• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوں جوں الیکشن کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے عوامی بیداری کے آثار بڑھتے نظر آرہے ہیں، ہر پرانے نمائندے سے عوامی مکالمے کے سلسلے میں تیزی آگئی ہے، اس سلسلے میں پارٹی کی تمیز نہیں کہ کون رہنما کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، مگر اپنے نمائندوں سے سوال و جواب کرتے ہوئے ووٹر دکھائی دے رہے ہیں، کسی کو نہیں چھوڑا جارہا ہے سوائے اُن لوگوں کے جو آج بھی پروٹوکول کے ساتھ چل رہے ہیں کیونکہ اُن تک عوامی رسائی نہیں ہے، خورشید شاہ، مراد علی شاہ، نثار کھوڑو اور خود بلاول زرداری کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، پھر سوشل میڈیا سوالات سے بھرا پڑا ہے، سندھ کے وہ لوگ جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اتنے پسے ہوئے ہیں کہ اُن کی زبان تک نہیں کھل سکتی وہ جابجا سوشل میڈیا پر سابقہ حکمراں پارٹی اور اُن کی جائیدادوں کے بارے میں سوالات کررہے ہیں، پی ٹی آئی جس نے سب سے پہلے سوشل میڈیا کو بطور آلہ استعمال کیا تھا وہ بھی اس کی سخت زد میں ہے، کراچی میں اُن کے نمائندوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔مذہبی پارٹیاں بھی میدانِ عمل میں ہیں،مذہبی جماعتیں مسلم لیگ (ن) سے آئین کی ترمیم کے حوالے سے ناراض ہوگئی ہیں، ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیتی تھیں مگر اس دفعہ ووٹ نہیں دیں گی مگر وہ خود اتنے پُرجوش و پُراعتماد ہوگئے ہیں جیسے وہ ووٹ جیت لیں گے، اگرچہ یہ سب کچھ گریٹ گیم کا حصہ ہے، اُن کا ووٹ ضائع کرنا مقصود ہے اور اس طرح کسی پارٹی کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت کو بے اثر کردیا گیا ہے۔ اسی طرح سے ایک اور مذہبی پارٹی جو نواز شریف کے ساتھ رہی وہ بھی مسلم لیگ (ن) سے ناراض ہوگئی ہے مگر وہ بھی کوئی اثر نہیں ڈال سکے گی۔ اگر منشا یہ ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی اکثریت آئے تو سندھ میں اپ سیٹ ہوسکتا ہے اور پی پی پی کی جگہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیاں مل کر حکومت بنا سکتی ہیں اور پختونخوا میں عمران خان کو مشکلات کا سامنا ہے، عین ممکن ہے وہاں ایم ایم اے اپنا اثرورسوخ بڑھا لے مگر وہاں ایم ایم اے شدید اختلافات کا شکار ہے، تو پھر یہ ہوسکتا ہے کہ بلوچستان میں ایم ایم اے اور پی پی پی مل کر حکومت بنا لیں، کیونکہ ہر کسی کو نظام کے اندر رکھنا ہے، میاں محمد نواز شریف بہرحال سزا پا چکے، وہ ان جھمیلوں میں پھنسے رہیں گے۔
بات ہورہی تھی عوامی بیداری کی جس میں سوشل میڈیا نے انتہائی اہم کردار ادا کیا، ہر کوئی اپنی آواز اٹھا سکتا ہے اور اٹھا رہا ہے، پہلے وہ اخبارات اور ٹی وی کا محتاج ہوتا تھا اب وہ خود اپنا اخبار اور ٹی وی اسٹیشن کھولے بیٹھا ہے البتہ وہ اخبارات کی خبروں اور کالموں سے استفادہ ضرور کررہا ہے اور ٹی وی کے پروگراموں سے بھی اُس کی اچھی خاصی تربیت ہورہی ہے، اخبارات کے کالموں کا ہم نے یہ دیکھا کہ کسی اخبار میں کوئی اچھا مضمون غیراہم جگہ پر ہی کیوں نہ چھپا ہو وہ عوام کو پسند آیا تو اس پر انہوں نے فلمیں بنا لیں اور اس کالم کو من و عن پڑھ دیا۔ خود ہمارے ساتھ یہ ہوا کہ ہمارے درجنوں کالموں کو اتنا پسند کیا گیا کہ وہ وائرل ہوگئے۔ عدلیہ کے جو فیصلے آرہے ہیں اس نے جو صورتِ حال پیدا کی ہے وہ اگرچہ لوگوں کو پسند آرہی ہے مگر کہیں کہیں اختلاف بھی ہے، اتنے بڑے فیصلے آرہے ہیں کہ ملک میں کرپٹ لوگوں کو اب تک خوفزادہ ہوجانا چاہئے تھا مگر تاحال ایسا نہیں ہوا ہے، کرپشن سے کوئی اجتناب کرنے سے باز نہیں آرہا ۔ آپ حیران ہوں گے کہ پچھلے یوم آزادی کے موقع پر کراچی میں انتظامیہ نے ہر ضلع کو 22 لاکھ روپے پاکستانی پرچم لگانے کے لئے دیئے تو ایک ضلع میں وہاں کے ناظم اور ڈائریکٹر آف ایجوکیشن نے اس فنڈ کو خردبرد کردیا اور ایک جھنڈا بھی نہیں لگایا اور آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں، یہ نہ صرف کرپشن ہے بلکہ قومی جرم بھی ہے، جس کا حساب کتاب لیا جانا اور ان لوگوں کو سزا دینا ضروری ہے، جب میں نے بڑھتے ہوئے کرپشن پر دانشوروں سے رجوع کیا جس میں علمائے کرام بھی شامل تھے تو انہوں نے کہا کہ اس کو غیرمعمولی صورتِ حال کہا جاسکتا ہے اور معاشرے کی بے حسی قرار دیا جاسکتا ہے جس کے بعد کچھ سختیاں اللہ کی طرف سے آسکتی ہیں، جس کی زد سے پھر کوئی نہیں بچ سکے گا۔ عوامی بیداری کی سطح اتنی بلند ہے کہ اب وی آئی پی کلچر کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا ہے، کراچی کا ایک وکیل اور اسمبلی کا امیدوار سراپا احتجاج ہے اور اپنی بات عوام کو پہنچا رہے ہیں۔ اس پر سوال یہ ہے کہ اس بیداری کو صحیح رُخ پر ڈالنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی جو بہت خطرناک بات ہے، کیونکہ اس سے عوام میں انتشار اور بدنظمی کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ جو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے، ہم جیسے سیاسیات کے طالب علموں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اس قدر اکھاڑ پچھاڑ، سرحدوں پر دشمن کی چھڑ چھاڑ اور ملک میں شوروشرابا کوئی اچھی علامت نہیں ہے، ہمارے لئے یہ بات بہت اہم ہے کہ ملک میں بدنظمی نہ ہو، یونانی فلسفی افلاطون، ارسطو اور مسلم فلسفی ابن خلدون اور دیگر بدنظمی کے مقابلے میں کسی نظم کے حامی ہیں چاہے وہ کسی قسم کا ہو اگرچہ اس نظم کی میں تشریح نہیں کررہا ہوں۔ بہت سے لوگ موجودہ بیداری کے ساتھ جو ہوا کا رُخ پلٹا ہے کہ ہر کس و ناکس ایک ہی پارٹی میں جارہا ہے وہ اسے اچھا نہیں گردان رہے ہیں بلکہ اسے انجینئرڈ کہہ رہے ہیں، ایک سابقہ صحافی اور انتہائی مراعات یافتہ شخص یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ جو کچھ ہورہا ہے ٹھیک نہیں ہورہا، اس کے نتائج ٹھیک نہیں نکلیں گے۔ مجھے یہ یاد ہے کہ یہی شخص ایک وزیر کے سامنے مجھ سے درخواست گزار تھا کہ ایک ٹیکس محتسب سے میں اُسے بچا دوں مگر جب محتسب سے کہا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی لندن میں پہلے سے جائیداد تھی اس کی ایک اور نکل آئی تو وہ بھی احتساب کی زد میں آجائیں گے۔ اس سلسلے میں ایک رائے یہ ہے کہ ملک میں سیاستدانوں کو کھیل کود کا موقع اس لئے دیا جارہا ہے کہ ملک کا دفاع مضبوط ہے، دشمن حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اس صورتِ حال کا فائدہ بھی نہیں اٹھا سکتا کیونکہ دوسرا نظام منظم اور مربوط ہے اس لئے کوئی غلطی کی جرأت نہیں کرسکتا، اگر یہ دلیل درست ہے تو ٹھیک ہے مگر ہم نے کئی مواقع پر ایسی دلیلیں ناکام ہوتی دیکھی ہیں، البتہ ایم کیو ایم کے معاملے میں جو بندوبست کیا گیا وہ حسب ِمنشا تھا کہ خون خرابہ نہیں ہوا ہے، اسلئے امید کی جاسکتی ہے کہ الیکشن پُرامن ہونگے اور عوام اچھے امیدوار منتخب کریں گے۔

تازہ ترین