• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض تحریریں زمان ومکان کی پابند نہیں ہوتیں اور انہیں کسی دورمیں کسی بھی معاشرے پر منطبق کیا جا سکتا ہے ۔جارج آرویل کے سدابہار نوبل انعام یافتہ ناول ’’اینیمل فارم‘‘ کا شمار بھی ایسے ہی ادبی شہ پاروں میں ہوتا ہے۔احتساب عدالت سے نوازشریف ،ان کی صاحبزادی مریم نواز اورداماد کیپٹن (ر) صفدر کو سزا ہونے کے بعد بھانت بھانت کے تبصروں سے اکتاہٹ محسوس ہوئی تو میں نے ایک بار پھر اس دلچسپ ناول کی ورق گردانی کرتے ہوئے سوچا کیوں نہ اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔کہانی کچھ یوں ہے کہ مسٹر جونز نامی شخص کے فارم ہائوس میں موجود سب جانور مل کر آزادی کا خواب دیکھتے ہیں ۔وہ سوچتے ہیں کہ خوراک وافر مقدار میں دستیاب ہے ،زمین ذرخیز ہے ،وسائل کی کوئی کمی نہیں مگر پھر بھی جانور قابل رحم زندگی گزارتے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ فکر و تدبر پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی جانوروں کی محرومیوں اور مفلوک الحالی کا ذمہ دار ہے جو خود کاہل اور سست ہے ،جانوروں کی محنت و مشقت سے پر آسائش زندگی گزارتا ہے۔گائیں ہر سال ہزاروں گیلن دودھ دیتی ہیں ،مرغیاں انڈے دیتی ہیں ،گھوڑے انتھک کام کرتے ہیں،بھیڑ بکریوں کے بچے جو ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے چاہئیں ،انسان انہیں کاٹ کر کھا جاتا ہے۔خوشحال زندگی گزارنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان سے نجات حاصل کرو ۔جانور متحد ہو کر آزادی کی تحریک چلاتے ہیںجو کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہے اور پھر مسٹر جونز فارم ہائوس کا نام بدل کر ’’جانورفارم‘‘ رکھ دیا جاتا ہے۔نیا آئین مرتب ہوتا ہے اور سب جانور خوشحال زندگی کے سہانے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
انسانوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جانور تب ایک نئی مشکل میں گرفتار ہو جاتے ہیں جب خنزیر بالادست طبقے کی حیثیت سے ’’جانورفارم‘‘ کے تمام معاملات اپنی مضبوط گرفت میں لے لیتے ہیں اور استحصال کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔دودھ ،سیب اور اس نوع کی دیگر صحت افزا خوراک تمام جانوروں میں مساوی تقسیم کرنے کے بجائے یہ بالادست جانور خود ہڑپ کر جاتے ہیں جب بعض جانور اس امتیازی سلوک پر احتجاج کرتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر مطمئن کر دیا جاتا ہے کہ دودھ اور سیب خنزیروں کو پسند نہیں مگر وہ ’’جانورفارم‘‘ کے وسیع تر مفاد میں یہ اشیاء استعمال کرتے ہیں کیونکہ دیگر جانوروں کو بیرونی دشمن سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی صحت کا خیال کریں ۔وہ چرب زبانی سے جانوروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ انکے دودھ اور سیب کھانے کا فائدہ دراصل دیگر جانوروں کو ہی ہوگا۔ ’’جانورفارم‘‘ کے قیام کے وقت تحریر کئے گئے متفقہ آئین میں جو سات بنیادی اصول وضع کئے گئے تھے انہیں نہایت چالاکی کیساتھ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر آئین میں لکھے گئے اس جملے ’’کوئی جانور کسی جانور کا خون نہیں کریگا‘‘میں بلاجواز کا اضافہ کرکے گنجائش نکال لی جاتی ہے طے کیا گیا تھا کہ ’’جانورفارم میں کوئی بھی انسانوں کی طرح بستر پر نہیں سوئے گا ‘‘ مگر اس جملے میں یوں تحریف کر دی جاتی ہے کہ کوئی جانور چادر بچھا کر بستر پر نہیں سوئے گا ۔بنیادی اصولوں کے تحت شراب پینے پر پابندی تھی مگر بالادست طبقے کیلئے اس جملے میں تحریف کر کے نیا اصول وضع کیا گیا کہ کوئی جانور ضرورت سے زیادہ شراب نہیں پیئے گا ۔ آئین میں سب جانوروں کو یکساں حقوق دینے کیلئے یہ شق رکھی گئی تھی کہ تمام جانور برابر ہیں لیکن اس جملے کو تبدیل کرکے کچھ اس طرح کر دیا گیا ’’تمام جانور برابر ہیں لیکن چند جانور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ برابر ہیں۔(All animals are equal but some animals are more equal than others. )
