ کراچی پر مرکوز ہے۔ حکومتی کارکردگی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا لہجہ بہت تلخ ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی اس جانب توجہ فرمائی اور یہ کہہ کر اس تلخ فضا کو شگفتگی کے لمحات عطا کر دیئے کہ ”کراچی میں آپریشن تیز کیا جائے“۔ اگر آپریشن سے مراد پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کا آپریشن ہے تو پوچھا جا سکتا ہے کہاں ہے؟ کدھر ہے؟ کس طرح کا ہے؟ جب ایسے کسی آپریشن کا وجود ہی نہیں تو پھر تیز کرنا، کیا معنی؟ رہا جرائم پیشہ عناصر کا ”مقبول خواص و عوام آپریشن“ تو وہ ایسے ٹہلانے والے احکام سے قطع نظر نہ صرف جاری ہے بلکہ مکمل سہولتوں کی موجودگی میں تیز سے تیز تر بھی ہوتا جا رہا ہے۔ اہل کراچی نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر بہ کثرت اس کے مناظر دیکھے۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی حضرت ابراہیم کی تعبیر خواب کی نوا، سیدنا اسمٰعیل کی قربانی کا فدیہ، محسن انسانیت ﷺ کی تعلیمات میں وہ مقام کہ فرمان ہے ”اگر وسعت کے باوجود کوئی قربانی نہ کرے تو ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے“۔ لیکن آقاﷺ کی اس سنّت کے ساتھ منسلک ہونا کراچی میں اس درجہ مشکل بنا دیا گیا کہ قربانی کے جانور بھی بھتہ خوری کا ذریعہ بن گئے۔ قربانی کی کھالوں کی چھیناجھپٹی اہل کراچی کیلئے اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ 80فی صد کھالیں اس سال بھی وہاں چلی گئیں جہاں کھالوں کے چلے جانے سے شہری سکون سا محسوس کرتے ہیں۔ قربانی سے پہلے پرچیوں کی تقسیم پر شہری کب کے مزاحمت ترک کر چکے لیکن اس مرتبہ نئی صورت یہ پیش آئی کہ جانور گھر پر لا کر باندھتے ہی بھتہ لینے والے پہنچ جاتے۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ کراچی میں رہیں اور بھتہ نہ دیں۔ مالداروں کے کارخانے آگ میں جھونکے جا رہے ہیں۔ قربانی کے جانوروں پر بھتہ، بھتہ خوری کا عوامی ایڈیشن تھا۔ بعض علاقوں میں عدم ادائیگی پر جانور کو گولی مار دی گئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس امیر مسلم ہانی نے نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ جوڑیا بازار کے علاقے میں کھال دینے سے انکار پر بھی جانوروں کو گولی مار دی گئی۔ جانوروں پر بھتے کے ریٹ مختلف علاقوں میں مختلف تھے۔ گائے کا بھتہ پانچ، سات ہزار سے 1500روپے جبکہ بکرے کا دو ہزار سے سات سو روپے تک تھا۔
کراچی میں زندگی بھتوں اور ٹارگٹ کلنگ کے فریم ورک میں زندہ رہنے کا نام ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں رواں سال اب تک 1900/افراد قتل کئے جا چکے ہیں۔ جہاں ہر روز دس، بارہ لاشیں گرنا معمول ہو وہاں یہ تعداد دہشت گردوں کو شرمندہ کرنے کے مترادف ہے۔ روزانہ ملنے والی پندرہ، بیس لاوارث لاشیں جن کی میڈیا میں خبر ہی نہیں آتی، اس صورت حال کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔ یہ خبر تو اب کراچی میں قاتلوں کے غلبے کا حوالہ بن چکی ہے کہ 1995-96ء میں ہونے والے آپریشن میں شریک تمام ایس ایچ اوز ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ 1992ء کے آپریشن میں شریک254پولیس اہلکار بھی زندگی سے محروم کر دیئے گئے۔ جہاں قاتلوں نے پولیس کو نشانے پر لے رکھا ہو وہاں شہریوں کی سلامتی کا حال کیا ہو گا۔ شہر علاقائی اور لسانی بنیاد پر تقسیم ہو چکا ہے۔ یہ ریمارکس عدالت عظمیٰ کے ایک محترم چیف جسٹس کے ہیں کہ کوئی غلطی سے کسی دوسرے کے علاقے میں چلا جائے تو اگلے دن اس کی بوری بند لاش ملتی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کراچی میں مرنے والوں کی تعداد کو ”اسکور“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی اس پر برہم ہو گئے لیکن حقیقت یہی ہے کہ حکومت کیلئے کراچی کا قتل عام کرکٹ اسکور کی طرح غیر جاندار اور کم مایہ عمل ہے۔ حکومتی ایوانوں میں جو کسی بھی سطح پر توجہ کے لائق نہیں، کراچی میں مذہب، سیاست اور حکومت کے عنوانات سے کام کرنے والی جماعتیں اور تنظیمیں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں اور بھتوں کی وصولی میں بھی۔ کراچی میں شاید ہی کوئی ہو جس نے کبھی بھتہ نہ دیا ہو۔ تاجروں اور صنعت کاروں کے باب میں یہ عمل اتنا تیز ہے کہ سرمایہ طوفانی رفتار سے کراچی سے بھاگ رہا ہے۔ جو تاجر کراچی میں رہنے پر مجبور ہیں وہ آئے دن بھتہ خوری کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کرتے رہتے ہیں۔ بھتہ شہر میں لسانی تقسیم، سیاسی دشمنیوں اور قتل و غارت کی اہم وجہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی کی ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ جس میں پونے تین سو کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہو گئے تھے، بھتہ خور گروہوں کے آپس کے مقابلے کا نتیجہ ہے۔ پہلے پرچی بھیجی جاتی تھی اب دیدہ دلیری کا یہ حال کہ بھتہ خور ازخود پہنچ جاتے ہیں۔
کئی عشروں سے امن و امان کی صورت حال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ کراچی میں رہتے ہوئے اس کے سامنے گردن جھکائے بغیر چارہ نہیں۔ المیہ در المیہ یہ ہے کہ لاقانونیت کے یہ مظاہر کسی دور افتادہ قبائلی علاقے کے نہیں بلکہ ایک ایسے شہر کا احوال ہیں جسے کس قدر فخر سے ملک کا سب سے بڑا شہر کہا جاتا ہے۔ جہاں تھانے ہیں، پولیس ہے، انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں، رینجرز ہے، فوج ہے، سپریم کورٹ ہے، ہائی کورٹ ہے، سول عدالتیں ہیں، پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا سینٹر ہے، الیکشن ہے، جمہوریت ہے، سیاسی جماعتیں ہیں، رفاہی اور فلاحی اداروں کا جال ہے لیکن جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے سب غیر موثر۔ کراچی کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ اس کو کسی قانون اور نظم کے تابع رکھنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ قانون سے انحراف برسر زمین بھی وسیع ہے اور مختلف مافیاؤں کی صورت زیر زمین بھی۔ ان مافیاؤں اور قاتل گروہوں میں کسی بھی عنوان تصادم آئے دن کا معمول ہے، جو شہر کے بڑے حصے کو متاثر کر دیتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ گروہ عوامی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں اور شہر کی فضاؤں پر غالب رہنا بھی جانتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان مافیاز اور منظم جرائم پیشہ عناصر کو سیاسی، جماعتی اور مذہبی عصبیت بھی حاصل ہے۔ سیاسی، لسانی اور مذہبی جماعتیں نہ صرف ان کی پشت پناہی کرتی ہیں بلکہ انہیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال بھی کرتی ہیں۔ یہ مافیاز ان برسرزمین جماعتوں کے قاتل ونگ کا کردار ادا کرتی ہیں۔ صوبائی حکومت بھی ان قاتل مافیاز کی معاونت میں کسی سے پیچھے نہیں اور متوازی عدالتی نظام چلاتے ہوئے پانچ سے سات افراد کے قاتل کو بھی پیرول پر رہا کر دیتی ہے۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے دور میں بھیانک جرائم میں ملوث ملزمان کی پیرول پر رہائی پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ کراچی میں خون اور آگ کا کھیل کھیلنے والے عناصر، تنظیمیں، جماعتیں ان کے زیر سایہ پرورش پانے والے تربیت یافتہ قاتل اور مافیا گروہ سب جانے پہچانے ہیں۔ حکومت سمیت سب نے مصلحتوں کا شکار ہو کر کراچی کو ان کے سپرد کر رکھا ہے۔ کراچی کے مسئلے کا حل سب جانتے ہیں لیکن نہ کہیں حل کرنے کی خواہش ہے، ارادہ اور نہ ہمت۔
تازہ ترین