طے تو یہ ہوا تھا کہ جانور انسانوں کی طرح زندگی نہیں گزاریں گے ،عمارتوں میں رہنے پر پابندی ہو گی ،تجارت نہیں کی جائے گی اور تمام فیصلے مشاورت سے ہونگے مگر ’’جانورفارم‘‘ کے منہ زور جانوروں نے ان تمام اصولوں کو موم کی ناک بنا ڈالا ۔خنزیر گھروں میں رہنے لگے اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ انہوں نے تمام اہم فیصلے کرنے ہوتے ہیں اس لئے ان کا گھروں میں رہنا اور بہتر نیند کرنا ضروری ہے ۔اسی طرح تجارت نہ کرنے کے اصول کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے ’’جانورفارم ‘‘ کے محافظ طبقے نے کاروبار کرنا شروع کر دیا ۔گھاس فروخت ہونے لگی ،دودھ بیچا جانے لگا ،انڈوں کے دام وصول کئے جانے لگے ۔جب بھی کوئی جانور بالادست طبقے کے ان کاروباری و معاشی مفادات کے خلاف آواز اٹھاتا تو اسے ’’جانورفارم ‘‘ سے غداری سمجھا جاتا ۔بالادست جانوروں نے جیسی ،بلیو بیل اور پنچر نامی خونخوار کتے رکھے ہوئے تھے جو اختلاف رائے رکھنے والوں جانوروں کو سبق سکھاتے ۔حق اور سچ کی آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کروا دیا گیا ۔گھوڑے اور گدھے تو دن رات کام کاج میں لگے رہتے اور کچھ سوچے سمجھے بغیر اس استعماری نظام کا حصہ بن گئے ۔بکریاں بہت ڈری اور سہمی ہوئی رہتیں ۔بھیڑیں بیچاری تو تھیں ہی جاہل اور ان پڑھ ،انہیں یہ بالادست طبقہ اپنے مذموم مقاصد کےلئے استعمال کرتا اور جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ،یہ بھیڑیں احتجاج کرنے کے لئے نکل آتیں اور ایک ہی بات کی جگالی کرنے لگتیں ’’چارٹانگوں والے دوست ،دو ٹانگوں والے دشمن ‘‘محکوموں پر گرفت مضبوط رکھنے کے لئے خوف اور دہشت کی فضا پیدا کرنا بہت ضروری ہے ،بالادست جانوروں کو اس بات کی سمجھ آئی تو ’’سنو بال‘‘ کا ہوا کھڑا کر دیا گیا ۔’’سنو بال ‘‘ جانوروں کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے لئے بغاوت کرنے والا ایک جانور تھا جسے جلا وطن ہونا پڑا۔پروپیگنڈا کیا جاتا کہ ’’سنو بال ‘‘ ہمارے دشمن انسانوں کیساتھ ملا ہوا ہے۔’’جانورفارم‘‘ میں سیب گرتے ،دودھ چوری ہوتا ،خواہ کسی درخت کی شاخ بھی ٹوٹتی تو اس کی ذمہ داری ’’سنوبال ‘‘ پر ڈال دی جاتی۔ ایک دن کچھ جانوروں نے ’’سنوبال ‘‘ کے حق میں بولنے کی کوشش کی توان پر خونخوار کتے چھوڑ دیئے گئے ،کچھ دیر بعد ہی وہاں تین مرغیاں ،ایک ہنس اور تین بھیڑیں مُردہ پڑی تھیں۔حتیٰ کہ دن رات محنت کرنے والے گھوڑے ’’باکسر‘‘ پر حملہ کر دیا گیا ۔اس دوران انسانوں نے حملہ کیا اور جنگ ہوئی تو بالادست جانور جنہوں نے ’’جانورفارم‘‘ کے تحفظ کی ذمہ داری لی تھی ان کے بجائے دیگر جانوروں نے قربانیاں دیکر ان حملہ آوروں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا مگرجب ایوارڈ دینے کا وقت آیا تو بالادست طبقے کے نمائندہ ’’نپولین ‘‘ کو سبز پرچم پر مشتمل سب سے اعلیٰ ایوارڈ دیا گیا ۔آخر کار بالادست جانوروں نے انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پرچلنا شروع کر دیا تو بیچاری بھیڑیں جو ’’چار ٹانگوں والے اچھے ،دو ٹانگوں والے بدمعاش‘‘کا راگ الاپتی رہتی تھیں ،مصیبت میں پڑ گئیں اور سوچنے لگیں کہ اب کیا نعرہ لگائیں ؟ایک بھیڑ نے نعرہ لگایا ’’چار ٹانگیں اچھی ،دو ٹانگیں بہتر ‘‘ اور پھر سب ملکر یہی نعرہ لگانے لگیں۔میری خواہش تھی کہ اس ناول کا اختتام خوش آئند ہو اور ’’جانورفارم‘‘ کے باسیوں کو بالادست طبقے سے نجات ملے مگر ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ‘‘حاصل کلام یہی ہے کہ کہنے کو ضرور سب جانور برابر ہوتے ہیں مگر بعض جانور وں کو دیگر کی نسبت غیر معمولی فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین